ناقابلِ یقین! وہ عالمی کرکٹ کو زراندوزی اور کارکردگی کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ نام نہاد بِگ تھری یا بی3-نے حصولِ اختیار اور ہوسِ زر کی خاطر ازخود ایک مطلق العنان حیثیت اختیار کر لی ہے ۔ ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ دُنیا کے اُن تین بااثر ترین ممالک نے دُنیائے کرکٹ پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے انتہائی غیر جمہوری طریقہ اختیار کیا جو جمہوریت اور مساوات کے بہت بڑے دعویدار ہیں۔مقصد جلبِ زر ہے۔ اگر وہ اپنی سازش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کھیل کی دُنیا میں ایک نئی نسل پرستی اور جدید قسم کی نوآبادیاتی مہم جوئی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
نئے ہزاریے کے ابتدائی برسوں میں ہی خود بین اور رجعت پسند قوتوں کی طرف سے کرکٹ میںفُل بیک ورڈ '' سِلی سوئنگ‘‘کا مظاہرہ انتہائی مایُوس کن ہے۔مبینہ طور پر اس پورے شیطانی منصوبے کی پشت پر بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ اِن انڈیا(بی سی سی آئی) کا ہاتھ ہے۔ اُسی نے ہی آسٹریلیا اور انگلینڈ کو اعتماد میں لے کر خود ساختہ بگ تھری تشکیل دینے کی منصوبہ بندی کی جس کے تحت ان ممالک کے کرکٹ بورڈ اپنی مرضی کے فیصلے کر سکیں گے اور ٹیسٹ کرکٹ دو حصّوں میں تقسیم ہو جائے گی، لیکن ان کی اپنی حیثیت جوں کی توں برقرار رہے گی، اس لیے کہ انہیں زبردست کمرشل اہمیت حاصل ہے اور وہ اس کھیل کے اعتبار سے دولت مند ترین ملک سمجھے جاتے ہیں۔
بھارت کی اس دھمکی کے بعد کہ اگر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) میں بنیادی تبدیلیاں نہ کی گئیں تو وہ انٹرنیشنل کرکٹ کے اہم میچوں میں حصّہ نہیں لے گا‘ کرکٹ کے پاور بروکروں کا ایک اجلاس حال ہی میں دبئی میں منعقد ہُوا۔اگر بھارت‘آسٹریلیا اور انگلینڈ تبدیلیاں کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بی 3-نہ صرف اُس پانچ رُکنی ایگزیکٹو کمیٹی کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے جو آئی سی سی کی تمام پالیسیاں طے کرتی ہے بلکہ اسے نئے دو درجاتی مقابلے سے اخراج سے بھی تحفظ مل جائے گا اور اسی کی بدولت انہیں آئی سی سی کے تحت منعقد ہونے والے ورلڈ کپ اور ورلڈ ٹی 20-جیسے مقابلوں میں لازمی طور پر حصّہ لینے کی بناء پر بھاری معاوضے بھی ملیں گے۔
بی 3-کے تصور سے نہ صرف کرکٹ کھیلنے والے ممالک، دو غیر مساوی طبقوں میں تقسیم ہو جائیں گے بلکہ دوسرے سات ممالک (بنگلہ دیش‘جنوبی افریقہ‘ سری لنکا‘ پاکستان ‘ نیوزی لینڈ‘ ویسٹ انڈیز اور زمبیا)کو غیر اہم گروپ میں شامل کر دیا جائے گا جنہیں شاید بگ تھری کے مقابلے میں بونے 7-(Scrawny-Seven)کا نام دے دیا جائے۔ بی3-کی سازش آئی سی سی کے موجودہ ایف ٹی بی (Future Tour Programme)کو بھی متاثر کرے گی جس کے تحت دُنیائے کرکٹ کے دس پہلے ممالک مخصوص اوقات میں ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت نہ تو کسی کا امتیازی بنیاد پر چنائو کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کو خارج کرنے کی کوئی روایت ہے؛ بلکہ اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ چھوٹے ممالک ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے سے محروم نہ رہ جائیں۔
بی سی سی آئی کی ورکنگ کمیٹی کے آخری اجلاس میں شامل ایک باضمیر عہدیدار نے اعتراف کیا کہ بی 3-سے ''داداگیری‘‘ قائم ہو گی۔ بھارت میں اسے ''تھگڑی‘‘ اور پاکستان میں ''قبضہ گروپ‘‘کہا جاتا ہے۔ دراصل بی 3-اپنی دولت کے زور پر انٹرنیشنل کرکٹ کی گورننگ باڈی پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کتنی شرمناک حرکت ہے؟ہمیشہ سے غلط تصور کی جانے والی چیز کو کبھی اس طرح صحیح نہیں کہا گیا۔کرکٹ کے ساتھ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی باضمیر شخص دُنیائے کرکٹ پر بی سی سی آئی‘آسٹریلیا‘ انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ کی مطلق العنانیت قبول نہیں کر سکتا۔ لگتا ہے انہیں وقت کے تقاضوں کا شعور ہی نہیں۔ہم انیسویں یا بیسویں صدی میں زندہ نہیں‘حضور! یہ اکیسویں صدی ہے۔ نو آبادیاتی اور نسلی امتیاز کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کی تاریخی غلطی کے سوا اب اُس عہد کی کوئی بھی علامت باقی نہیں رہی۔لیکن افسوس ‘دُنیا کے تین بڑے جمہوری ممالک کے کرکٹ بورڈ ہوسِ زر میں مبتلا ہو کر نہ صرف شعورِ عصر سے محروم ہو گئے بلکہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ خود مختاری اور مساوات جیسی بنیادی اقدار کو بھی پسِ پشت ڈال دیا۔
دُنیا بھر کے کرکٹ شائقین کے جذبات بی سی سی آئی کی ''داداگیری‘‘ سے مجروح ہوئے ہیں۔ ان تینوں ''مہذب‘‘ ملکوں کی خارجہ وزارتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کرکٹ بورڈز کے بزرجمہروں کو سپورٹس سمیت تمام شعبوں میں بین الاقوامی تعاون کے قواعد و ضوابط‘قوانین اور اقدار سے رُوشناس کرائیں اور انہیں باور کرائیں کہ وہ اختیارات و استحقاق کے اعلیٰ مراکز قائم کرنے کے بجائے اپنے اداروں میں جمہوریت‘شراکت داری‘شفافیت اور احتساب کو فروغ دیں۔
تینوں خود بین کرکٹ بورڈز کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ انٹرنیشنل گورننگ باڈی سے منسلک صرف اپنے اپنے ملکوں کے بورڈز کے عہدیدار ہیں‘ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔لیکن اس وقت بی 3-دوسرے ممالک کے کرکٹ بورڈز خصوصاً چھوٹے ممالک کے ساتھ ترغیب و ترہیب کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اور اپنے مرتب کردہ نئے نظام کو تسلیم کرنے کی صورت میں انہیں مراعات دینے کے وعدے بھی کیے جا رہے ہیں۔سرپرستی کا یہ کیسا انداز ہے؟نیوزی لینڈ اور زمبابوے پہلے ہی دبائو میں آ گئے ہیں، باقی پانچ ممالک کے بورڈ بھی نیم دلی سے مزاحمت کر رہے ہیں۔
اس وقت جنوبی افریقہ ٹیسٹ کرکٹ میں ٹاپ رینک پر ہے جبکہ سری لنکا گزشتہ ورلڈ کپ کے فائنل میں بھارت سے ہارا تھا۔ ان دونوں ملکوں نے بی3-تشکیل دینے کی تجویز واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور انہوں نے دبئی کے اجلاس میں اس پر شدید احتجاج بھی کیا، جس پر اس تجویز کو موخر کر دیا گیا لیکن واپس نہیں لیا گیا۔ اس پر چند روز بعد دوبارہ غور ہو گا۔ متاثرہ کرکٹ بورڈز کو چاہیے کہ وہ مل کر اور تیزی کے ساتھ اس متنازع مصنوبے پر متفقہ موقف اختیار کریں ۔ممکن ہے کہ یہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہونے کے علاوہ فیڈریشن آف انٹرنیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن(ایف آئی سی اے) سے بھی بات چیت کر رہے ہوں گے۔ ایف آئی سی اے کے چیئرمین آسٹریلیا کے سابق عظیم کرکٹر روڈنی مارش کے بیٹے پال مارش ہیں جنہوں نے بی 3-کے منصوبے پر کھلے عام نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اس سے انٹرنیشنل کرکٹ کو نقصان پہنچے گا۔
آئی سی سی کے تین سابق سربراہان نے بھی بی 3-منصوبے کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ ''بلیک میلنگ سے کام نہیں چلے گا۔‘‘دوسرے سابق سربراہ کا سوال تھا کہ ''ان کا اگلا مطالبہ کیا ہو گا؟‘‘۔تیسرے سابق سربراہ نے اس منصوبے کے جواز پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جس دستاویز کی بنیاد پر یہ منصوبہ بنایا گیا ہے اُس میں بڑی بڑی غلطیاں ہیں، اس لیے سب سے پہلے اس دستاویز کا جائزہ لینا چاہیے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دستاویز میں کہیں آئی سی سی کے عہدیداروں کی بدانتظامی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔بی 3-منصوبے کے مثبت اور منفی پہلو اپنی جگہ پر لیکن اس کے سرپرستوں کو بدنیت نہ کہا جائے پھر بھی اس پر سنجیدہ سوال ضرور اٹھائے جا سکتے ہیں۔
بی 3-منصوبے کے لیے شفافیت اور اعتماد سازی کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی‘ اس کے بجائے انہوں نے اپنے رویے سے یہ پیغام دیا کہ ٹھیک ہے‘جمہوریت بہت ہو چکی‘ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا پھر ہمارے خلاف! وہ دُنیائے کرکٹ کو یہ واضح پیغام بھی دے رہے ہیں کہ بڑے آئیڈیلزاور اخلاقیات کو بھول جائو‘ اب کرکٹ پر جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا اصول چلے گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ اسے معمول کا معاملہ نہ سمجھے۔اسے پیسے یا کِسی دوسرے لالی پاپ سے بھی راضی نہیں ہو جانا چاہیے۔ یہ بنیادی اصولوں اور اقدار کا سوال ہے جس پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
تقریبا بیس برس پہلے ہم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد بڑھانے کے خلاف ایک بین الاقوامی مہم کا آغاز کیا تھا۔شروع میں اس کے ارکان اتنے کم تھے کہ ہم نے اسے ''کافی کلب‘‘کا نام دے رکھا تھا‘ لیکن آج اس کے ارکان کی تعداد 154ہے جو خود مختاری‘ مساوات اور جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والا ایک موثر فورم ہے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں )