"SAC" (space) message & send to 7575

سی پیک: خطے میں امن اور خوشحالی کا راستہ

ہمیں امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ کم از کم انہوں نے پاکستان کے مفادات کے بارے میں اضطراب کا اظہار تو کیا۔ وہ پریشان ہیں کہ چین پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں‘ اور پاکستان کے ساتھ اس کے سی پیک منصوبے امداد نہیں بلکہ قرضوں کی ایک ایسی شکل ہیں‘ جن پر چین کی سرکاری کمپنیوں کے لیے نفع یقینی بنایا گیا ہے۔ ان کے بقول ارب ہا ڈالرز کا یہ منصوبہ قرض واپسی کے وقت پاکستانی معیشت سے خراج وصول کرے گا۔ چین اور پاکستان‘ دونوں نے بلا توقف اس امریکی دعوے کو مسترد کر دیاکہ سی پیک پاکستان سے زیادہ چین کے لیے سود مند ہے۔ دونوں نے سی پیک کو باہمی مفادات کا حامل مشترکہ منصوبہ قرار دے کر اس کا دفاع کیا۔
چینی سفیر یائو جنگ نے بجا طور پر بنا کسی لگی لپٹی کے کہا کہ پاک چین تعلقات دونوں ممالک کے لیے ''جیت کے تعاون‘‘ کی بنیاد پر باہمی مفادات کو یقینی بناتے ہیں۔ انہوں نے سی پیک کے تحت بجلی کے منصوبوں کے مہنگے نرخوں کے بارے میں ویلز کے بیان پر شدید حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ 2013ء میں جب چینی کمپنیاں یہاں بجلی گھر بنا رہی تھیں تو امریکہ نے آگے بڑھ کر پاکستان کے انرجی سیکٹر میں اُس وقت سرمایہ کاری کیوں نہ کی حالانکہ اسے بخوبی علم تھا کہ پاکستان کو بجلی کی اشد ضرورت تھی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جب بھی پاکستان کو ضرورت پڑی‘ چین نے ہمیشہ اس کی معاونت کی ہے۔ مغرب کے ماتحت کام کرنے والے آئی ایم ایف جیسے اداروں کے قرض واپسی نظام کے برعکس چین نے کبھی اپنے قرضوں کی بروقت واپسی پر زور نہیں دیا۔
سب کہا‘ سنا اور کیا جا چکا، اس زبانی مناقشے سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کا بیان اس امریکی تحفظات کا ایک اور مظہر ہے جو وہ سی پیک کے بنیادی تصور سے رکھتا ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ سی پیک کی مخالفت کی ہے کیونکہ وہ اسے عالمی فوقیت کی تگ و دو کے حوالے سے چینی کاوشوں کی توسیع سمجھتا ہے۔ اگر کوئی حقیقت سمجھنا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) منصوبے کی روح کو پوری طرح سمجھا جائے۔ باسٹھ بلین امریکی ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا یہ ''پرچم بردار منصوبہ‘‘ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینیشی ایٹو (بی آر آئی) میں شامل وہ منصوبہ ہے جو بڑی تیزی سے تکمیل کی جانب گامزن ہے۔ توانائی کے پانچ مکمل اور تکمیل کی راہ پر گامزن مزید کئی منصوبے یقینا پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔
سی پیک مغربی چین کو پاکستان کے جنوبی ساحلوں پر صوبہ بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کرتا ہے۔ مجوزہ راہداری روٹ کے ساتھ ساتھ منصوبے میں سڑکوں اور ریل کے ذریعے روابط، بجلی پیدا کرنے کے یونٹ اور خصوصی اکنامک زون (SEZs) شامل ہیں۔ بی آر آئی کے تحت بننے والی تمام راہداریوں کے پرچم بردار کے طور پر سی پیک تمام منصوبوں کے لیے مثال بننے جا رہا ہے۔ صدر شی جن پنگ نے2013ء میں قازقستان اور انڈونیشیا کے دوروں کے دوران بی آر آئی منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔ شاہراہ ریشم معاشی بیلٹ اور اکیسویں صدی کی بحری شاہراہ ریشم، دونوں قدیم شاہراہ ریشم کی ایک جدید شکل ہیں‘ جن سے بین البراعظمی تجارتی و معاشی رابطہ ہموار کرنا مقصود ہے۔ 
اکتوبر 2014ء میں بیجنگ میں ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن پارٹنرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر شی جن پنگ نے رابطہ کاری کے اپنے وسیع وِژن کی وضاحت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ یہ منصوبہ پانچ مختلف شعبوں میں کثیر جہتی روابط کا باعث بنے گا: پالیسیوں میں ہم آہنگی، انفراسٹرکچر اور سہولیات میں ربط، تجارتی آزادی، سرمائے کا آزادانہ بہائو اور عوامی رابطے۔ چین تین مرحلوں میں 2030ء تک سی پیک کو مکمل کرنے کو خصوصی اہمیت دے رہا ہے۔ صرف ایک ملک... پاکستان... کی شراکت سے بذریعہ سی پیک چین کو براہِ راست بحر ہند تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس طرح بحیرہ عرب تک جنوبی چین کا فاصلہ تیرہ ہزار کلومیٹر سے کم ہو کر صرف تین ہزار کلومیٹر اور پینتالیس دِنوں کی مسافت دس دِن کی رہ جائے گی۔
چین کی توانائی کی ضروریات کا بڑا حصہ خلیج فارس کی تنگ آبنائے ہُرمز سے گزرتا ہے جو گوادر سے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے‘ جبکہ چین کی اسّی فیصد درآمدات آبنائے ملاکا سے گزرتی ہیں۔ اگر ان دونوں آبنائوں کے آس پاس کشیدگی موجود رہتی ہے تو چین کو مشکل ہو سکتی ہے۔ سی پیک کی صورت میں گوادر اس کا آخری سرا بن کر چین کو ہرمز کے دروازے تک پہنچا رہا ہے اور اس طرح وہ ملاکا والے روٹ پر اپنا انحصار کم کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اپنے بہت بڑے وِژن اور منصوبوں کی برق رفتار تکمیل کے باوجود سی پیک کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ جب 2017ء میں بی آر آئی کا باقاعدہ آغاز ہوا تو اس کے مخالف تین ممالک سامنے آئے: انڈیا، جاپان اور امریکہ۔
امریکہ کو اُس وقت اس منصوبے سے دھچکا لگا جب نیٹو اور ایشیا پیسیفک میں اس کے چند قریب ترین اتحادیوں نے بی آر آئی میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا۔ سانجھے فوائد کا حامل یہ منصوبہ جیسے سوچا گیا اور جس طرح اسے مکمل کیا جا رہا ہے کوئی ملک بھی اس سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔ یہ تینوں ممالک (انڈیا، جاپان اور امریکہ) اگر اس میں شامل نہیں ہوتے تو یہ ان کا اپنا ہی نقصان ہو گا۔ چینیوں اور ان کی صورت میں ایشیائی صدی کی پیش قدمی کو روکنے کی کوشش کرنے والے ممالک تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے ہونے کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ خصوصاً انڈیا بڑے پُرجوش طریقے سے اس پر اعتراض کرتا نظر آ رہا ہے۔ انڈیا سمجھتا ہے کہ چین، بی آر آئی اور خاص طور پر سی پیک کے ذریعے اسے گھیرے میں لینے کے لیے کوشاں ہے۔ انڈین منصوبہ سازوں کے نزدیک گوادر انڈیا کے ارد گرد ''موتیوں کی لڑی‘‘ کی طرح بکھری ہوئی اُن بندرگاہوں کا حصہ ہے جنہیں چین بقول ان کے کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔
گوادر کے چالیس سالہ انتظامی کنٹرول اور خصوصی اکنامک زون کی لیز چین کو بحرہند میں قدم جمانے کا موقع فراہم کرے گی۔ سی پیک کی بدولت ہی چین انڈیا کے مغربی ساحلوں کے نزدیک اپنی بحری موجودگی کے قابل ہو جائے گا اور بھارت کی پاکستان کے ساتھ مخاصمت کو بھی اس میں شامل کر لیں تو یہ انڈیا کے لیے بڑا چیلنج بن جائے گا۔ انڈیا کو سی پیک کے گلگت بلتستان ریجن سے گزرنے والے روٹ پر بھی اعتراض ہے۔ یہ علاقہ کسی زمانے میں جموں و کشمیر کا حصہ رہا ہے جس پر انڈیا اور پاکستان‘ دونوں اپنا اپنا دعویٰ رکھتے ہیں۔ امریکیوں نے ہمیشہ انڈیا کے نقطہ نظر کی تائید میں جانب داری دکھائی ہے۔ انڈیا اور امریکہ بڑی آسانی سے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ 1960ء میں ورلڈ بینک کی سہولت کاری سے طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت منگلا ڈیم اسی علاقے میں تعمیر کیا گیا اور دونوں ملکوں نے اس کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ اب اس پر اعتراض کیوں؟
دراصل یہ سب طاقت کا کھیل ہے جس کے ڈانڈے امریکہ کی چین کے حوالے سے اس خطے میں پالیسی سے جا ملتے ہیں۔ دوسری جانب، چین اور پاکستان‘ دونوں ہمیشہ انڈیا کے اعتراضات کو مسترد کرتے اور اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ سی پیک کا واحد مقصد خطے میں روابط کو فراغ دے کر امن و خوشحالی کا حصول ہے۔ انہوں نے بارہا انڈیا کو دعوت دی ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو۔ سی پیک کی کوئی جغرافیائی سرحدیں نہیں ہیں۔ اگر اس کا کوئی مقصد ہے تو صرف یہ کہ اس کی وجہ سے علاقائی ہم آہنگی میں اضافہ ہو اور چین و پاکستان کے باہمی اور بلا تفریق تمام ہمسایوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے۔ یہ منصوبہ چین، جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وُسطیٰ میں تین ارب انسانوں کو براہِ راست فائدہ دے سکتا ہے۔ تکمیل کے بعد سی پیک نہ صرف دوطرفہ بلکہ علاقائی تجارتی روابط کی فراہمی کا سبب بھی بنے گا۔
چین اور پاکستان دونوں کے لیے سی پیک ان کی ہمہ جہت دوستی میں نئی روح پھونکنے کے ساتھ ساتھ معاشی و تزویراتی اعتبار سے بھی بہت اہم ثابت ہو گا۔
دونوںممالک کے لیے یہ حقیقتاً بہت بڑا ایجنڈا ہے جس کی جڑیں اس سانجھے وِژن میں پیوست ہیں جو یہ دونوں ملک اپنے عوام اور خطے میں پُرامن و حوشحال مستقبل کے لیے رکھتے ہیں۔ چین کے لیے یہ اہم قومی ایجنڈا ہے جو وہ اپنے پسماندہ مغربی خطے میں ترقی کی رفتار تیر تر کر کے حاصل کر سکتا ہے جب کہ پاکستان کے لیے بھی یہ وہ موقع ہے جس کی مدد سے وہ اپنے جیو پولیٹیکل محل وقوع کو اپنے لیے بوجھ کی بجائے ایک سود مند اثاثے میں تبدیل کر سکتا ہے۔ اس طرح دونوں ملکوں کے لیے حقیقی چیلنج یہی ہے کہ وہ پوری ایمانداری اور قوت کے ساتھ اپنے اس سانجھے وِژن کو حقیقی شکل میں ڈھالیں۔
دونوں ممالک کو افسر شاہی اور عملدرآمدی رکاوٹوں کو دور کر کے پوری قوت سے اس منصوبے پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو انہوں نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو وقت پر پورا کیا ہے۔ مسئلہ ہماری جانب سے ہے۔ سی پیک کی تزویراتی، جغرافیائی و معاشی اہمیت کے پیش نظر اس منصوبے کو چلانے اور اس پر عملدرآمد کے لیے ہمیں انہی خطوط پر کام کرنا چاہیے تھا جو ہم نے اپنے نیوکلئیر پروگرام کی تکمیل کے لیے اختیار کیے تھے۔ سی پیک کے بلا رُکاوٹ نفاذ کے لیے ہمیں پاکستان میں ایک ایسی آزاد، اعلیٰ سطحی اور خود مختار اتھارٹی کی ضرورت تھی جو اس منصوبے کی تمام جہتوں کا احاطہ کرکے اسے بیوروکریسی اور سیاسی دخل اندازی کے بغیر پایہ تکمیل تک پہنا دے۔ اب بھی بہت دیر نہیں ہوئی۔ 
ہم اب بھی قانونی پالیسی فریم ورک کے ذریعے اعلیٰ سطحی خود مختار اتھارٹی کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہماری اولین اور سب سے بڑی ذمہ داری اس منصوبے کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے درکار سیاسی عزم اور حفاظتی فریم ورک فراہم کرنا ہے تاکہ بنا رُکاوٹ یہ منصوبہ مکمل کیا جا سکے۔ اس کوریڈور کی تکمیل کی سعی سے چین اور پاکستان نہ صرف اپنے جغرافیے کو معاشی نمو کے لیے استعمال کرنے کے قابل ہوں جائیں گے بلکہ ہمسائگی میں ایک ایسا خطہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے جو پرامن، باہم منسلک اور خوشحال ہو اور وہ خطے کے دوسرے ممالک، بشمول انڈیا کی سی پیک میں شمولیت کو بطور شراکت کار کھلی بانہوں سے قبول کریں گے۔لیکن بدقسمتی سے انڈیا بی آر آئی اور خصوصاً سی پیک پر شک کرنے کی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ بہرحال انڈین قیادت کو سپر پاور بنے کے اپنے جنون کو پس پشت ڈال کر بالآخر امن و آشتی کا انتخاب کرنا ہو گا۔ کیا بھارت سے ایسی توقع وابستہ کی جا سکتی ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں