اٹھارہ برس قبل اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے میں گیارہ ستمبر والے دن نیو یارک میں ہی تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح نہ صرف مین ہیٹن کے افق سے ٹوئن ٹاورز غائب ہو گئے تھے بلکہ دنیا کی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی گئی تھی۔ عالمی سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے نیویارک میں مقیم سفارتی مشنزکے سربراہوں اور اقوام متحدہ کی دیگر ایجنسیوںکے اعزاز میں سالانہ Prayer Breakfast کااہتمام کررکھا تھا کہ اسی دوران ہمیں اچانک ایک طیارے کے ورلڈٹریڈسنٹر سے ٹکرانے کی خبر ملی۔
ہم منظم طریقے سے اقوام متحدہ کی دوسری منزل پہ واقع ڈائننگ ہال سے نیچے اتر رہے تھے تو زیریں لابی میں ٹی وی مانیٹرز پر ہم نے دوسرے جہازکو ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکراتے دیکھا۔ پوری عمارت شعلوںکی لپیٹ میں نظر آرہی تھی۔ یہ بالکل واضح لگ رہا تھا کہ یہ طیاروںکے ٹکرانے کا کوئی معمول کا واقعہ نہیں تھا۔ یہ ظلم اوروحشت کا سنگین واقعہ تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھاکہ کیا ہوا اورکیوں ہوا؟ وہاں ہرطرف آگ اوردھوئیں کا روح فرسا منظر تھا۔ اگلے دن کا امریکی پرنٹ میڈیا Unprecedented Tragedy in American History, Henious Crime ,Catastrophe, Carnage, Act of War Bloody Tuesday جیسی شہ سرخیوں سے مزین تھا۔
دنیاکے نام پہلے پیغام ہی سے امریکی حکومت کا غضبناک موڈ بالکل واضح اورعیاں تھاجو کچھ اس طرح تھا ''آپ ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو‘‘۔ امریکی صدر جارج بش نے اسے دہشتگردی کی کارروائی کہہ کر اس کی پرزور مذمت کی اور ان حملوںکے ذمہ داران کے خلاف سخت ایکشن لینے کا عندیہ دیا۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے جو کچھ بھی کرسکتا ہے کرے گا اورساتھ ہی دیگر اقوام کو وارننگ دی کہ تہذیب اور دہشتگردی کے مابین اس جنگ میں نیوٹرل رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دیگر ممالک کو امریکہ کے ساتھ تعلقات کے ضمن میںفوری اورواضح چوائس کا پیغام دے دیا گیا تھا۔
دنیا کی واحد سپر پاور کا قہروغضب اپنے عروج پر تھا اور اس نے اپنی جوابی کارروائی کی نوعیت اور شدت کا تعین کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیںکیا تھا۔ دنیا بھر سے بھی غصے اور جذبات کا ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آ رہا تھا۔ امریکی عوام کی طرف سے بھی ''دہشتگرد گروپوں‘‘ کے خلاف جذباتی اشتعال واضح تھا۔ امریکہ سفارتی محاذ پر نیٹوکو اپنی اس مہم میں شامل کرنے کے علاوہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کیلئے عالمی اتحاد کومتحرک کرنے میںبھی کامیاب نظر آرہا تھا۔ اگلے روز 12ستمبر کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں بہت سخت قراردادیں منظور کرلی گئیں۔
ان قراردادوں نے دہشتگردوں اور ان کے ٹھکانوںکے خلاف امریکہ کی فوجی کارروائی کی راہیں ہموار کر دیں۔ دوہفتے بعد امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ایک واضح قرارداد (UNSC 1373 of Sept.28,2001) پاس کرانے میں کامیاب ہو گیا جس کا مقصد اقوام متحدہ کی انسداد دہشتگردی کمیٹی کے ذریعے دہشتگردی کے خاتمے سے متعلق اقدامات کا نفاذ کرنا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ نائن الیون کی دہشتگردی نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیلئے یہ ایک اہم اور مشکل موڑ تھا۔ بے شک اس سنگین اہمیت والے دن پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین چوراہے پر کھڑا تھا۔ عالمی تعلقات کی مبادیات ہی راتوں رات تبدیل ہوگئی تھیں۔ دنیا بھر میں انتہائی تیز رفتار سیاسی، معاشی اور دفاعی دھچکے محسوس کئے گئے۔
پاکستان کیلئے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس راستے پر جائے اورکس راستے پر نہ جائے۔ کثیرجہتی داخلی اور خارجی چیلنجز میں گھرا ہوا پاکستان متحیر اور سراسیمہ نظر آرہا تھا۔ نائن الیون کاالمیہ ایسے بھیانک حقائق دنیاکے سامنے لایا تھا جو نئے انداز فکروعمل کے متقاضی تھے۔ جنرل پرویزمشرف ان معدودے چند رہنمائوں میںسے ایک تھے‘ جنہیں سب سے پہلے واشنگٹن سے فون کال موصول ہوئی۔
12ستمبر 2001ء کو رات گئے امریکی وزیرخارجہ جنرل کولن پاول نے ٹیلی فون پر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے بھرپور حمایت اور تعاون کا مطالبہ کردیا۔ اس گفتگو میں ایک جنرل نے دوسرے جنرل سے دھیمے مگر دوٹوک انداز میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مدد مانگی تھی۔ صدر پرویز مشرف پیغام کی حساسیت کو سمجھ گئے تھے اور انہوں نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیرپاکستان کی طرف سے بھرپورمدد اور تعاون کا وعدہ کرلیا۔ ان کے اپنے الفاظ میں ''نائن الیون کی کڑک آسمانی بجلی سے کسی طور کم نہیں تھی‘‘ نئے عالمی حقائق کے پیش نظر پاکستان کی پالیسیوں کو نئے قالب میں ڈھالنے کیلئے انہیں ایک طرف ''بیرونی دبائو کو برداشت کرنا تھا تودوسری جانب داخلی رائے عامہ کوبھی ہموار کرنا تھا‘‘۔
جنرل پرویز مشرف نے مطلوبہ امداداور تعاون کا وعدہ کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا۔ باقی جو ہواوہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ''زخم خوردہ سپرپاور‘‘ کے خلاف جانے سے گریز کا درست فیصلہ کیا۔ پلک جھپکنے میں پاکستان افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ کا کلیدی اتحادی بن گیا تھا۔ پاکستان کی مسلمہ پالیسیوں میں اتنی تیزرفتار اور غیرمشروط تبدیلی پر امریکی خود بھی انگشت بدنداں تھے۔ جنرل پرویز مشرف‘ جو اکتوبر 1999ء میں اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے بعدایک بڑے مخمصے سے دوچار تھے‘ دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں اتحادی بن کر امریکیوں کی آنکھوں کا تارہ بن گئے تھے۔ عالمی سطح پر ان کو لیجیٹی میسی مل گئی۔
انہیں امریکی مطالبات اورملک میں موجود عسکری اور مذہبی تنظیموں کے متوقع ردعمل کے مابین ایک نازک توازن برقرار رکھنا تھا۔ اس اہم موڑ پران کے پاس بظاہرکوئی دوسراآپشن نہیں تھا مگر ڈپلومیسی بھی تو مفادات کے تحفظ کا ایک فن ہوتی ہے۔ اگر جنرل مشرف دیگر سفارتی آپشن تلاش کرنے کی تھوڑی سی کوشش بھیکرتے تو پاکستان کو ایک دوسری افغان جنگ میں الجھانے سے بچا سکتے تھے۔ اپنی دانست کے مطابق انہوں نے خطے میں امریکہ کی واضح تزویراتی اینڈگیم کا حصہ بننے پر اکتفا کیا۔ اپنی کتاب In the Line of Fire میں وہ خود دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے قومی مفادکے پیش نظریہ فیصلہ کیا تھا۔
ان کے مطابق ''کسی بھی لیڈر پر ایک ایسا وقت آتا ہے جب اسے شدید تنہائی کاسامنا ہوتا ہے۔ وہ دوسروں سے جتنے مرضی مشورے سن لے مگر آخرکار اسے تن تنہا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اسے احساس ہونے لگتا ہے کہ ساری ذمہ داری اسی کے کندھوں پر ہے‘‘۔ بلاشبہ اس لمحے ساری ذمہ داری انہی کے کندھوں پر تھی۔
پالیسی میں یکسر تبدیلی کیلئے خواہ کتنا بھی جواز موجود تھا مگراس سے نائن الیون کے بعد پاکستان کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے ضمن میں ہونے والی فیصلہ سازی میں ایڈہاک اور صوابدیدی نوعیت کی عکاسی ضرور ہوگئی۔ مگر پاکستان کے اس فیصلے نے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرلی تھی۔
اس کے بعد جوکچھ ہوا ہم اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اٹھارہ سال بیت جانے کے بعد بھی افغان جنگ کا رسمی خاتمہ ابھی باقی ہے۔ حتمی امن دوردور تک نظر نہیں آتا۔ (باقی صفحہ 11 پر)
اس پورے عرصے میں دنیا بھرکے میڈیا کوایک کڑا چیلنج درپیش تھا کہ ان واقعات کو سمجھنے میں لوگوں کی مددکی جائے اور ساتھ ہی اس نے نائن الیون حملوں کے بعد لوگوں کو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے وسیع تر پس منظر کو سمجھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ شروع میں تو دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ جائز تھی مگر اب یہ اپنا قانونی اور اخلاقی جوازکھو چکی ہے۔
اپنے پیشرو صدربارک اوباما کی طرح ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران افغان جنگ ختم کرنے کاوعدہ کیا تھا۔ حال ہی میں پاکستان کے تعاون سے وہ اپنے اس وعدے کی تکمیل کے قریب تر پہنچ گئے تھے‘ مگر آخری مراحل میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے۔ افغانستان اور اس خطے میں ایسے عناصرموجود ہیں جو افغانستان میں قیام امن کے دشمنہیں اور امن پروسیس کو سبوتاژ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے؛ تاہم ایک بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ افغانستان میں کوئی بیرونی فوجی قبضہ کبھی کارگر ثابت نہیں ہوا۔
انجام کچھ بھی ہو مگرتاریخ اس امر کی بھی گواہ ہے کہ نائن الیون کاالمیہ طویل افغان المیے کا ہی تسلسل اور منطقی اختتامیہ تھا۔ اگر 1990ء کے عشرے میں افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی کے بعد امریکہ افغانستان کو بے یارومددگار چھوڑ کر نہ جاتا تو آج دنیا کی تاریخ یکسر مختلف ہوتی۔ اگر دنیا افغان عوام کے ساتھ جڑی رہتی، اور سوویت یونین کے خلاف جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد تعمیر نو کے عمل میں مدد فراہم کرتی اور افغان حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کیلئے انہیں قوت اور مدد فراہم کرتی تو آج نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کی صورتحال بھی مختلف نظر آتی۔ ایک بات واضح ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے اور اس حوالے سے ہرممکن مدد فراہم کرتا رہے گا۔