گزشتہ دورۂ امریکہ میں مجھے پرانی کتابوں کی سیل سے ''America's Stake in Asia‘‘نام کی کتاب ملی جو 1968ء میں لکھی گئی تھی۔ اس کے مصنف مشہور وقائع نگار ڈریومڈلٹن ہیں جو پہلے ایسوسی ایٹڈ پریس سے وابستہ ہوئے‘اس کے بعد نیو یارک ٹائمز کے لیے دوسری جنگ عظیم کے ڈی ـ ڈے سے وی ـ ڈے (D-Day to V-Day)تک کی کوریج کرنے کے علاوہ افریقہ اور ایشیا میں رُونما ہونے والے اہم واقعات رپورٹ کئے اور 1965ء میں نیو یارک ٹائمز کے اقوام متحدہ میں نامہ نگارِ اعلیٰ مقرر ہوئے۔
اس کتاب کے ایک باب کا عنوان''پاکستان:ایک گمشدہ دوست‘‘ ہے جس میں مصنف نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح واشنگٹن نے بھارت کے مقابلے میں اپنے قریبی اتحادی اور پارٹنر پاکستان کی سکیورٹی سے متعلق خدشات کو مکمل طور پر نظر اندازکرکے پاکستانی عوام میں اجنبیت کا احساس پیدا کرنے کا سبب بنا۔ مڈلٹن نے جہاں واشنگٹن کی کوتاہ بین پالیسیوں پر اظہارِ تاسف کیا وہاں پاکستان کو ایشیائی اقوام کے مستقبل کے لیے ''نمونہ‘‘ قرار دیا جو ایک آزاد‘سخت جان اور موقع سے فائدہ اُٹھانے والا ملک ہے۔ اس کی نظر میں''پاکستان کا جغرافیائی محل و قوع اور درجن بھر دوسرے عوامل‘ایشیا اور دُنیا میں امن کے لیے اسے خاص اہمیت عطا کرتے ہیں‘‘۔
مڈلٹن کی مذکورہ کتاب متروک کتب کے ڈھیر کاحصہ بن گئی ‘ لیکن آگ اور خون سے گزر کر آزادی حاصل کرنے والا ملک پاکستان امریکہ کے تزویراتی راڈار کی سکرین سے شاید ہی کبھی غائب ہُوا ہو۔ نہیں جناب‘ پاکستان گمشدہ دوست نہیں۔ پینسٹھ برس سے زائد عرصے کے دوران کبھی یہ امریکا کا پکاّ اتحادی رہا‘ کبھی مشکلات کھڑی کرنے والا دوست اور کبھی خطرہ۔اور اب پہلی بار یہ تمام عناصر اس میں جمع ہو چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کے ساتھ امریکاکے بے کیف روابط کو کسی قدر معقول بنایا ہو، لیکن یہ جنگ نہ تو باہمی تعلقات کو محدود کرنے کا سبب بنی اور نہ ہی اس سے امریکا کو درپیش چیلنج ختم ہوئے ۔
دونوں ممالک کا تعلق زیادہ پیچدار نہیں تو نازک ضرور رہا ہے۔ ان کے مابین مفاداتی تصادم کبھی پیدانہیں ہوا لیکن ان میں یکساں مفادات کی ایسی حقیقی شکل و صورت بھی نہیں بن پائی جو دونوں طرف کی مصلحتوں سے بالا ہو ۔دونوں کی نظر ہمیشہ اس تعلق کو مستحکم کرنے سے زیادہ ایسے اہداف کے حصول پر رہی جو وسیع تر تصورات اور مشترکہ وژن سے عاری اور محدود قسم کی غیر واضح ترجیحات پر مبنی تھے۔پاکستان کے لیے امریکا کے ساتھ تعلقات کی پالیسی کا غالب عنصر خطے کی شورش زدہ صورت حال کے تناظر میں سلامتی اور بقا رہا۔ دوسری جانب امریکی پالیسی کے اہداف میں اپنے علاقائی اور عالمی مفادات کو اوّلیت حاصل رہی۔
بدقسمتی سے حالیہ برسوں کے دوران باہمی اعتماد میں کمی کے علاوہ دونوں ملک کشیدگی کا باعث بننے والے ان معاملات کو بھی کنٹرول نہیں کر سکے جن پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا تھا۔ دیانتداری کی بات یہ ہے کہ تعلقات کی بنیاد میں کوئی مسئلہ نہیں‘مسئلہ دونوں طرف سے انہیں برقرار رکھنے کے ضمن میں ناقص اور کوتاہ اندیش انتظام کا ہے۔
واشنگٹن کی جانب سے باہمی تعلق کی نوعیت متعین معاملے (Issue Specific) تک محدوداور کاروباری رہی ۔ وہ ہمیں اُجرت پر کام دیتارہا۔ آزادی کے وقت سے ہی واشنگٹن اپنے مختلف کاموں کے عوض ہمارے خزانے کے صندوق بھرتا رہا اور ہم اس کے لیے بروئے کار آتے رہے۔۔۔پہلے سرد جنگ‘ پھر افغان ـ سوویت جنگ اور آخر میں نیٹو اتحادی کے طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ ۔ 2001ء کے بعد اُس نے ہمیں پندرہ ارب ڈالر دیے جو اس ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کے علاوہ ہیں جو پانچ برس کے لیے کارکردگی کی بنیاد پر فوجی امدادکی مد میں دیے جا رہے ہیں۔امریکا نے ہمارے مفاد پرست حکمرانوں کو واقعتاً بھاری رقوم دیں ان سے لیکن عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچا۔
چک شہزاد اور دوسرے مقامات پر محل نما فارم ہائوس تو وجود میں آ گئے لیکن ملک کے کسی حصّے میں امریکی امداد سے عام لوگوں کے فائدے کے لیے کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذکورہ نوعیت کے تعلق کے جو ادوار آئے ان کے دوران امریکہ میں ری پبلک پارٹی کی حکومت ہوتی تھی اور پاکستان میں فوجی یا فوج کے زیر اثر سویلین حکومتیں ہوتی تھیں۔ اس کے برعکس واشنگٹن میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی حکومت کے ادوار میں پاکستان میں ایسی منتخب حکومتیں رہیں جنہیں سیاسی خطرات لاحق تھے ۔
اس روایت نے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کو ابھارا۔ عمومی تاثر یہ رہا کہ امریکہ پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم نہیں ہونے دیتا۔ بہرحال‘ ملک کے اندر جب بھی اقتدار کی جنگ ہوئی‘ لوگوں نے امریکہ کو غلط سمت پر کھڑے پایا۔ ہمارے ڈکٹیٹر‘ فوجی ہوں یا سویلین ، ہمیشہ واشنگٹن کے منظور نظر رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نائن الیون کے بعد امریکہ کے ساتھ جو اتحاد بنا وہ پاکستان کی تاریخ میں ایک دردناک باب کا آغاز ثابت ہوا۔ آنکھ جھپکتے ہی ہم امریکا کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا میدانِ کارزار بن گئے اور اُس وقت سے اس کی بھاری جانی و مالی قیمت چکا رہے ہیں۔
جنوبی ایشیاء کی ایک بڑی طاقت کے اعتبار سے پاکستان کا تقابل ہمیشہ بھارت کے ساتھ رہا ہے لیکن آج اپنی مجموعی صورت حال اور خطے میںکردار کے لحاظ سے اسے افغانستان کے ساتھ بریکٹ کیا جاتا ہے۔ ہمیں بیک وقت مسئلہ اور مسئلے کے حل کی کلید سمجھا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ ہمارے ساتھ ہدف (Target) اور شریک کار (Partner) دونوں طرح کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ اس روش کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور امریکہ کا تعلق محض کسی خاص واقعے یا بحرانی صورت حال کے تناظر میں نہیں ہونا چاہیے۔ حقیقت میں یہ ایک اہم تعلق ہے جسے وقتی حوادث سے بالا رہنا چاہیے۔ دونوں ملکوں کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ یہ تعلق کمزور نہ ہونے پائے بلکہ اسے سیاسی‘ اقتصادی اور سٹریٹیجک حوالوں سے مزید مضبوط بنایا جائے۔
نومبر 2007ء میں نیو ہمپشائر کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹکس میں تقریر کرتے ہوئے اس وقت امریکہ کے سینیٹر اور اب نائب صدر جو بائیڈن نے سرعام اعتراف کیا تھا کہ ''رواں بحران کے پیچھے تعلقات میں ایک گہرا مسئلہ کارفرما ہے جس کی نوعیت بڑی حد تک کاروباری ہے اور یہ معاملہ بندی کسی بھی فریق کو راس نہیں آرہی‘‘۔ ان کے مطابق، امریکہ کے نقطۂ نظر سے پاکستان نے اربوں ڈالر وصول کرنے کے باوجود طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ میں مطلوبہ کارکردگی نہیں دکھائی‘ لیکن انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پاکستان کے نقطۂ نظر سے امریکہ ناقابل اعتبار اتحادی ہے‘ جو اپنے مفادات کی خاطر کرپٹ حکمرانوں کی سرپرستی کرتا رہاہے۔
ڈریومڈلٹن کی طرح جو بائیڈن بھی پاکستان ـ امریکہ تعلقات کی تلخ حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے اس اذیت ناک پس منظر کے تذکرے سے گریز نہ کر سکے جس میں واشنگٹن کے لیے سبق سیکھناابھی باقی ہے؛چنانچہ انہوں نے کہا: ''تاریخ پاکستان کا ذکر 1979ء والے ایران یا 2001ء والے افغانستان کے طور پر کر سکتی ہے یا تاریخ اس سے مختلف داستان بھی رقم کر سکتی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان ایک مستحکم‘ جمہوری اور سیکولر مسلم ریاست ہے‘ جس کا مستقبل امریکہ کے افعال سے متعین نہیں تو بڑی حد تک متاثر ضرور ہوگا‘‘۔ ہو سکتا ہے، ان کی بات درست ہو لیکن ہماری منزل کا تعین ہمارے اپنے افعال کریں گے‘ ہمیں اپنا عالمی تاثر ایک ایسی معتدل‘ مستحکم‘ باوقاراورایک ذمہ دار ریاست کے طورپر بحال کرنا چاہیے جو اندرونی اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ پُرامن ہو۔
آج کے نازک موڑ پر ہمارے لیے یہ بات اہم نہیں ہے کہ ہمیں دوسروں کے مفادات کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے؛ بلکہ زیادہ اہم یہ ہے کہ ہمیں اپنے قومی مفادات کے لیے کیا کرناچاہیے۔ ہمیں اپنی گمشدہ خودمختاری‘ عمل کی آزادی اور قومی عزت و وقار بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں انتہا پسندی‘ تشدد‘ عسکریت اور عدم برداشت کی حامل قوتوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور ہمارا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ذمہ داری کے بجائے اثاثہ بنانے پر توجہ مرکوز کریں۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)