"SSC" (space) message & send to 7575

کمپنی بہادر: تجارت‘ سیاست اور حکومت …(8)

اومی چند نے سراج الدولہ کے خلاف منصوبے کے حوالے سے زبان بند رکھنے کی قیمت تیس لاکھ روپے لگائی تھی۔ کلائیو نے کمپنی کے افسرانِ بالا سے مل کر ایک ایسا عیارانہ منصوبہ بنایا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ کلائیو اور اس کے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ معاہدے کی دو دستاویزات تیار کی جائیں گی۔ ایک اصلی اور دوسری نقلی۔ اصلی دستاویز سفید کاغذ پر ہو گی جس میں اومی چند کے علاوہ باقی فریقوں کا ذکر ہو گا اور اُن سب فریقوں کے دستخط ہوں گے۔ یہ دستاویز اومی چند کو نہیں دکھائی جائے گی۔ دوسری دستاویز سرخ رنگ کے کاغذ پر ہو گی‘ یہ دستاویز دراصل ایک جعلی معاہدہ ہو گا جس میں دیگر فریقوں کے ساتھ اومی چند کا بھی ذکر ہوگا اور سب لوگوں کے دستخط ہوں گے لیکن برطانوی نمائندے واٹسن (Watson) کے اصل کے بجائے جعلی دستخط ہوں گے۔ یوں برطانوی حکومت کے نمائندے واٹسن نے صرف سفید کاغذ والی دستاویز پر اپنے دستخط کیے اور سرخ کاغذ والی دستاویز پر واٹسن کے بجائے اس کے جعلی دستخط کلائیو نے کیے تھے۔ یوں اس جعلی دستاویز کی کوئی قانونی حیثیت نہ تھی۔ اومی چند کو صرف سرخ کاغذ والی دستاویز دکھائی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاندیدہ اومی چند کو ذرا بھی شک نہ ہوا کہ اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس نے معاہدے کی عبارت پڑھی‘ فریقین کے دستخطوں کو دیکھا اور پورے اطمینان سے دستاویز پر دستخط کر دیے۔ معاہدے کو تحریری شکل میں دیکھ کر اسے یقین اور اطمینان ہو گیا تھا کہ سراج الدولہ کی شکست کی صورت میں اسے 30 لاکھ روپے ملیں گے۔ معاہدے کے مطابق اس نے اپنی زبان بند رکھنا تھی۔ دونوں معاہدوں پر 4 جون 1757ء کو دستخط کیے گئے تھے۔ اب اومی چند دن گن رہا تھا کہ کب سراج الدولہ کو شکست ہو اور کب اسے معاہدے کے مطابق تیس لاکھ کی رقم ملے۔
فوجی اور سیاسی سطح پر بھرپور تیاری کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی افواج نے ہگلی پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس حملے میں سراج الدولہ کی فوج کے متعدد سپاہیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ نواب سراج الدولہ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے حملے اور اپنے سپاہیوں کی ہلاکت کی خبر ملی تو اس نے اپنی فوج کو تیاری کا حکم دیا اور ساتھ ہی برطانوی حکومت کے نمائندے واٹسن کو خط لکھا کہ آپ لوگوں نے ہگلی پر بلااشتعال قبضہ کیا اور وہاں لوٹ مار کی‘ جو ایک ناپسندیدہ حرکت ہے۔ نواب نے اس خط میں یہ اطلاع بھی دی کہ میں مرشد آباد سے فوج کے ہمراہ ہگلی کی طرف آ رہا ہوں لیکن اگر آپ جنگ کے بجائے صلح کے ذریعے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں‘ ایسی صورت میں آپ صلح کے لیے اپنا نمائندہ میرے پاس بھیج سکتے ہیں۔ نواب نے مزید لکھا کہ میں آپ کو تجارتی مراعات کی بحالی کے لیے بھی تیار ہوں لیکن اگر آپ جنگ چاہتے ہیں تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔
کلائیو اور واٹسن نہ صرف فوجی لحاظ سے اپنے آپ مضبوط کر چکے تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ سراج الدولہ کے ساتھیوں کو بھی اپنی سازشوں کے جال میں پھانس چکے تھے۔ کلائیو نے سراج الدولہ کے خط کے جواب میں اپنے دو نمائندے سراج الدولہ کی طرف روانہ کیے۔ یہ نمائندے صلح یا مذاکرات سے زیادہ سراج الدولہ کی فوج اور نواب کے کیمپ کے محل وقوع اور نقل وحرکت کا جائزہ لینے گئے تھے۔ ایک طرف نواب سراج الدولہ کو یہ تاثر دیا گیا کہ وہ صلح کے مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن دوسری طرف کلائیو کے ارادے کچھ اور تھے۔ اس کے بظاہر صلح کے لیے گئے ہوئے نمائندوں نے رات کو کلائیو کو نواب سراج الدولہ کے کیمپ کی لوکیشن کی اطلاع دی۔ کلائیو اسی اطلاع کا منتظر تھا۔ اگلے ہی روز صبح دم کلائیو کی فوج نے سراج الدولہ کی فوج پر حملہ کر دیا اور ایک دستہ براہِ راست اس کیمپ کی طرف بڑھا جہاں سراج الدولہ قیام پذیر تھا۔ یہ سراج الدولہ اور اس کی فوج کے لیے انتہائی غیر متوقع حملہ تھا جس سے اس کے لشکری گھبرا گئے۔ مزید ابتری سراج الدولہ کے ان سپہ سالاروں نے پھیلائی جو بظاہر تو اس کے کیمپ میں تھے لیکن دراصل اس سازش میں شریک تھے‘ جس کا مقصد سراج الدولہ کے اقتدار کا خاتمہ تھا۔ اس اچانک حملے سے نواب کی فوج میں ابتری پھیل چکی تھی جس میں مرکزی کردار ان سپہ سالاروں ہی کا تھا جو درونِ پردہ کلائیوکے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ اپنی فوج کی یہ حالت دیکھ کر سراج الدولہ نے سوچا کہ بہتری اسی میں ہے کہ لڑنے کے بجائے وقتی طور پر پیچھے ہٹا جائے اور مزید نقصانات سے بچنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر لیا جائے۔ یوں 9 فروری 1757ء کو سراج الدولہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کے اہم نکات یہ تھے:
ان تمام مراعات کو تسلیم کرنا جو دہلی کے بادشاہ نے کمپنی کو دے رکھی تھیں۔ برطانوی پروانہ راہداری کے ذریعے بنگال‘ بہار اور اڑیسہ میں کمپنی کے مال کا بغیر چنگی (محصول) دیے داخلہ۔ نواب کی طرف سے کمپنی کے اس نقصان کی تلافی جو نواب کے سپاہیوں سے ہوا۔ انگریز حسبِ منشا کلکتہ کو مستحکم کر سکتے ہیں۔ انگریزوں کو اپنا سکہ جاری کرنے کا حق ہو گا۔ برطانوی قوم اور کمپنی کی طرف سے کلائیو اور واٹسن وعدہ کرتے ہیں کہ جب تک نواب اس عہد نامہ پر عمل پیرا ہوگا‘ وہ اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھیں گے۔
اس معاہدے کے نکات کو ایک نظر دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ سراج الدولہ کس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی اور دوست نما دشمنوں میں گھر چکا تھا جس کے نتیجے میں اسے معاہدے کی ان شرائط کو تسلیم کرنا پڑا۔
سراج الدولہ کو مشکل میں دیکھ کر کلائیو نے سراج الدولہ سے ایک اور اہم شرط بھی منوا لی۔ وہ یہ کہ مرشد آباد میں سراج الدولہ کے دربار میں کمپنی کی طرف سے واٹسن سفارتکار کے طور پر رہے گا۔ واٹسن نے اومی چند کی مدد سے دربار میں میر جعفر کے ساتھ بھی تعلقات قائم کر لیے تھے۔ سراج الدولہ بنگال کا نواب تھا لیکن وہ دشمنوں اور غداروں کے درمیان گھر چکا تھا۔ اب نواب سراج الدولہ کے سامنے دو ہی راستے تھے؛ پہلا راستہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے کٹھ پتلی نواب کے طور پر کام کرنا تھا‘ اس صورت میں اس کی حکمرانی کا عرصہ طویل ہو سکتا تھا۔ دوسرا راستہ ایک آزاد حکمران کے طور پر بنگال پر حکومت کرنا تھا‘ اس صورت میں اسے ایسٹ انڈیا کمپنی اور سازشیوں کے جال کو توڑنا تھا۔ نواب سراج الدولہ نے اپنے لیے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ یہ مزاحمت کا راستہ تھا جس میں اس کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ اس کی جان کو بھی خطرہ تھا لیکن اسے یقین تھا کہ مزاحمت کے نتیجے میں اگر موت بھی آ گئی تو اس کا نام تاریخ میں امر ہو جائے گا۔ اسی دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نے نواب سے چندر نگر کے فرانسیسی مرکز پر حملے کی اجازت چاہی۔ چندر نگر نواب کی حکومت کا حصہ تھا۔ نواب نے اجازت دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ ہمارے معاہدے کی خلاف ورزی ہے لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی نے نواب کے حکم کو پس پشت ڈالتے ہوئے چندر نگر پر حملہ کر دیا اور فرانسیسیوں کے اس مرکز کو ختم کر دیا۔ یہ صورتحال سراج الدولہ کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے مذموم مقاصد کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے دربار میں سازشی کرداروں نے بھی سراج الدولہ کو اُکسایا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے آخری جنگ کا وقت آ گیا ہے۔ سراج الدولہ نے اپنی فوج کو تیاری کا حکم دیا۔ اس کی منزل پلاسی کا میدان تھا جہاں ہندوستان کے مقدر کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں