"SAC" (space) message & send to 7575

ترک پاکستان یکجہتی اور مسلم دنیا

دونوں ملکوں کے لیے آزمائش کی گھڑی میں گزشتہ ہفتے ترک صدر رجب طیب اردوان کا دورہ پاکستان ان کے (دونوں ممالک) آپس میں خصوصی برادرانہ تعلقات کا حقیقی مظہر تھا۔ پاکستان اور ترکی کے مابین رشتوں کی جڑیں ان کی تہذیب اور کلچر میں پیوست ہیں، اور یہ جڑیں صدیوں تک انڈیا میں قائم رہنے والے مسلم اقتدار تک پھیلی ہوئی ہیں‘ لیکن ان تعلقات میں ایک منفرد جذباتی پہلو اس وقت شامل ہوا جب تقریباً ایک صدی پہلے، 1920ء کی دہائی میں، انڈیا اور بعد ازاں پاکستان بن جانے والے علاقے کے لوگوں نے سلطنتِ عثمانیہ کے حق میں تحریک خلافت چلائی۔ بر صغیر میں مسلم اکثریتی ریاست کے قیام کی نظریاتی اساس کا ایک عنصر یہ تحریک خلافت بھی تھی۔ 
سرد جنگ کے دوران بھی ترکی اور پاکستان اہم مغربی بلاکس کا حصہ رہے‘ حتیٰ کہ آج بھی یہ دونوں ممالک کثیر جہتی باہمی سیاسی، معاشی اور تزویراتی مفادات کے لیے ایک دوسرے سے قریبی اور مبنی بر تعاون تعلقات اُستوار رکھے ہوئے ہیں۔ جغرافیائی طور پر یقینا یہ دو الگ ملک ہیں لیکن ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ان کے مابین گہری تاریخی، مذہبی اور تہذیبی سانجھ ہے۔ آج کے تناظر میں جو چیز اور بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ ترکی اور پاکستان کا منفرد محل وقوع ہے۔ دونوں ملک دنیا کے چند اہم ترین خطوں کے سنگم پر واقع ہیں۔
ان خطوں میں غربت اور تنائو سے گھرا جنوبی ایشیا، تنازعات سے دوچار مغربی ایشیا، وسائل سے بھرپور اہم تزویراتی محل وقوع کا حامل وسطی ایشیا، معاشی طور پر تیزی سے ابھرتا مشرقی ایشیا، طوفانی و تند خو مشرقِ وسطیٰ اور تیل کی دولت سے مالامال خلیج فارس شامل ہیں۔ ترکی اور پاکستان‘ دونوں ہی عملاً وہ بین البراعظمی پُل ہیں، جو اپنی اپنی جگہ پر ایشیا اور یورپ کو آپس میں ملاتے ہیں۔ اپنے منفرد جیو پولیٹیکل محل وقوع اور وسیع مادی و انسانی وسائل کی بدولت مختلف معاملات میں ان دونوں ملکوں کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے اور ان کے محل وقوع نے متعلقہ خِطوں میں امن و استحکام برقرار رکھنے کی ذمہ داری بھی ان پر ڈال رکھی ہے۔ اپنی اسی جیو پولیٹیکل اہمیت کے پیش نظر دونوں ملک اس خطے کے بارے اور عالمی معاملات میں ایک سانجھا موقف رکھتے ہیں۔
دونوں ممالک ایسے مضطر و متحرک علاقوں کا حصہ ہیں جہاں طاقتور ہمسائے موجود ہیں اور جہاں پہلے سے موجود تنازعات کی وجہ سے ہر وقت ان کی سرحدوں پر کسی نہ کسی آویزش کے پیدا ہونے اور اس آویزش کے ان کی سرحدوں کے اندر تک در آنے کا اندیشہ موجود رہتا ہے اور کچھ معاملات میں تو ایسا ہو بھی چکا ہے۔ دونوں ملکوں کو دوسری قوتوں کی جانب سے اثر و رسوخ کم کرنے کی کوششوں کا سامنا بھی رہتا ہے۔ ان دونوں ملکوں کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر ایسی کوششیں غیر فطری نہیں ہیں۔ دونوں ملکوں کو جن کھولتے ہوئے علاقائی تنازعات کا سامنا ہے‘ ان کے پیچھے ایک کلونیل طاقت کا ہاتھ رہا تھا اور یہ چیز اب ان کی متعلقہ قومی نفسیات کا حصہ بن چکی ہے۔ مزید برآں دونوں ملکوں کو اپنے تہذیبی تناظر میں اپنی مسلم شناخت برقرار رکھنے کے لئے کوششیں کرنا پڑیں۔
ان کی تاریخ اور جغرافیے کی یہ سانجھی خصوصیات ان اسباق کا ایک حصہ ہیں، اگر اس کی وجہ نہیں، جو ان دونوں ملکوں نے سیکھے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ صدر رجب طیب اردوان کے تازہ ترین دورہ پاکستان نے ان اسباق کی ایک بار پھر کھوج اور پرکھ کا موقع فراہم کر دیا ہے اور ہم بارِ دگر جائزہ لے سکتے ہیں کہ دونوں ممالک مل کر کیسے مسلم دنیا میں قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ دونوں ملک پہلے ہی ایک ایسا منفرد اور دائمی تعلق رکھتے ہیں جس کی خصوصیات باہمی تعاون، غیر معمولی اعتماد اور افہام و تفہیم ہیں۔ دونوں برادر ملک ہمیشہ ایک دوسرے کے ثابت قدم شراکت دار رہے ہیں۔
ترکی بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کی بھرپور حمایت کرتا ہے‘ اسی طرح پاکستان سائپرس کے معاملے پر ترکوں کے ساتھ پُر عزم کھڑا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور صدر رجب طیب اردوان کی قیادت میں پاکستان و ترکی کے تعلقات پائیدار تعاون کے بندھن میں ڈھل چکے ہیں۔ دونوں پُر عزم ہیں کہ یہ اپنے تاریخی تعلقات کو متنوع شعبوں مثلاً اسلاموفوبیا کے مقابلے، اسلامی یکجہتی کے فروغ اور علاقائی امن، سلامتی اور استحکام کے مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے متحرک تعاون کی شکل دیں گے۔ 
صدر اردوان کا دورہ دونوں ممالک کے مابین روایتی یکجہتی اور وابستگی کو نمایاں کرتا ہے اور یہ پاکستان اور ترکی کے مابین تزویراتی شراکت داری کو مزید وُسعت دینے میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ فریقین نے اس موقع کو معاشی تعلقات مزید مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ایک تزویراتی معاشی فریم ورک پر اتفاق کے علاوہ‘ جس میں تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں، دونوں ملکوں نے تیرہ معاہدوں پر دستخط کیے جن کی وجہ سے باہمی مفاد پر مبنی تعاون کے نئے دریچے وا ہوئے۔ ان شعبوں میں تجارت، سرمایہ کاری، بینکنگ، فنانس، توانائی، سیاحت، کلچر، سائنس، ابلاغ، تعلیم، دفاع اور ریلوے وغیرہ شامل ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان اور صدر اردوان ایسی ہم آہنگی قائم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں جو ایسی نئی اجتماعی قوت محرکہ کو بیدار کرنے میں معاون ثابت ہو گی، جو ان دونوں کا مشترکہ وژن ہے، کہ مسلم دنیا کی عظمت رفتہ کو بحال کیا جائے اور عالمی سطح پر اس کا کھویا ہوا مقام اسے واپس دلایا جائے۔ یقینا یہ کوئی آسان ہدف نہیں ہے۔ امن اسلام کا جوہر ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ہی اس کا سب سے زیادہ فقدان ہے، خصوصاً دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہونے والی اکثر جنگیں مسلم سرزمین پر ہی لڑی گئی ہیں۔ مشرق وسطیٰ، عراق، ایران، خلیجی ریاستیں، افغانستان اور پاکستان، تنازعات اور تشدد مسلم دنیا میں سرایت کر چکے ہیں۔ فلسطین، کشمیر، بوسنیا، چیچنیا، عراق اور افغانستان میں ہونے والے المیے مسلمان دنیا کی مستقل بے چارگی کا اظہار ہیں۔ نائن الیون کے بعد سے اسلام کو اس کے بد خواہوں کی جانب سے قبیح ترین شکل میں پیش کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے جن افراد اور گروہوں پر دہشت گردی کی ساز باز یا اس میں شمولیت کا الزام ہے، جنونی انداز میں ان کے عزائم کو اُجاگر کیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی خرابی ہو‘ ذمہ داری اسلام کے سر تھوپ دی جاتی ہے۔ چونکہ دنیا کے بڑوں اور طاقتوروں کے نزدیک تشدد اور انتہا پسندی اب مطعون شے بن چکے ہیں اس لیے کل کی مسلم تحاریکِ آزادی آج ''عسکریت پسندی اور دہشت گردی‘‘ کا بنیادی منبع قرار دی جاتی ہیں۔
دنیا کی آبادی کے ایک بٹا پانچ حصے کی نمائندگی اور ستاون ممالک میں پھیلائو، دنیا کی توانائی کے ستر فیصد اور خام مال کے تقریباً پچاس فیصد کے مالک، مسلمانوں کو تو معاشی اور سیاسی طور پر دنیا کی بڑی قوت ہونا چاہیے تھا‘ لیکن صورتحال یہ کہ دنیا کی کل GDP میں ان کا حصہ صرف پانچ فیصد ہے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ دنیا میں تیل و گیس کے سب سے بڑے ذخائر پر بیٹھے ہیں، لیکن مسلم ممالک کی اکثریت دنیا میں پسماندہ ترین ہے۔
اکثر غریب اور لاچار ممالک نوآبادیاتی تسلط بھگت کر آزاد ہوئے ہیں لیکن اب بھی انہیں حقیقی سیاسی و معاشی آزادی نصیب نہیں ہوئی۔ مغرب اب بھی ان کے علاقوں اور ان کے وسائل کا استحصال کر رہا ہے۔ 
مسلم دنیا بطور ایک بلاک اپنے مسائل حل کرنے یا اپنی کمزوریوں پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ اس کے حکمران نہ صرف اپنی سلامتی اور خود مختاری مغرب کے پاس گروی رکھ چکے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے ملکوں کا معاشی و سیاسی مستبقل بھی بیچ کھایا ہے۔
لیکن اب صورتحال نقطہ کھولائو تک پہنچ چکی ہے۔ طویل عرصے سے عذاب سہتے عرب ملکوں میں پہلے ہی تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ مغرب سے لے کر جزیرہ نما عرب تک خطرے کی گھنٹیاں واضح طور پر سنائی دے رہی ہیں۔ اکیسویں صدی اسی کی ہو گی جو ان چیلنجز اور مواقع کو بہترین انداز میں استعمال کرے گا۔ مشکلات پر قابو پانے کے لیے فرشتوں کی نصرت نہیں آنے والی۔ مسلم ملکوں کو فوری ضرورت ہے کہ وہ خود کو سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقی کے لیے وقف کر دیں۔ انہیں اپنے وسائل کا کنٹرول بھی اپنے ہاتھوں میں لینا پڑے گا۔
یہ اُس چیلنج کا بنیادی عقدہ ہے جس کا سامنا نہ صرف پاکستان اور ترکی کو ہے بلکہ دنیا میں با رسوخ دیگر مسلم ممالک مثلاً ایران، سعودی عرب، قطر، ملائیشیا، انڈونیشیا اور مصر کو بھی ہے۔ یہ ممالک مسلم دنیا میں تبدیلی کے عمل کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ لیکن اس کے لیے غیر معمولی، استثنائی نوعیت کی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو مفاد اور فرقہ پرستی سے بلند ہو کر ایک نئے اجتماعی وژن کو بڑھاوا دے‘ جو مسلم دنیا کو اتحاد اور قوت کے ایک نئے دور سے روشناس کرکے انہیں طاقتور بنائے اور یہ عالمی سطح پر سیاسی، معاشی اور سکیورٹی امور پر ایک متحد قوت کی صورت سامنے آئے۔
وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعظم مہاتیر محمد اور صدر رجب طیب اردوان ہی ایسی مطلوب سیاست کا ڈول ڈال سکتے ہیں جو مسلم دنیا کو یکجان کر دے۔ انہیں مل کر ساری مسلم دنیا کے مابین تعاون کے ایسے فریم ورک پر کام کرنا ہو گا جو تعلیم، معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی اور انسدادِ دہشت گردی جیسے معاملات کا احاطہ کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں