"SAC" (space) message & send to 7575

سوال کا جواب

جب سے بڑے میڈیا ہاؤسز ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کی طرح نسل در نسل ایک ہی خاندان کی حکمرانی والے، محض مالی مفادات کے حصول کے لیے کام کرنے والے کارپوریٹ گروپوں میں ڈھلے ہیں، تب سے میں نے اخبارات میں لکھنا تَرک کر دیا ہے لیکن میرے اچھے دوست مجیب الرحمٰن شامی نے جو سوال دریافت کیا ہے، میں اس کا جواب دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انھوں نے یہ سوال اِس نہایت مؤقر اخبار میں شائع ہونے والے اپنے حالیہ بلیغ ادارتی مضمون میں اٹھایا ہے۔ انھوں نے ''جڑواں‘‘ ہمسایوں کی مشترک تاریخ کے پس منظر میں پوچھا ہے کہ بھارت ایک جمہوری ملک کیوں ہے اور پاکستان جمہوری ملک کیوں نہیں؟ آخر ہمارے ملک میں کیا خامی ہے؟
مجھے یاد آیا کہ چند برس پہلے یہی سوال امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں خطاب کے دوران مجھ سے پوچھا گیا تھا۔ یونیورسٹی کے بھارت نژاد ایک پروفیسر دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح اس سوال کے منطقی جوابات کی تاریخ پر غور کیے بغیر ایسا لگتا تھا کہ بھارت کی جمہوریت کو ہندو مت سے منسوب کرنے اور پاکستان کی یک شخصی حکومت کو اسلام سے منسوب کرنے کی ترغیب سے متاثر ہو گئے تھے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جمہوریت کا کوئی عقیدہ نہیں، گو کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ سفید فام، آسودہ حال، غیر مسلم معاشروں میں زیادہ کامیاب ہے۔ ہمارے لیے محض یہ سوچ لینا اطمینان بخش نہیں کہ پاکستان میں صرف فوج کی حکمرانی کے قیام کی روایت جمہوریت کی ناکامی کا باعث رہی ہے۔ 
درحقیقت ہمارے جمہوریت کے سفر میں تاریخی، سماجی‘ ثقافتی اور جغرافیائی سیاسی عوامل آزادی کے بعد پاکستان میں جمہوری روایت کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔ بلاشبہ جمہوری سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر دو آزاد ریاستوں کے طور پر ابھرنے والے بھارت اور پاکستان‘ دونوں کو ایک پارلیمانی روایت ورثے میں ملی اور انہیں اپنے لیے واضح طور پر وضع کردہ جمہوری راستے پر آزاد ریاستوں کی حیثیت سے گامزن ہونا تھا۔ بھارت تو 1950ء میں آئین اختیار کرنے کے بعد سے جمہوری روایت پر مضبوطی سے کاربند رہا، اس نے سیاسی اور معاشی اصلاحات بھی کیں اور اپنی بڑی جسامت اور سماجی معاشی چیلنجوں کے باوجود ہر پانچ سال بعد انتخابات منعقد کرواتا رہا۔
لیکن 1947ء میں آزادی کے بعد ریاستِ پاکستان کے سامنے ہموار راستہ نہیں تھا، ہمیں نہ صرف نوآبادیاتی ورثے سے نمٹنا تھا بلکہ سنگین ہنگامی صورتحال میں پورے کا پورا حکومتی ڈھانچہ تشکیل دینا تھا۔ یقیناً قائد اعظم کی قبل از وقت وفات سے پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کے لئے صحت مندانہ سیاسی نشوونما کا کوئی امکان نہ رہا تھا‘ جبکہ اس کے جاگیردارانہ نظام کی خامیوں نے جمہوریت کی طرف اس کا سفر روک دیا۔ بھارت کی کانگریس پارٹی کے برعکس پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ پر چند جاگیردار خاندانوں کا تقریباً مکمل قبضہ تھا، جن کی سرپرستی تقسیم سے پہلے انگریز کرتے تھے۔ وہ بہت طاقتور تھے اور بیوروکریسی اور مسلح افواج کے ذریعے قومی امور و معاملات پر گرفت قائم رکھتے رہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ حقیقی اختیارات کی حامل فوج اور سول بیوروکریسی کے علاوہ بہت سے سیاست دانوں کو بھی متواتر سیاسی اور معاشی بحرانوں نے ''ڈھالا‘‘۔ مسلم لیگ کے ٹوٹنے کے بعد بھی مختلف اوقات میں مختلف سیاسی جھنڈوں تلے مختلف لوگوں پر مشتمل وہی جاگیردار ٹولہ، اکثر فوج کی مدد سے، برسرِ اقتدار رہا۔
یقیناً جمہوریت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اسی طرح جمہوریت کا دولت یا خاندان سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ جمہوریت کا تعلق عوام سے ہے، جو اپنی تقدیر کے حتمی حاکم ہیں۔ وہ قانون کی حکمرانی، انصاف اور اچھی حکمرانی کی آس اور امید میںاپنے راہنماؤں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہمارے معاملے میں یہ ہوا کہ ہم نے ایسے بہت سے سیاسی راہنما دیکھے جنھیں سیاسی اور عسکری حکومتوں کے ادوار میں ''ڈھالا‘‘ گیا تھا۔ انھوں نے ''منتخب‘‘ راہنماؤں کی حیثیت سے پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری ریاست میں ڈھالنے کی امید کبھی نہیں دلائی۔
سیاستدان جب بھی منتخب ہوئے وہ بدعنوان، محض اپنی سیاسی طاقت برقرار رکھنے والے اور اپنے یا اپنی اشرافیہ برادری کے مفادات کا تحفظ کرنے والے ہی ثابت ہوئے۔ انھوں نے پاکستان کے عوام کو سماجی‘ معاشی انصاف اور دیانت دار انتظامیہ فراہم کرنے کی نہ کوئی کوشش کی اور نہ ہی کبھی امید دلائی۔ یہ امر باعثِ حیرت نہیں کہ ہماری آزاد ریاست کو پچیس سال سے بھی کم عرصہ گزرا تھا کہ ہم نصف ملک گنوا بیٹھے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ دسمبر 1970ء میںمتحدہ پاکستان میں منعقد ہونے والے پہلے اور آخری عام انتخابات ہمارے لئے ایک قومی المیہ ثابت ہوئے۔ انھوں نے ان انتخابات میں ظاہر کیا جانے والا عوامی فیصلہ مسترد کر دیا۔
مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نے سیاسی بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے نہ صرف عسکری حل کی حوصلہ افزائی کی بلکہ اس کا حصہ بھی بن گئے۔ ایک سیاسی بحران جسے‘ سیاسی انداز میں حل کیا جانا چاہیے تھا، انتہا کو پہنچ کر بالآخر ملک کے دولخت ہونے پر منتج ہوا۔ وہ سیاسی موقع پرستی کی انتہا تھی۔ ملک ٹوٹ گیا۔ یہ دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ وقوع ہونے والا بدترین واقعہ تھا۔ اس کے باوجود ہم نے اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم انھی غلطیوں کو برابر دھراتے رہے۔ جو سیاستدان آئین بنانے کا مینڈیٹ نہیں رکھتے تھے اور جو در حقیقت پاکستان کے دولخت ہونے کے ذمہ دار تھے، وہی نئے آئین کے مصنف بن بیٹھے۔
1971ء کے المیے کا باعث بننے والی وجوہ سے بچنے کیلئے نئے آئین میں کوئی شق نہیں رکھی گئی۔ یہ آئین خود اس دستاویز کے میرٹس کے تحت نہیں بلکہ 1973ء میں ملک ٹوٹنے کے المیے سے پیدا ہونے والے دباؤ کے تحت بنایا گیا تھا۔ اس وقت سے قومی تقاضوں کی بجائے زیادہ تر سیاسی اغراض و مقاصد سے آئین میں متعدد ترامیم کی گئیں۔ کسی بھی حکومت نے ہمارے وفاقی نظام کی خامیاں درست کرنے یا صوبائی رنجشوں اور محرومیوں کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمارے سیاست دان قوم میں اتحاد کا جذبہ پیدا کرنے کی بجائے ہمیشہ نسلی اور لسانی موقع پرستی کے شکار رہے۔انہوں نے ہمیشہ بیوروکریسی پر مکمل انحصار نہیںکیا۔ اس کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے ساکھ یا اہلیت نہ ہونے کے باوجود ملک پر اپنا قبضہ جمائے رکھا۔ اگر ماضی میں فوج کی مداخلت کی مثالیں ملتی ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ سویلین سیٹ اپ کا سیاسی کیڈر تزویری بصیرت یا اہلیت سے محروم تھا۔ ہم مختلف ادوار میں عسکری حکمرانی سے تو گزرے لیکن ''منتخب‘‘ راہنماؤں کے تحت چند نام نہاد جمہوری ادوار میں بھی عوام کوحقیقی جمہوریت سے فیض یاب ہونے کا موقع نہیں ملا۔ ہمارے سیاست دان اس شرمناک حقیقت سے آگاہ ہیں‘ پھر بھی انھوں نے حقیقی جمہوریت قائم کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان میں سے بہت سوں کو فوج کی گود میں پلتے دیکھا ہے۔ اس کے باوجود وہ جمہوریت کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔یہ امر باعثِ حیرت نہیں کہ سول ملٹری کشمکش ہماری سیاست کا جزوِ لاینفک بن چکی ہے۔ ایک سوال ہمیشہ دریافت کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی نظام اور سویلین حکومتیں اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کرتیں تو کیا پاکستان میں عسکری مداخلت سے محفوظ رہا جا سکتا تھا؟ کم از کم سویلین حکمرانی کے گزشتہ دس برسوں کے دوران سنگین اشتعال انگیزیوں کے باوجود فوج منتخب حکمرانوں کو اپنا کام کرنے کا پورا موقع دیتے ہوئے اپنے آئینی کردار پر ثابت قدم رہی ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا جاگیردارانہ، قبائلی اور اشرافیائی اقتدار کے ڈھانچے کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی منظم تبدیلی ممکن نہیں رہی۔ کیونکہ تبدیلی ان کو قبول نہیں ہے۔ وہ محض اپنے مفادات کے لیے آئین میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں۔ جس طرح اٹھارہویں ترمیم کے تحت کی گئی نام نہاد ''عدم مرکزیت‘‘ بین الصوبائی عدم مساوات کا کوئی حل پیش نہیں کرتی۔ اس سارے عمل میں سب سے زیادہ نقصان ریاستی اداروں اور قومی یکجہتی کو پہنچتا رہا ہے۔
ہم مزید خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے۔ ضروری ہے کہ فوری طور پر موجودہ فرسودہ نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرکے ملکی سیاست کے پرانے غاصبوں، ملک کے دقیانوسی سماجی و سیاسی ڈھانچوں اورکرپٹ اشرافیہ کی زیرِ قیادت جاری 'سٹیٹس کو‘ سے نجات حاصل کی جائے۔ اب قوم اس نظام کی خرابیاں جلد از جلد دور کرنے کے لیے امید بھری نظروں سے اعلیٰ عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں