ایسٹ انڈیا کمپنی جو 1608ء میں تجارت کی غرض سے ہندوستان آئی تھی‘ رفتہ رفتہ اپنے قدم جما چکی تھی۔ اس کی اپنی فوج تھی جو جدید اسلحے سے لیس تھی۔ بنگال کی قسمت کا فیصلہ 1757ء میں ہونے والی جنگ پلاسی میں ہو چکا تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقابلے میں نواب سراج الدولہ کو اپنی ہی فوج کے سپہ سالار میر جعفر کی غداری کی بدولت شکست ہوئی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا اگلا ہدف اودھ تھا جہاں نواب شجاع الدولہ کی حکمرانی تھی۔ 1764ء میں ہونے والی بکسر کی لڑائی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی اور اودھ کے نواب شجاع الدولہ کو شکست دی تھی اور ذلت آمیز شرائط پر نواب شجاع الدولہ اور شاہ عالم ثانی کو اپنا بے وقعت اقتدار باقی رکھنے کی اجازت ملی تھی۔ میر قاسم نے راہِ فرار اختیار کی تھی۔ یوں بنگال‘ دہلی اور اودھ کی اصل حکمرانی اب ایسٹ انڈیا کے پاس آ گئی تھی۔ دہلی میں مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی محض ایک نمائشی حکمران بن کر رہ گیا جس کی ڈوریاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں میں تھیں۔ یوں لگتا تھا غلامی کی یہ تاریکی جلد ہی ہندوستان کی باقی ریاستوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
اس کھیل میں ایسٹ انڈیا کمپنی تنہا نہیں تھی اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے حکومتِ برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی وساطت سے ہندوستان کے معاملات میں پوری طرح ملوث ہو چکی تھی۔ انگریز ہندوستان میں ایک طویل المیعاد منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ اس منصوبے کے دو بڑے اہداف میں ہندوستان میں اپنے اقتدار کا استحکام اور دائرہ ٔاقتدار کی مزید توسیع شامل تھی۔ ان اہداف کے حصول کیلئے کہ انگریز مقامی قوتوں سے اتحاد (Strategic Alliance) کی کوششوں میں مصروف تھے۔
بنگال اور اودھ کو زیرِ دام لانے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کا اگلا ہدف میسور تھا۔ میسور جو کبھی ہندوستان کی ایک عام سی ناقابلِ ذکر ریاست تھی اب ایک جدید‘ خوشحال اور توانا طاقت کی صورت میں اُبھری تھی جس کا سارا کریڈٹ اس کے نوجوان‘ ذہین‘ بہادر اور متحرک رہنما حیدر علی کو جاتا تھا۔ وہی حیدر علی جو ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن کر اُبھرا اور جو فرنگیوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکتا تھا۔ یہ نوجوان حیدر علی کون تھا جس نے میسور کی ایک عام ریاست کو غیرمعمولی ریاست بنا دیا تھا؟ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ہمیں تاریخ کے صفحات پلٹنا ہوں گے۔ حیدر علی 1720ء میں کرناٹک کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا والد فتح محمد کرناٹک کے نواب کی فوج میں ملازم تھا۔ کم سن حیدر علی بھی فوج میں شامل ہونے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ اسے لکھائی پڑھائی میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ اس کی ذہانت کے میدان اور تھے جن میں عسکری منصوبہ بندی سرِ فہرست تھی۔ اس کی یادداشت بلا کی تھی کوئی واقعہ‘ کوئی بات‘ کوئی چہرہ وہ ایک بار دیکھ لیتا تو وہ ہمیشہ کیلئے اس کے ذہن پر نقش ہو جاتا۔ وہ بچپن سے ہی انتہائی پھرتیلا اور بہادر تھا۔ اس کی گفتگو میں بھی ایک خاص تاثیر تھی جس کی بدولت وہ دوستوں کو قائل کر لیتا۔ قدرت ایک بڑے مقصد کیلئے اس کی پرورش کر رہی تھی۔
اس کے والد اب نواب کرناٹک کی فوج سے میسور کے راجہ کی فوج میں جا چکے تھے۔ حیدر علی کا بڑا بھائی بھی میسور کی فوج میں ملازم تھا۔ اس لیے اسے راجہ میسور کی فوج میں شامل ہونے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ بھرتی تو وہ ایک عام سپاہی کی حیثیت سے ہوا تھا لیکن جلد ہی اس کے جوہر اس کے ساتھیوں پر کھلنے لگے۔ وہ مختلف معرکوں میں شریک ہوتا اور ہر بار کامیابیاں سمیٹتا۔ حیدر علی شجاعت اور ڈپلومیسی کا امتزاج تھا۔ اس کی باتوں میں ایک خاص سحر تھا۔ رفتہ رفتہ اس کے گرد وفادار ساتھیوں کا ہجوم اکٹھا ہونے لگا۔ 1749ء میں راجہ میسور کی طرف سے ایک اہم معرکے میں حیدر علی نے بھی حصہ لیا اور مقامی مخالف کا قلعہ فتح کر لیا۔ اس فتح میں حیدر علی کا مرکزی کردار تھا۔ اس معرکے کے بعد وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ اب وہ میسور کی فوج میں ایک اہم کردار بن چکا تھا۔ حیدر علی کی شخصیت کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ وہ غیرتعلیم یافتہ تھا لیکن یہ کمی اس کی ذہانت‘ بہادری اور ڈپلومیسی نے پوری کر دی تھی۔ اس کے پاس وفادار دوستوں کا ایک گروہ تھا۔ اس کی دہلیز پر دولت‘ عزت اور شہرت کی فراوانی تھی۔ اس کا اثر و رسوخ تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اس وقت اس کی عمر 29 برس تھی اور اس کی نگاہوں کے سامنے کئی خواب تھے۔ ان میں ایک خواب میسور کو ہندوستان کی خوشحال‘ جدید‘ مضبوط اور حقیقی معنوں میں ایک خود مختار ریاست بنانا تھا۔ اس خواب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود راجہ میسور تھا‘ جو ایک دقیا نوسی طرزِ فکر کا مالک شخص تھا جسے اپنے عیش و آرام سے مطلب تھا اور وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسیع پسندانہ عزائم سے بے خبر تھا۔
حیدر علی اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت اب اس مقام پر پہنچ گیا تھا جہاں وہ طاقت‘ دولت اور شہرت کا مرکز بن گیا تھا۔ کہنے کو تو میسور کا حکمران راجہ تھا لیکن اصل قوت حیدر علی کے پاس تھی اور پھر وہ دن آ گیا جب حیدر علی نے ریاست کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی لیکن راجہ میسور کو نمائشی عہدے پر برقرار رکھا۔ میسور کی حکمرانی حیدر علی کی زندگی کا اہم سنگِ میل تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اس کی زندگی کا اہم چیلنج بھی تھا۔ اس کے ارد گرد ہندوستان کا سیاسی نقشہ بدل رہا تھا۔ مغل بادشاہت کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی بنگال اور اودھ کے صوبوں پر کنٹرول کے بعد اب میسور کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
حیدر علی ایک عملیت پسند شخص تھا۔ اسے معلوم تھا کہ بیرونی خطرات سے مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ریاست کے معاشی‘ سیاسی اور سماجی استحکام پر توجہ دی جائے۔ اس نے ریاست میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین یگانگت کیلئے اقدامات کیے۔ اہم عہدوں پر دونوں مذاہب کے لوگوں کو شامل کیا۔ اس نے سب سے پہلے ریاست کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کیلئے ریاست کے ٹیکسوں کے نظام کو بہتر بنانے پر خاص توجہ تھی۔ ریاست میں مختلف شعبوں میں بنیادی ڈھانچے تشکیل دیے جن میں بیوروکریسی کا شعبہ بھی شامل تھا جس نے سماجی اور سیاسی استحکام میں اہم کردار ادا کیا۔حیدر علی نے جاسوسی کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ اس کا خواب میسور کو ایک جدید ریاست بنانا تھا جو معاشی اور عسکری لحاظ سے خود مختار ہو اور جہاں لوگوں کی فلاح پر توجہ دی جائے۔ اسے معلوم تھا کہ مغل بادشاہ اور مختلف صوبوں کے نواب علاقے کے بارسوخ زمینداروں پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ یہ زمیندار اپنی حمایت کے عوض ملکی فیصلوں پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں۔ اور اکثر حکومت کی زوال کا باعث بنتے ہیں۔ حیدر علی نے میسور میں علاقے کے بڑے زمینداروں کو اپنی حد میں رکھا اور دیہات کے وسائل کو براہِ راست اپنی گرفت میں لے لیا۔
ایک طرف تو حیدر علی معاشی اور سماجی اصلاحات کر رہا تھا اور دوسری طرف اس کی توجہ کا مرکز اپنی فوج کو اسلحے اور تربیت کے اعتبار سے جدید خطوط پر استوار کرنا تھا۔ اسے علم تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کی اصل طاقت ان کا جدید اسلحہ اور پیشہ ورانہ تربیت ہے۔ اس نے انگریزوں کے روایتی حریف فرانسیسیوں سے رابطہ کیا اور معقول معاوضے پر انہیں اپنی فوج کی تربیت پر مامور کیا۔ اس نے آرٹلری پر خاص توجہ دی اور فوج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کر دیا۔ اسے معلوم تھا کہ ایک دن ایسٹ انڈیا کمپنی سے ٹکراؤ ضرور ہو گا۔ اس کا اندازہ درست نکلا۔ جب اسے اپنے جاسوسوں سے خبر ملی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے نظام اور مرہٹوں سے اتحاد کر لیا ہے اور ان کا مشترکہ ہدف میسور ہے۔ یہی وہ دن تھا جس کا حیدر علی کو شدت سے انتظار تھا۔ (جاری)