"SSC" (space) message & send to 7575

تعلیمی معیار کیسے بہتر ہو گا؟

پاکستان میں تعلیم کو درپیش ایک بڑا چیلنج معیار (Quality) کا ہے۔ اکثر سیمیناروں‘ کانفرنسوں اور تعلیمی اجتماعات میں کوالٹی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ عام طور پر جب معیار کا ذکر آتا ہے تو سکولوں کی تعداد اور ان میں سہولتوں کی موجودگی یا عدم موجودگی اور اساتذہ کی تعداد پر گفتگو ہوتی ہے۔ یہ سارے عوامل معیار کے اہم اجزا ہیں‘ لیکن محض ان عوامل کی موجودگی معیار کی ضمانت نہیں ہے۔ معیار کے دوسرا حصہ زیادہ اہم ہے‘ جس کا تعلق تدریس اور سیکھنے کے اُس عمل سے ہے‘ جوکلاس روم میں جنم لیتا ہے اور جس کا تعلق نصاب‘ استاد‘ طالبعلم‘ امتحانی طریقہ کار اور سکول کے ماحول سے ہے۔ یوں تعلیم میں معیار کا مفہو م وسیع ہے‘ جس کے ایک طرف تو سکولوں کی عمارتیں‘ وہاں موجود سہولتیں اور اساتذہ شامل ہیں تو دوسری طرف کمرہِ جماعت کے اندر تدریسی اور تعلیمی ماحول شامل ہے۔ اگر ہم تعلیمی معیار میں بہتری چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیمی معیار کے ان دونوں پہلوئوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی صورت میں ایک معیاری تعلیمی پراڈکٹ کی توقع کی جا سکتی ہے۔ آئیے سب سے پہلے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستانی سکولوں میں سہولتوں کی فراہمی کا معیار کیا ہے کیونکہ یہ معیار کا اہم پہلو ہے۔ پاکستان میں سرکاری سکولوں پر نظر ڈالیں تو صورتحال زیادہ خوش کن نہیں ہے۔ ملک کے کچھ علاقوں میں تو سرکاری سکولوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ الف اعلان کی یک رپورٹ (2019ء) کے مطابق پاکستان میں 43 فیصد سرکاری سکولوں کی عمارتیں شکستہ ہیں۔ ان میں متعدد عمارتیں خطرناک ہیں۔ اساتذہ کی کمی کا یہ عالم ہے کہ سرکاری سکولوں میں 21 فیصد ایسے ہیں جہاں صرف ایک استاد موجود ہے۔ اسی طرح 14 فیصد سرکاری سکولوں میں صرف ایک کمرہ ہے۔ اسی طرح اکثر سکولوں میں پینے کا صاف پانی‘ گرمیوں میں کولنگ اورسردیوں میں ہیٹنگ کا مناسب انتظام نہیں۔
سہولتوں کا فقدان یقینا تدریس اور سیکھنے کے عمل کو متاثر کرتا ہے۔ سرکاری سکولوں میں سہولتوں کے حوالے سے یہ اعداد وشمار تشویشنا ک ہیں۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں اگرچہ پچھلے برسوں میں تعلیمی سہولتوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس حوالے سے آج بھی مجموعی صورتحال تسلی بخش نہیں‘ کیونکہ 46 فیصد سکولوں میں ابھی تک ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔ 41 فیصد سکولوں میں چار دیواری نہیں‘ 47 فیصد سرکاری سکولوں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ یہ تو ہے معیار کا ایک پہلو‘ جس کا تعلق تعلیمی اداروں کی عمارات‘ کلاس روم میں موجود فرنیچر اور تعلیمی اداروں میں میسر سہولتوں سے ہے۔ ان سہولتوں میں کھیل کا میدان‘ لیبارٹری آپریٹس‘ کمپیوٹر لیب وغیرہ بھی شامل ہیں۔
اب ہم معیارکے دوسرے پہلو کا جائزہ لیتے ہیں جو کمرہِ جماعت میں جنم لیتا ہے اور جس کا تعلق براہِ راست اساتذہ‘ نصاب‘ کتاب‘ طلبہ‘ امتحانی نظام اور سکول کے ماحول سے ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا امتحانی نظام انتہائی فرسودہ ہے‘ جو طالبعلم کی یادداشت کا امتحان بن کر رہ گیا ہے۔ طالبعلم کی مضمون کے بارے میں سوجھ بوجھ یا زندگی کے مختلف پہلوئوں پر علم کا اطلاق ہمارے نظامِ امتحان کا مقصد ہی نہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طلبہ رٹے کی بنیاد پر امتحان میں اچھے گریڈز تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان میں تخلیقی سوچ کا فقدان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے لوگوں کی کمی ہے جو زندگی کے مختلف میدانوں میں نئی ایجادات کر سکیں۔
تعلیمی نظام کا ایک اہم حصہ نصاب ہے۔ نصاب کا نظامِ تعلیم میں اہم کردار ہے‘ نصاب کی روشنی ہی میں درسی کتابیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ پاکستان کے سکولوں میں رائج نصاب انتہائی فرسودہ ہے‘ جس کا زمانے کے جدید تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں۔ سرکاری اداروں میں رائج درسی کتب اپنے مواد اور اپنے گیٹ اَپ کے حوالے سے غیر معیاری ہیں۔ اکثر درسی کتب میں جو کاغذ استعمال کیا جاتا ہے وہ انتہائی ناقص ہے ۔ کتابوں میں شامل تصاویر کی پرنٹنگ کا معیار بھی مایوس کن ہے اور بچوں میں ان کتابوں کو پڑھنے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔ ہمارا نظامِ امتحان چونکہ اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کو ماپنے کا پیمانہ نہیں‘ اور نہ ہی اس نظامِ امتحان میں اچھے گریڈز حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کی ضرورت ہے لہٰذا سکولوں میں اساتذہ کی تدریس کا محور بھی طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کا فروغ نہیں ہوتا بلکہ ان کا مطمح نظرصرف اس نہج پر پڑھانا ہوتا ہے‘ جس کے نتیجے میں طلبہ اچھے نمبر حاصل کر سکیں۔ اچھے نمبروں کا حصول نہ صرف طلبہ اور ان کے والدین کا اولین مقصد ہے‘ بلکہ سکول میں بھی اس کو اچھا استاد سمجھا جاتا ہے جس کی کلاس کا نتیجہ اچھا ہو۔یوں بعض اوقات کچھ اساتذہ اچھا نتیجہ ظاہرکرنے کے لیے ان بچوں کو بھی اگلی کلاس میں ترقی دے دیتے ہیں جو اس کے اہل نہیں ہوتے۔
ASER کی 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچویں جماعت کے محض 50 فیصد طلبہ دوسری جماعت کے درجے کا اردو ٹیکسٹ روانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ انگریزی میں یہ صورتحال مزید خراب ہے۔ پانچویں جماعت کے صرف 32 فیصد طلبہ دوسری جماعت کی انگریزی کا ٹیکسٹ روانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ یہ تفریق دیہات اور شہروں میں اور واضح ہے۔ شہروں میں پانچویں جماعت کے 55 فیصد اور دیہات میں محض 17 فیصد طلبہ دوسری جماعت کی انگریزی کی عبارت روانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ریاضی میں پانچویں جماعت کے 47 فیصد طلبہ دو درجے تک تفریق کے سوال حل کر سکے اور صرف 39 فیصد طلبہ تین درجے تک تفریق کے سوال حل کر سکے۔ یوں پاکستان میں ایک طرف تو اڑھائی کروڑ بچے سکولوں کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکتے‘ دوسری طرف جو سکولوں تک پہنچ پاتے ہیں‘ انہیں بھی غیر تسلی بخش تدریس کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ غیر معیاری تعلیم اور مالی مسائل کی کمی‘ دونوں مل کر بچوں کو سکول چھوڑنے پر مجبورکر دیتے ہیں اور آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے 42 فیصد بچے ڈراپ آئوٹ ہو جاتے ہیں‘ (GoP,2020)۔ یوں پاکستان دنیا میں ڈراپ آئوٹ بچوں کی شرح کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے۔
سکولوں کا ماحول طلبہ کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے‘ اس ماحول کی تشکیل میں نصابی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے آج کل سکولوں میں نصابی سرگرمیاں سمٹ کر رہ گئی ہیں اور کئی سکولوں میں تو کھیل کا میدان بھی نہیں ہوتا۔
اگر معیارِ تعلیم میں بہتری مقصود ہے تو ہمیں معیار کا ایک ہمہ جہتی (Holistic) تصور سامنے رکھنا ہو گاجس میں معیار کے سارے اجزا؛ اساتذہ‘ طلبہ‘ نصاب‘ درسی کتب‘ نظام امتحان اور سکولوں کے ماحول میں بہتری لانا ہو گی۔ یہ بات اہم ہے کہ اصل تبدیلی تب آئے گی جب ہم مرکزی دھارے کے سرکاری سکولوں میں تبدیلی لائیں گے۔ وہی سکول جو کبھی اپنے معیار سے پہچانے جاتے تھے اب اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔ حکومتی سطح پر سرکاری سکولوں کی خاص سرپرستی کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے سے حکومتوں کی توجہ کا مرکز پرائیویٹ ادارے ہیں‘ یوں سرکاری سکولوں کو بے توجہی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
قومی سطح پر معیارِ تعلیم میں بہتری کا عمل سرکاری سکولوں سے شروع ہونا چاہیے‘ جہاں اکثریت ان بچوں کی ہے جن کے والدین پرائیویٹ سکول کی مہنگی تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ پاکستان کو درپیش تین بڑے چیلنجز میں اڑھائی کروڑ بچوں کو تعلیم کی سہولت مہیا کرنا اور سکولوں میں معیارِ تعلیم کی بہتری دراصل ایک ہی خواب کے دو حصے ہیں۔ یہ خواب عام‘ بے وسیلہ لوگوں کے بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم کی فراہمی ہے۔ ایسی تعلیم جو انہیں اس قابل بنا سکے کہ وہ دوسرے بچوں کے شانہ بشانہ ملکی ترقی میں حصہ لے سکیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں