"SAC" (space) message & send to 7575

عمران خان کا ’’مشن کشمیر‘‘

وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کشمیر پر پاکستان کا اصولی موقف بیان کیا اور اس کے ساتھ ساتھ تین دیگر اہم عالمی ایشوز ماحولیات، کرپشن اور اسلامو فوبیا پر بھی اظہارِ خیال کیا۔ اس سے پہلے چودہ اگست کو آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب میں انہوں نے کشمیری عوام کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ آج سے میں ہر عالمی فورم پر کشمیر کا سفیر بن کر اس مسئلے کو اٹھائوں گا۔ بلاشبہ عمران خان نے پوری جرأت اور اعتماد سے اپنا یہ وعدہ پورا کیا ہے۔ان کا یو این او میں جانے کا واحد مقصد دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی قابض سکیورٹی فورسز کی بربریت کے خلاف اسے متحرک کرنا تھا۔ جنرل اسمبلی اجلاس کی سائڈ لائنز پر عمران خان نے دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور ان کی توجہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی طرف مبذول کرائی جہاں کشمیری عوام بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ وادیٔ کشمیر دنیا کے سب سے زیادہ خون آشام اور دنیا کی نظروں سے اوجھل فوجی قبضے کا منظر پیش کر رہی ہے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370/35-A کی منسوخی کے فوری بعد نریندر مودی نے ہزاروں سول آرمڈ فوجی مقبوضہ کشمیر بھجوا دیئے تھے‘ جن میں آر ایس ایس کے مسلح غنڈے بھی شامل تھے‘ جنہوں نے اس مقبوضہ ریاست میں ایک خونریز ملٹری کریک ڈائون میں حصہ لیا‘ جہاں اسی لاکھ کشمیری شہری ناقابل بیان مظالم اور سختیاں برداشت کر رہے ہیں۔ پوری وادی آج ایک جیل کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ جو کشمیری نوجوان سڑکوں پر اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں وہ کسی سہانے مستقبل کا مطالبہ نہیںکر رہے بلکہ اپنے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم تھامے ایک مقبوضہ خطے کی سڑکوں سے دنیا کو ایک واضح فیصلہ سنا رہے ہیں۔ 
نیویارک میں وزیراعظم کی گوناگوں مصروفیات میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی اہمیت حاصل رہی۔ آر ایس ایس‘ جس کے مودی تاحیات رکن ہیں‘ اور ہٹلر کے نازی ازم میں ایک مماثلت قائم کرتے ہوئے عمران خان نے دنیا پر زور دیا کہ وہ کشمیر میں بھارتی بربریت بند کروائے۔ نریندر مودی کے خود ساختہ دعووں سے قطع نظر پاکستان کشمیر کو عالمی سطح پر ایک حل طلب مسئلے اور نیوکلیئر فلیش پوائنٹ کے طور پر اجاگر کرنے میں بہت کامیاب رہا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جس قدرجلد ممکن ہوسکے اس کے حل کی طرف توجہ دے۔
عالمی لیڈروں سے ملاقاتوںکے علاوہ عمران خان نے عالمی میڈیا اورمختلف اخبارات کے ایڈیٹوریل بورڈز سے مل کر انہیں بھی مقبوضہ کشمیر میںحالات کی سنگینی سے آگا ہ کیا۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل، آئی سی آر سی اور انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے سربراہوں نے بھی عمران خان سے ملاقاتوںمیں کشمیر کی گمبھیر صورتحال پر تبادلۂ خیالات کیا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کشمیرمشن کے تناظر میں ایسی کئی ملاقاتیں کیں۔ بلاشبہ پاکستان نے تنازعہ کشمیر کو سنٹر سٹیج پر لاکھڑا کیا ہے۔
نریندرمودی پر یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ چہرے پر غرور اور تکبر کا نقاب چڑھا کر حقائق کوبدلا نہیںجا سکتا۔ مودی کی مکروہ چالبازیوں کے ردعمل میںعمران خان نے دوٹوک الفاظ میں بتا دیا کہ بھارتی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا ''ہم تمہیں ایسا سبق سکھائیں گے جسے تم کبھی فراموش نہیں کر سکو گے‘ آپ کو کسی قسم کی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان کی مسلح افواج کسی بھی بھارتی جارحیت سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں‘‘ اس کے ساتھ انہوں نے کشمیری عوام کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ انہوں نے کہا: ہم کبھی کشمیریوں کو تنہا نہیںچھوڑیں گے اوران کی جائز جدوجہد آزادی کی حمایت جاری رکھیں گے۔ ان کا مشن ہمارا مشن ہے۔ کشمیری عوام بھارتی سکیورٹی فورسزکو قابض فوج سمجھتے ہیں۔ بھارت زبردستی کشمیر پرقابض ہے جبکہ کشمیری عوام اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔ وہ بھارتی قبضے سے آزادی کے سوا کچھ نہیں چاہتے۔ پاکستان کیلئے کشمیر جون 1947ء کے تقسیم ہند پلان کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔ جلد ظلم وستم کی یہ سیاہ رات ختم ہو جائے گی۔ عوامی تحریکوں کو طاقت سے نہیںکچلا جا سکتا۔
دنیا کو اس امرکا ادراک ہونا چاہیے کہ پاک بھارت ہولناک کشیدگی سے ناقابل تصور تباہی پھیلنے کاخدشہ ہے‘ جسے بہرصورت روکنا ہوگا۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیںکیا جا سکتا کہ جنرل اسمبلی کے سیشن سے کوئی فیصلہ یا نتیجہ سامنے نہیں آئے گا۔ یہ بحث مباحثے کا ایک عالمی فورم ہے‘ جہاں رکن ممالک دنیا کیلئے پالیسی فریم ورک کے طور پر اپنے بیانات جاری کرتے ہیں۔ چند اہم مقررین (جیسا کہ اس سیشن میں عمران خان) کے علاوہ سب کی تقریریں سنی ان سنی کر دی جاتی ہیں۔
پاکستان کے سابق حکمرانوں کی طرح دنیا نے ان کی تقریر کو بھی سنا‘ مگر ان میں فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ عمران خان نے کشمیر پر پاکستان کا موقف انتہائی موثر، واضح اور فی البدیہہ پیش کیا ہے۔ انہوںنے مقبوضہ کشمیر میں انسانی المیے کواجاگر کیا اور دنیا کے امن کو لاحق ممکنہ خطرے کو بھی واشگاف الفاظ میں بیان کر دیا۔ عمران خان نے اپنی تقریر میںجتنے بھی نکات پیش کیے‘ یقینا جنرل اسمبلی کی تمام اہم کمیٹیوں کی تیارکردہ قراردادوں میں ان سب کی عکاسی ہوگی۔ 
اب اس امر کو یقینی بنانا پاکستان مشن کی ذمہ داری ہے کہ کشمیریوں کے ''انسانی حقوق‘‘ کی خلاف ورزیوں کومتعلقہ کمیٹیوں اور ان کی قراردادوں کاحصہ بنوائے۔ ان رسمی کارروائیوں کے سوا جنرل اسمبلی سے کوئی بڑی توقع وابستہ کرنا بے سودہے کیونکہ وہ پہلے بھی قراردادوں کے ڈھیروں کے ڈھیر پاس کرتی رہی ہے جن کا آج تک کوئی فالو اپ کیا گیا نہ کوئی نتیجہ نکلا۔ یو این سسٹم نہ صرف یہ کہ کاغذ کا سب سے بڑا صارف ہے بلکہ یہ ردی کا سب سے بڑاپروڈیوسر بھی ہے۔ اسے ''تاریخ کا ڈسٹ بن‘‘ کہنابے جا نہ ہوگا۔آج کے دور میں صرف یواین او ہی عالمی اہمیت کے ایشوز کا ثالث نہیں رہا۔اس نے آج تک کوئی اہم تنازعہ حل کرایا ہے نہ کسی جھگڑے کو روکا ہے۔ فیصلوں کیلئے اب دنیا نیویارک کے بجائے واشنگٹن کی طرف دیکھتی ہے۔ستم ظریفی یہ کہ سلامتی کونسل‘ جو دنیا میں امن اورسکیورٹی کے قیام کی ذمہ دار ہے‘کا اب جھگڑوں کی روک تھام اور تنازعات کے حل میں کوئی کردار نہیں رہا۔اس تناظرمیں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ سے زیادہ امیدیں وابستہ کرنے کی گنجائش نہیں۔ بلاشبہ عمران خان نے بھارتی مظالم کے خلاف دنیا بھر میں بہت زیادہ آگاہی پیدا کر دی ہے۔ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرانے کے علاوہ ہمیں کشمیر کاز کو ایک جائز تحریک بھی ثابت کرنا ہوگا۔ گھسی پٹی تقریروں کے بجائے عملی اقدام کرنا ہوگا۔ دنیا کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے سے بڑی حد تک آگاہ ہو چکی ہے۔
سکیورٹی کونسل اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کشمیر میں استصواب رائے والی قراردادوں کی ایک بار پھرتوثیق کر چکے ہیں۔ بھارت ان قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں ہمارے سامنے چیلنج یہ ہے کہ ہم اس مومینٹم کو برقرار رکھیںاور دنیا کی توجہ کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نہ ہٹنے دیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ دنیا بھر کے اہم دارالحکومتوں اور عالمی فورمز پر موجود ہمارے حاضر سروس اور ریٹائرڈ سفارت کار اپنی ڈپلومیٹیک سرگرمیاں اسی جوش و خروش سے جاری رکھیں۔ کشمیری ایک عظیم تحریک آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب کشمیری عوام کواپنی لچکدار پالیسی یعنی بار بار ابھرنے کی قوت کا پوری طرح ادراک ہو گیا ہے۔
ان کے نوجوان ایک نسل درنسل انقلاب سے گزرے ہیں۔ہمیں ان کے عزم اور حوصلے کو مزید تواناکرنا چاہئے۔ہم اپنی سیاسی معاشی، اخلاقی اور سفارتی مدد کے ذریعے انہیں یہ قوت اور توانائی فراہم کر سکتے ہیں۔ کشمیری تارکین وطن اور بھارت کی دیگر کچلی ہوئی اقلیتیں بھی اس مہم میںبنیادی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ دنیا اس حقیقت سے اب بخوبی باخبر ہو چکی ہے کہ مودی کا پلان یہ ہے کہ کشمیر کی آبادی میں ردوبدل کے ذریعے اس مسئلے کا حتمی حل نکالا جائے۔یقینا اس قسم کی کسی بھی حرکت پر کشمیری عوام کی طرف سے ایک شدید ردعمل آئے گا۔
مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کا اندیشہ عالمی برادری کیلئے ایک کھلا پیغام ہے کہ بلا تاخیر وہ کوئی عملی اقدام کرے۔ بڑے ممالک اور قوام متحدہ کو چاہیے کہ کشمیر میںنسل کشی اوربڑے پیمانے پر ممکنہ قتل عام روکنے کیلئے مداخلت کریں۔انہیں یہ وارننگ قطعی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ اس مرتبہ پاک بھارت جنگ ایک ایسی تباہ کن بربادی میں بدل سکتی ہے جس سے بہرصورت بچنا ہی دانش مندی ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں