معروف ماہرِ تعلیم نیل پوسٹمین (Neil Postman) اپنی کتاب The End of Education میں لکھتا ہے کہ بیانیے کے بغیر زندگی بے معنی ہے اور بے معنی زندگی کا کوئی مقصد نہیں اور مقصد کے بغیر سکول توجہ کے بجائے نظر بندی کے ٹھکانے ہوتے ہیں۔ تعلیم کے حوالے سے بحث میں بنیادی سوال یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے؟ کیونکہ اس کے جواب سے منسلک نصاب‘ تدریس اور امتحانات کی تشکیل کا عمل ہے۔ اس بنیادی سوال کا کوئی ایک جواب نہیں۔ اس سوال کے مختلف ادوار میں مختلف جواب تعلیم کے مختلف مقاصد کی صورت میں سامنے آتے رہے ہیں۔ ان تعلیمی مقاصد کی اپنی اہمیت ہے کیونکہ یہی مقاصد تعلیم اور سکولوں کے لیے جواز فراہم کرتے ہیں۔ تعلیم کا متعین کردہ جواز بلاواسطہ یا بالواسطہ نصاب‘ نظامِ امتحان‘ سیکھنے کے عمل اور طریقۂ تدریس پر اثرانداز ہوتا ہے۔ تعلیم کے اسی جواز کو نیل پوسٹمین بیانیہ کہتا ہے۔ تعلیم کے یہ بیانیے سماجی‘ سیاسی‘ ثقافتی اور معاشی رجحانات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ آج کل ہم نیو لبرل ازم (Neoliberalism) کے بیانیے کے عہد میں زندہ ہیں۔ اس بیانیے کا مرکزی نکتہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے۔ اس بیانیے میں اقدار اور اخلاقیات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ تعلیم کا یہ بیانیہ منافع کے حصول کے ذرائع کو جواز فراہم کرتا ہے۔ تعلیم کی پراڈکٹ کو فروخت کرنے کے لیے عام طور پر کوالٹی کا نعرہ لگایا جاتا ہے لیکن اس کے لیے کوالٹی کے مفہوم کو تعلیم کے ماپنے والے پہلوؤں مثلاً Efficiency اور Productivityتک محدود کر دیا جاتا ہے۔ یہ کوالٹی کا ایک محدود اور گمراہ کن تصور ہے۔
پاکستان میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کافی بیان بازی تو ہر دور میں ہوتی رہی۔ غیرملکی پروجیکٹس کے نتیجے میں اکا دُکا کوششیں ہوتی رہیں‘ لیکن یہ زیادہ تر کوششیں مادی اور قابلِ پیمائش تبدیلی سے تعلق رکھتی ہیں کیونکہ ایسی تبدیلی کا مظاہرہ آسان ہے؛ تاہم اس قسم کی تبدیلی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں تعلیم کے صرف مقداری (Quantitative) پہلو پر زور دیا جاتا ہے اور بعض اوقات تو اعداد افراد پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ سکول کی انتظامیہ بھی مشینی اور خودکار نظامِ تعلیم اور سیکھنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کیونکہ تعلیم کے اس نظام میں نگرانی کرنا اور جائزہ آسان ہے اور نظم و نسق کا یہ میکانکی تصور بالادست انتظامیہ کے مفادات کے لیے موزوں ہے۔ تعلیم کے اس تصور میں اساتذہ کی انفرادی آزادی‘ تخلیقی سوچ اور تنقیدی فکر کے لیے بہت کم گنجائش ہوتی ہے۔
اس طرح کی تعلیم کا ہدف معاشرے میں ایک ہی طرح کی ذہنیت کے (Monoculture) افراد پیدا کرنا ہے جو روبوٹس کی طرح سوچتے ہوں اور میکانکی انداز میں کام کریں۔ جن کی پوری توجہ Efficiency اور Productivity پر ہو اور جو معاشرے کے طاقتور گروہوں کے پیدا کردہ سماجی امتیازات پر کوئی سوال نہ اٹھائیں۔ پوسٹمین نے اپنی کتاب The End of Education میں مجموعی طور پر سکولوں کی حالتِ زار پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سکول‘ جو Socialization کے عمل کا ایک اہم وسیلہ ہیں‘ اپنا بیانیہ یا جواز بتانے سے قاصر ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں سکول معاشرے کے طاقتور گروہوں کے طاقتور بیانیے یا نظریے کی منظوری‘ تصدیق‘ توثیق اور ترسیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دورِ حاضر میں نیو لبرل ازم کا نظریہ جو زیادہ سے زیادہ منافع پر مبنی ہے ہمارے تعلیمی نظام میں ایک محرک قوت (Catalyst) کی حیثیت سے کام کر رہا ہے اور اس کے بدلے میں موجودہ تعلیمی نظام نیو لبرل نظریے کا جواز پیش کر رہا ہے۔ ایک دوسرے کی سہو لت کاری کا یہ باہمی رشتہ تعلیم کی نجکاری اور اشیا کے ذریعے فروغ پا رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سماجی سچائیوں کی تشکیل کے عمل میں سکولوں کا کردار طاقتور میڈیا کے ابھرنے سے نسبتاً محدود ہو گیا ہے‘ جس نے صارفیت (Consumerism) کے نظریے کو مقبول بنایا ہے‘ لیکن تخلیق کا تھوڑا سا موقع جو اَب بھی سکولوں میں موجود ہے‘ اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹکڑوں میں بٹی ہوئی مہارتوں کی تشکیل پر ضرورت سے زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ ان مہارتوں کی جانچ پڑتال Discrete Pointٹیسٹنگ سسٹم کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس قسم کے ٹیسٹ کو دو وجوہات کی بنا پر ترجیح دی جاتی ہے جس میں ایک وجہ اس کی نام نہاد معروضیت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے معروضی نوعیت کے ٹیسٹ بہت ہی کم وقت میں کمپیوٹر کی مدد سے آسانی سے نشان زد کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم اس طرح کے ٹیسٹ کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے سکور کسی نئی صورتحال میں تنقیدی سوچ اور علم کا اطلاق کرنے اور سیکھنے کی اہلیت اور قابلیت کو ظاہر نہیں کرتے۔
اس طرح کے نظامِ امتحان میں جہاں قابلیت اور اہلیت کی پیمائش محض یادداشت پر مبنی تشخیصی نظام کے ذریعے کی جاتی ہے‘ اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ طلبہ کو بہتر گریڈ حاصل کرنے میں سہولت فراہم کرنے کے واحد مقصد کے ساتھ تعلیم دیں۔ یادداشت پر مبنی نظامِ امتحان‘ ٹرانسمیشن پر مبنی درس و تدریس اور طلبہ کی بے معنی کارکردگی کا Vicious Circle موجودہ طاقت کے ڈھانچے کو آگے بڑھاتا ہے اور معاشرتی حوالوں سے بنائے گئے دقیا نوسی تصورات کو مستحکم اور مضبوط کرتا ہے۔ تعلیم کوجواز فراہم کرنے کے لیے سکول کو کس طرح بااختیار بنایا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب Vicious Circle کو توڑنے اور ایک نئے حلقے کی تشکیل ہے جس میں امتحانی نظام ایسا ہو جو سوچنے کی اعلیٰ صلاحیتوں کو پروان چڑھائے‘ تنقیدی اسلوب کی پرورش کرے اور طلبہ کو آزادیٔ افکار اور آزادیٔ اظہار کے مواقع فراہم کرے۔ یہ بظاہر ایک سیدھا سادہ کام معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور دشوار عمل ہے جس میں فوری اور اضطراری اصلاحات بے فائدہ ہوتی ہیں۔
ماضی میں پاکستان میں اس طرح کے بے معنی اقدامات اساتذہ کی تربیت میں کریش کورسز کے نام پر کیے گیے۔ ایسے کورسز کو سیاسی حکومتوں نے 'تربیت یافتہ‘ اساتذہ کی بڑی تعداد دکھا کر اپنا امیج بڑھانے کے لیے وسیع پیمانے پر عام کیا ہے۔ تربیتِ اساتذہ کے نام پر غیرملکی فنڈنگ سے بہت سے مہنگے پروجیکٹس کیے گئے‘ جن میں کنسلٹنٹس کو خطیر رقوم بھی دی گئیں لیکن ان کا کوئی مثبت اور دیرپا اثر ہمارے تعلیمی اداروں میں نظر نہیں آتا۔ حکومتوں کے اس طرح کے بے معنی اقدامات میں نصاب کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی شامل ہے۔ ہر حکومت کے لیے یہ ایک دلچسپ مشغلہ ہے کہ برسرِاقتدار آتے ہی وہ نصاب میں تبدیلی کا اعلان کرتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات کی بدولت حکومتیں اپنے سیاسی مفادات کو تو پروان چڑھا سکتی ہیں لیکن ایسے اقدامات تعلیم میں کوئی مثبت اور معیاری تبدیلی نہیں لا سکتے۔ تعلیمی اداروں کو بااختیار بنانے کے لیے کلیدی نکتہ تعلیم کا جامع نقطۂ نظر ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ امتحانی نظام‘ نصاب‘ درس و تدریس اور تدریسی مواد کا از سرِ نوجائزہ لیا جائے۔ تعلیم میں جامع تبدیلی کا تصور اساتذہ کی انفرادی آزادی اور تخلیقی صلاحیتوں کیSpace سے جڑا ہوتا ہے۔ تعلیمی ادارے معاشرے کے لیے سوچنے والے شہری اسی صورت پیدا کر سکتے ہیں جب وہ خود تعلیم کے بنیادی مقصد سے آگاہ ہوں۔