کامنی کوشل اپنی پہلی فلم ''نیچا گھر‘‘ کی ریلیز کے بعد سٹار بن چکی تھی۔ دلچسپ بات یہ کہ اس کا خواب کبھی فلم سٹار بننا نہیں تھا۔ بس ایک اتفاق اسے فلم کی دنیا میں لے آیا تھا۔ بعض دفعہ حالات ہماری زندگی کی راہ کا تعین کرتے ہیں۔ اسے اب بہت سی فلموں کی پیش کش ہونے لگی تھی۔ اسی زمانے میں دلیپ کمار نے بھی فلم میں اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ دلیپ کی پہلی فلم جوار بھاٹا 1944ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ دلیپ کمار کی شخصیت میں ایک ٹھہراؤ اورلہجے میں شائستگی تھی وہ اردو بولتا تو یوں لگتا کوئی اہلِ زبان اردو بول رہا ہے حالانکہ اس کی مادری زبان ہندکو تھی۔ ادھر کامنی کوشل ایک شوخ وشنگ لڑکی تھی شرارت جس کے اَنگ اَنگ میں بھری تھی۔ پہلی نظر میں ہی دلیپ کو کامنی کوشل سے محبت ہو گئی۔ یہ محبت یک طرفہ نہ تھی۔ کامنی کوشل بھی دلیپ کی سحر انگیز شخصیت کی اسیر ہو گئی تھی۔ بعد میں دلیپ کمار اور کامنی کوشل نے کئی فلموں میں اکٹھے کام کیا۔ ان فلموں میں ندیا کے پار(1948ء)‘ شہید (1948ء)‘ شبنم (1949ء) اور آرزو (1950ء) شامل ہیں۔ لوگوں نے کامنی اور دلیپ کی فلمی جوڑی کو بہت پسند کیا۔ دلیپ کمار کامنی سے محبت میں سنجیدہ تھا‘ کامنی بھی اسے پسند کرتی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کیساتھ زندگی گزارنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔
لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ لاہور میں معمول کا ایک دن تھا۔ جب کامنی کو خبر ملی کہ اس کی بڑی بہن اُو شاکا سڑک کے ایک حادثے میں انتقال ہو گیا۔ اُوشا کی دو ننھی منی بیٹیاں کُم کُم اور کویتا تھیں جن کی عمریں دو اور تین سال تھیں۔ کامنی نے سوچا ماں کے بغیر وہ اس بھری دنیا میں کیا کریں گی۔ اب ایک طرف کُم کُم اور کویتا کے معصوم چہرے تھے اور دوسری طرف اس کی محبت دلیپ کمار۔ فیصلہ آسان نہ تھا۔ اس کے دل و دماغ میں کئی دن تک جنگ جاری رہی۔ آخر کامنی کوشل ایک نتیجے پر پہنچ گئی کہ وہ اپنی مرحومہ بہن کے شوہر سے شادی کرے گی۔ اس کے ذہن میں اس شادی کا واحد مقصد اپنی بھانجیوں کی پرورش تھا۔ اس فیصلے میں گھر کے کسی فرد کا مشورہ شامل نہیں تھا۔ دلیپ کمار کو یہ خبر ملی تو اسے یقین نہ آیا۔اس نے تو کامنی کے ساتھ ساری عمر بتانے کے خواب دیکھے تھے۔ اس دُکھ کا سایہ اس کے ساتھ ہمیشہ رہا۔ بعد میں اپنی سوانح عمری میں بھی دلیپ نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ کامنی اس کی پہلی محبت تھی۔
کامنی نہ صرف دلیپ کمار کے ساتھ شادی کے خواب سے دستبردار ہوئی تھی بلکہ ایک اور خواب کی بھی قربانی دی تھی۔ اس کا دوسرا خواب ایم اے انگلش کرنا تھا۔ لیکن وہ کامنی تھی‘ اُسے معلوم تھا محبت کی دنیا میںبعض اوقات جیتنے کے لیے ہارنا پڑتا ہے۔اب ہندوستان کی تقسیم ہو چکی تھی اور سب کچھ بدل گیا تھا۔ دونوں طرف سے ہجرت جاری تھی۔ لاہور سے ہندوؤں اور سکھوں کی بڑی تعداد اپنے گھر چھوڑ‘ سرحد کے پار چلی گئی۔
کامنی کے دل کا عالم عجیب تھا جب وہ اپنے محبوب شہر لاہور‘ اپنے بچپن کے گھر اور اپنے دلبر کنیئرڈ کالج سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو رہی تھی۔ اس کی زندگی کے سب سے حسین دن یہیں گزرے تھے۔ لاہور سے اگلی منزل بمبئی تھی جہاں کامنی کا خاوند بمبئی پورٹ ٹرسٹ میں چیف انجینئر تھا۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اداکارائیں شادی کے بعد اپنے فنی سفر کو جاری نہیں رکھ سکتیں لیکن کامنی کی پہلی ہی فلم کی کامیابی نے اسے مقبول اداکارہ بنا دیا تھا اور مختلف فلمساز اسے اپنی فلم میں کام کرنے کی پیش کش کر رہے تھے۔ کامنی کے خاوند نے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی اور یوں وہ فلمی دنیا کی طرف لوٹ آئی۔
کامنی کوشل نے اپنے وقت کے معروف اداکاروں کے مقابل فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے جن میں راج کپور کے ساتھ (جیل یا ترا‘ آگ)‘ اشوک کمار کے ساتھ (پونم‘ نائٹ کلب) دیو آنند کے ساتھ (ضدی‘ شیر) اور دلیپ کمار کے ساتھ (ندیا کے پار‘ شہید‘ آرزو‘ شبنم) میں کام کیا۔ دلیپ کمار اور کامنی کوشل کی جوڑی کو لوگ پسند کرتے تھے لیکن یہ جوڑی صرف فلموں تک محدود تھی‘ حقیقی دنیا میں کامنی کوشل نے اپنے حدود کا واضح تعین کر لیا تھا۔ شادی کے بعد اس کی توجہ کا مرکز صرف اس کا شوہر اور اس کے بچے تھے۔ کامنی کوشل کی ایک یادگار فلم ''بیراج بہو‘‘ تھی جو 1954ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر بمل رائے تھے‘فلم کی کہانی ایک بنگالی ناول سے لی گئی تھی۔ اس فلم میں بہترین اداکاری پر کامنی کوشل کو فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
وقت کا دریا رُکتا نہیں اور تغیر ہی زندگی کی پہچان ہے۔ ماہ و سال گزرتے گئے۔ اب کامنی کوشل وہ شوخ و شنگ لڑکی نہیں رہی تھی۔ وقت اور ذمہ داریوں نے اسے سنجیدہ بنا دیا تھا۔ اب وہ ہیروئن کے کردار کے بجائے کریکٹر ایکٹر کے رول کرنے لگی تھی لیکن اس کی اداکاری کے معیار میں فرق نہیں آیا تھا۔ 2023ء میں ریلیز ہونے والی فلم کبیر سنگھ میں اسے بہترین سپورٹنگ ایکٹر کا سکرین ایوارڈ ملا۔
2024ء میں کامنی کوشل کی عمر 97برس ہو چکی ہے لیکن وہ ذہنی طور پر اب بھی مستعد ہے۔ وہ بمبئی میں رہتی ہے‘اس کے گھر میں طرح طرح کے پودے اور پھول ہیں۔ پودوں اور پھولوں سے عشق اسے اپنے والد پروفیسر کیشپ سے ورثے میں ملا تھا جو علم نباتیات کا ماہر تھا اور جس کی شہرت عالمی سطح پر تھی۔ کامنی کوشل کو دولت‘ عزت اور شہرت سب کچھ میسر تھا لیکن جب وہ بمبئی کے گھر میں اکیلی ہوتی‘ اسے تنہائی کے لمحوں میں لاہور والے گھر اور کنیئرڈ کالج کی یاد آتی‘ وہ اداس ہو جاتی۔ آخر 1962ء میں اسے لاہور واپس آنے کا موقع مل گیاجہاں وہ اپنا بچپن کا گھر دیکھنے گئی۔ وہ گھر جو اس کے خوابوں میں آتا تھا‘ اب اس کے سامنے تھا۔ اسے یوں لگا اس کا بچپن پھر سے زندہ ہو گیا ہے۔ اب اس گھر میں دوسرے مکین آباد تھے جو گرم جوشی سے کامنی سے ملے۔ کامنی کو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس کے گھر میں بہت سی چیزیں اپنی اصل حالت میں تھیں۔ محلے کے لوگ اسے محبت سے مل رہے تھے۔ اسے یوں لگا پرانا وقت لوٹ آیا ہے۔اس کے بعد بھی کامنی دو بار لاہور آئی۔ ایک بار وہ گورنمنٹ کالج لاہو ر اور اپنے کنیئرڈ کالج بھی گئی جہاں تقریبات کے سلسلے میں بھارت سے کالج کی بہت سی پرانی طالبات آئی ہوئی تھیں۔ کالج کے درودیوار کو دیکھنا اور اپنی پرانی ہم جولیوں سے ملنا ایک یاد گار تجربہ تھا۔
لاہور سے رخصت ہوئے اب کامنی کوشل کو کتنی ہی دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن اب بھی اس کے دل میں لاہور دھڑکتا ہے۔ اب بھی وہ اپنے خوابوں میں خود کو لاہور کے پرانے گھر میں دیکھتی ہے۔ وہی گھر جس کے اردگرد یوکلپٹس کے اونچے لمبے درخت تھے۔ درختوں کے بعدکھٹے کی باڑ آتی تھی اور اس کے بعد رنگ برنگ پھولوں کی کیاریاں تھیں اور پھر ڈرائیو وے اور اس سے آگے اس کے گھر کی عمارت۔ اب بھی بمبئی کے گھر میں بیٹھے تنہائی کے لمحوں میں کامنی کوشل آنکھیں بند کر کے تصور کے دوش پر لاہور پہنچ جاتی ہے اور دیر تک اس کے گلی کوچوں میں گھومتی رہتی ہے۔ پھر اس کے ہونٹوں پر خود بخود مسکراہٹ آجاتی ہے اور وہ سوچتی ہے۔ لوگ سچ ہی کہتے ہیں آپ لاہور سے چلے بھی جائیں لاہور آپ کے اندر سے کبھی نہیں جاتا۔