پرانے حل طلب تنازعات میں سے ایک اہم مسئلہ یعنی مسئلہ کشمیر آج ایک نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے اور دنیا کو یہ باور کرا رہا ہے کہ اب کشمیری عوام کی جائز امنگوں کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔کشمیر محض ایک زمین یا خطے کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ 3جون1947ء کے تقسیم ہند پلان کے نامکمل ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے۔ بھارتی فوج نے تقسیم کے منصوبے کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندو حکمران کی ایما پر دھوکے سے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ یو این سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مستقبل کا آزادانہ فیصلہ کرنے کا حق صرف کشمیری عوام کو ہے۔ دنیا بھر کی آزادی کی دیگر تحریکوں کی طرح کشمیری عوام بھی 1989ء کے اواخر سے بھارتی فوج کے قبضے کے خلاف کئی عشروں سے اپنی تحریکِ آزادی کی شمع روشن رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی جدوجہد آزادی پرامن تھی اور پرامن ہے۔ بھارت ان کے جلسے جلوسوں کو طاقت کے استعمال سے دبانے کی کوشش کر رہا ہے جس میں سینکڑوں بے گنا ہ مردوخواتین اور بچوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اس کے رد عمل میں بعض حریت پسند اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہو گئے مگر ان کا جدید اسلحے سے لیس سات لاکھ بھارتی فوج کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
گزشتہ تین عشروں کے دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری نوجوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں، ایک بڑی تعداد جیلوں اور عقوبت خانوں کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے‘ جہاں انہیں تشدد اور زیر حراست موت کا سامنا ہے۔ بھارتی جبرواستبداد نسل کشی کی حد تک جا کر بھی ان کی آواز بند کرنے کے درپے ہے۔
کشمیر میں بھارتی قبضے اور محرومیوں کے خلاف عوامی غیظ و غضب آج ایک آتش فشاں بن کر پھٹنے کو ہے۔ گزشتہ چند مہینوں سے تو وہاں مکمل شٹ ڈائون ہے جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے جوروستم کی داستانیں دنیا تک نہیں پہنچ رہیں۔ آج یہ وادی دنیا کے ایک مہیب اور خون آشام فوجی قبضے کا منظر پیش کر رہی ہے۔ حتیٰ کہ بھارتی اپوزیشن رہنمائوں کو بھی مقبوضہ علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی جہاں ہر روز وحشیانہ غارت گری، میڈیا بلیک آئوٹ، کرفیو اور بھارتی فوج کے چھاپوں کے ذریعے ظلم کی نئی داستانیں رقم کی جا رہی ہیں۔
جنوبی ایشیا سمیت دنیا کے شاید ہی کسی حصے میں ایسی صورتحال کی مثال دی جاسکتی ہو۔ بھارت بزور طاقت کشمیر پر قبضہ جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ کشمیری عوام اس کے ساتھ کسی قسم کا تعلق برقرار رکھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔وہ بھارتی افواج کو قابض فوج سمجھتے ہیں۔ کوئی ظلم، کوئی جبر انہیں اپنی جائز تحریک چلانے سے نہیں روک سکتا۔ حتیٰ کہ موت کا خوف بھی انہیں اس راستے سے نہیں ہٹا سکتا۔کشمیری جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے اور اب وہ ہر قیمت پربھارت کے فوجی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں۔ ان کی آواز مجبور اور مظلوم لوگوں کی آواز ہے جو دنیا اور بھارت کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔
یہ امر باعث حیرت نہیں کہ اس مرتبہ بھارتی سرکار نے جس آواز کو گولی سے دبانے کی کوشش کی ہے‘ وہ اب ''آزادی‘‘ کے پرجوش نعرے میں بدل چکی ہے۔ اب یہ نعرہ سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہے اور وادیٔ کشمیر کے ہر گلی کوچے میں بھی گونج رہا ہے۔ دنیا اب بے حسی اور لاپروائی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔ جوکشمیری نوجوان آج سڑکوں پر اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں وہ نوکریوں یا کتابوں کا نہیں آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انہوں نے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم تھام رکھے ہوتے ہیں۔ یہی وہ فیصلہ ہے جو وہ وادیٔ کشمیر کے چپے چپے سے دنیا کو سنا رہے ہیں۔ کشمیر میں جاری شورش کے پس پردہ یہی عقدہ ہے جسے بھارت سمجھنے سے قاصر ہے۔
کشمیری عوام بھارتی تسلط سے آزادی کے سوا کچھ نہیں مانگتے۔ وہ ایک فلک شگاف اور واضح پیغام دے رہے ہیں۔ نوشتۂ دیوار کو پڑھنے ہی میں بھارت کا بھلا ہے۔ تاریخ کے صفحات پر لکھے تلخ اور کھلے سبق پڑھنا چنداں مشکل نہیں۔ فوجی قوت کے وحشیانہ استعمال سے کبھی کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ عوامی تحریکوں کو کچلا نہیں جا سکتا۔ حتیٰ کہ آج دنیا کی واحد سپر پاور کا وجود بھی ایک ایسی ہی طویل جنگ آزادی اور قربانیوںکا مرہون منت ہے۔ بھارتی قیادت اپنے تاریخی حقائق کو بھی جھٹلانے سے قاصر ہے۔ بھارت کی آزادی کی تحریک بھی 1857ء کی جنگ آزادی سے ہی شروع ہوئی تھی۔
بھارت کوئی سپر پاور نہیں ہے مگر وہ ایسی خواہش ضرور رکھتا ہے۔ وہ یو این سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا خواہش مند ہے مگر پھر بھی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل سے انکاری ہے۔ وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہے کہ کشمیری عوام کی جذبۂ حریت سے سرشار جائز اور تاریخی جدوجہد کے دھارے کو اب واپس موڑنا ممکن نہیں رہا۔ کشمیرکی تحریکِ آزادی کو غلط رنگ دینے کے لئے وہ اسے دہشت گردی سے منسوب کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ سرحد پار سے دراندازی کا الزام عائد کرکے دنیا کو گمراہ کرنے اور جدوجہدِ آزادی کو دھندلانے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف وہ یواین امن فوج کو مبینہ دراندازی چیک کرنے کی اجازت بھی نہیں دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر سرحد پار دراندازی کا مسئلہ ہے‘ نہ ہی دہشت گردی کا، بلکہ یہ مقامی عوام کو ان کا حق خود ارادیت دینے سے انکار کا معاملہ ہے۔ نام نہاد دراندازی کے خاتمے سے اپنے مادر وطن پر بھارتی تسلط کے خلاف کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی ختم نہیں ہوگی۔ کشمیر کا مسئلہ محض گورننس، معاشی پیکیج دینے حتیٰ کہ ''سہانے مستقبل کے حسیں خواب‘‘ دکھانے سے بھی حل نہیں ہوگا۔
یہ کشمیری عوام کے اس دائمی حق کا معاملہ ہے‘ جس کا وعدہ عالمی برادری اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کے ذریعے ان کے ساتھ کر چکی ہے۔ دنیا کو سمجھ لینا چاہئے کہ کشمیر کاایک ہی منصفانہ، قانونی اور اخلاقی حل ہے‘ جو اقوام متحدہ نے پیش کیا تھا اور جسے پاکستان اور بھارت دونوں سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صورت میں قبول کر چکے ہیں۔ یقینا یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس چیلنج پر فوری اور موثر رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ سابقہ حکومتوں کے برعکس‘ جو ''کشمیر‘‘ کا لفظ زبان پر لاتے ہوئے بھی معذرت خواہانہ رویہ اپنا لیتی تھیں، عمران خان نے مسئلہ کشمیر کو عالمی ایجنڈے میں سرفہرست لاکھڑا کیاہے۔
عمران خان نے دیگر ضروری سفارتی اقدامات کرنے میں بھی تاخیر سے کام نہیں لیا‘ جن میں غیرملکی سفیروں سے ملاقات، تجارتی سلسلہ منقطع کرنا اور اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں سے اہم رابطے شامل ہیں۔ عمران خان کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کو اٹھانا بذات خود عظیم سفارتی کامیابی ہے۔گزشتہ پچاس برسوں میں پہلی مرتبہ ''غیر رسمی مشاورت‘‘ کیلئے تمام پندرہ رکن ممالک کی شرکت سے اس امر کی ببانگ دہل توثیق ہوتی ہے کہ جموں و کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں بلکہ ایک متنازعہ علاقہ ہے ۔
اب سلامتی کونسل اس مسئلے پر پوری طرح متحرک اور سرگرم ہے اور وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی کسی قسم کی پیش رفت خصوصاً بھارتی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مکمل نظر رکھے گی۔
آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے ہر عالمی فورم پر خود کو کشمیری عوام کا ''سفیر‘‘ قرار دیا تھا اور وہ اس اہم ذمہ داری کو پورا کرنیکی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی عالمی فورم پر کشمیر کا مقدمہ بے مثال فصاحت اور اعتماد سے لڑ سکتے ہیں۔نریندر مودی کے دعووں سے قطع نظر پاکستان نے گزشتہ دو مہینوں میںکشمیر کو ایک اہم اور حل طلب مسئلے کے طور پر عالمی ریڈار سکرین پر کامیابی سے اجاگر کیا ہے اور دنیا کی توجہ اسے جلد یا بدیر کشمیری عوام کی جائز امنگوں کے مطابق حل کرنے کی طرف مبذول کرائی ہے۔ نریندر مودی پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ چہرے پر رعونت اور تکبرسجانے سے حقائق کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ماہ رواں کے آخر پر جنرل اسمبلی میں اپنی پہلی شرکت سے عمران خان کو کشمیر کی صورتحال کو اپنے حقیقی تناظر میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع میسر آئے گا۔
شاید امن کا نوبل انعام پانیوالی تمام زندہ شخصیات کے لئے بھی یہ ایک موقع ہے کہ وہ آنکھیں کھولیں اور سری نگر کی گلیوں سے آنے والی بارود کی بو کو محسوس کریں۔ انہیں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ممکنہ نسل کشی کے خطرے کی روک تھام کرنی چاہئے۔ پاک بھارت جنگ (احادیث کی رو سے غزوہ ہند) ایک ناقابل تصور تباہی لائے گی‘ جس سے بہر صورت بچنے کی تدبیر کرنے کی ضرورت ہے۔