یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب میں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا۔ ان دنوں ہم راولپنڈی کے ایک قدیم محلے ٹینچ بھاٹہ میں رہتے تھے۔ یہ 60 ء کی دہائی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ انہی دنوں کی بات ہے جب میں نے اپنے گھر میں ایوب خان اور محترمہ فاطمہ کا تذکرہ سنا۔ اُس وقت ہمارے گھر میں گفتگو کا یہی ایک موضوع تھا۔
ایوب خان کے پاس فیلڈ مارشل کا عہدہ بھی تھا‘ یوں اُن کے پاس فوج کی طاقت بھی تھی۔ الیکشن کا اعلان ہوتے ہی اُس وقت کی اپوزیشن نے سر جوڑ لیے۔ ایسے میں سب کی نگاہِ انتخاب محترمہ فاطمہ جناح پر ٹھہری۔ قائداعظم کی بہن ہونے کی وجہ سے محترمہ فاطمہ جناح کیلئے لوگوں کے دلوں میں محبت اور احترام کے جذبات تھے۔ یوں فاطمہ جناح کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی آف پاکستان کی امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔ اُس وقت فاطمہ جناح کی عمر 71 برس تھی۔ وہ جسمانی لحاظ سے نحیف تھیں لیکن وطن کے لیے کچھ کر گزرنے کے جذبے نے انہیں شعلہ صفت بنا دیا۔ یوں تو ایوب خان اور فاطمہ جناح کے علاوہ دو اور امیدوار بھی میدان میں تھے لیکن اصل مقابلہ ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان تھا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کا انتخابی نشان گلاب کا پھول تھا جبکہ محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین تھا۔ حکومتی اور سرکاری مشینری اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ایوب خان کی انتخابی مہم چلا رہی تھی جبکہ فاطمہ جناح کے شیدائیوں کے پاس جذبے کی طاقت تھی۔ بازار تک جانے کے لیے ہمیں گھر سے نکل کر دائیں ہاتھ جانا پڑتا تھا۔ میں جونہی دائیں طرف کا رُخ کرتا‘ دائیں ہاتھ ایک مکان کی دیوار پر سٹینسل سے محترمہ فاطمہ جناح کا اشتہار لکھا ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ اس اشتہار میں لالٹین کی تصویر تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کا نام تھا اور آغاز میں ایک شعر تھا:
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
''پھولوں‘‘ سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اصل شعر میں دوسر ا مصرع یوں ہے ''پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘۔ اس انتخاب میں ایک طرف حکومتی وسائل تھے اور بی ڈی (Basic Democracy) کے ممبرز کو دَھن اور دھونس سے خریدا جا رہا تھا۔ دوسری طرف سیاسی رہنماؤں نے اختلافات بھول کر اپنا سارا وزن محترمہ فاطمہ جناح کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ ان رہنماؤں میں عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن‘ کنونشن مسلم لیگ کے ممتاز دولتانہ‘ جماعت اسلامی کے سید ابوالاعلیٰ مودودی اور نیشنل عوامی پارٹی کے خان عبد الولی خان شامل تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں دائیں اور بائیں بازو کی تفریق مٹ چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح نے جب عوامی جلسوں کا آغاز کیا تو لوگوں نے ان کی والہانہ پذیرائی کی۔ مغربی اور مشرقی پاکستان‘ ملک کے دونوں حصوں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے‘ لیکن یہ براہِ راست انتخاب نہیں تھا۔ 80 ہزار بی ڈی ممبرز کا انتخاب ہونا تھا اور پھر ان بی ڈی ممبرز نے صدارتی امیدوار کا فیصلہ کرنا تھا۔ فاطمہ جناح کے لیے لوگوں کی بے لوث محبت تھی۔ قوم نے انہیں مادرِ ملت کا خطاب دیا تھا۔ ان کی بزرگانہ شخصیت واقعی ایسی تھی۔ فاطمہ جناح کا تعلق کراچی سے تھا جہاں آبادی کی ایک بڑی تعداد ہندوستان سے ہجرت کر کے آئی تھی۔ مہاجرین کی ساری بستیاں فاطمہ جناح کو سپورٹ کر رہی تھیں۔
ریاستی ادارے اور اہلکار ایوب خان کی حمایت میں کس حد تک ملوث تھے‘ اس کی ایک جھلک سابق آئی جی پولیس محترم حافظ صباح الدین جامی کی کتاب Police, Crime & Politics: Memoirs of an IGP میں دیکھی جا سکتی ہے۔حامد میر نے مجھے بتایا کہ یہ کتاب لاہور کے اشاعتی ادارے Vanguardنے 1997ء میں شائع کی تھی۔ میرا جی چاہا کہ فوراً یہ کتاب میرے ہاتھ آئے اور میں جامی صاحب کے ذریعے اُن دنوں کا احوال جان سکوں جب پاکستان میں ایک نئی تاریخ لکھی جا رہی تھی۔ لیکن میرے راستے میں ایک مجبوری حائل تھی۔
اِن دنوں میں ایک سرجری کے نتیجے میں گھر پر ہوں اور میری نقل و حرکت محدود ہے۔ ایسے میں مجھے کاشف منظور کا خیال آیا۔ وہ آج کل ڈی جی پبلک لائبریریز پنجاب کے عہدے پر کام کر رہے ہیں اور کتابوں کے جوہری ہیں۔ میں نے فون پر ان سے درخواست کی۔ اگلے ہی روز یہ کتاب میرے پاس تھی۔ یہ کتاب ایک ایسے پولیس افسر کی کہانی ہے جس کی ٹریننگ کا آغاز مشرقی پاکستان سے ہوا اور جس نے ملک کے مختلف شعبوں میں اپنے فرائض سرانجام دیے۔ یہ ایک دلچسپ کتاب ہے جس نے کئی Myths کو چکنا چور کیا۔ ان میں سے ایک مِتھ یہ ہے کہ یحییٰ خان کے کرائے گئے الیکشن منصفانہ تھے۔ کتاب کا آٹھواں باب Police and Politics ہے جس میں پولیس اور سیاست کے گٹھ جوڑ پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے اور اس ضمن میں کئی مثالیں دی گئی ہیں۔کتاب کا دسواں باب In the Service of Karachi ہے جس میں جامی صاحب نے اور باتوں کے علاوہ تفصیل سے 1965ء کے ایوب خان اور فاطمہ جناح کے الیکشن کے حوالے سے بات کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب 1964ء کے دسمبر میں بطور ایس پی سپیشل برانچ ان کی پوسٹنگ کراچی ہوئی تو الیکشن کمپین عروج پر تھی۔ کراچی چونکہ محترمہ فاطمہ جناح کا شہر تھا اس لیے حکومت کی خاص طور پر یہ کوشش تھی کہ کراچی میں فاطمہ جناح جیت نہ پائیں۔ ایوب خان کی الیکشن کمپین میں محمد شعیب (وزیرِ خزانہ)‘ عبد الغفار پاشا (صوبائی وزیر)‘ خان بہادر حبیب اللہ‘ محمد یوسف ہارون اور اے ایچ قریشی جیسے بااثر لوگ شریک تھے۔ بقول صباح الدین جامی‘ انتظامیہ کھلم کھلا فیلڈ مارشل ایوب خان کا ساتھ دے رہی تھی۔ یہ انتخاب بیورو کریسی کے لیے ایک امتحان تھا اور ایوب خان کی جیت اس امتحان میں ان کی کامیابی کی ضمانت تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنا سارا وزن ایوب خان کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔
محترمہ فاطمہ جناح اس صورتحال سے بے خبر نہ تھیں۔ انہیں سرکاری اہلکاروں کی سرگرمیوں کی اطلاعات تواتر سے مل رہی تھیں لیکن وہ ان ہتھکنڈوں سے مرعوب ہونے والی نہیں تھیں۔ خوف کبھی ان کی شخصیت کا حصہ نہ رہا تھا۔ ان دنوں روئیداد خان کراچی کے کمشنر اور آصف مجید ڈی آئی جی تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اعلان کیا کہ اگر کراچی کے کمشنر اور ڈی آئی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو انہیں سرِ عام پاکستان چوک میں پھانسی دی جائے گی۔ یہ تو مغربی پاکستان کے شہر کراچی کا احوال تھا۔ اُدھر مشرقی پاکستان میں بھی حیرت انگیز طور پر محترمہ فاطمہ جناح کو سپورٹ مل رہی تھی۔ محترم حامد میر نے مجھے ایک گفتگو میں بتایا کہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نہ صرف فاطمہ جناح کے پُرجوش حامی تھے بلکہ وہ فاطمہ جناح کے پولنگ ایجنٹ بھی تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی کے ایک صدر مولانا بھاشانی تھے جو بظاہر فاطمہ جناح کی حمایت کر رہے تھے لیکن درِ پردہ ان کی ہمدردیاں ایوب خان نے پیسے کے زور پر خرید لی تھیں۔ ہمارے گھر میں اُن دنوں جذبات کا عجیب عالم تھا۔ لگتا تھا جیسے یہ انتخاب نہیں زندگی اور موت کی جنگ ہے۔ اُس زمانے میں ٹی وی نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے گھر میں Tesla کا ایک ریڈیو تھا جو خبروں کا واحد ذریعہ تھا یا پھر اخبار‘ جس سے ہمیں حالات سے آگاہی ہوتی تھی۔ آخر الیکشن کا دن آہی گیا۔ یہ ہفتے کا دن تھا اور جنوری کی دو تاریخ۔ پتا نہیں کیوں ہمیں یقین تھا کہ الیکشن میں جیت محترمہ فاطمہ جناح کی ہی ہو گی۔ (جاری)