افلاطون کے دور سے ہی فلسفی ایک اچھے معاشرے اور ایک اچھی ریاست کے معنی و مراد کا تعین کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ایک مثالی معاشرہ اور ریاست کیسی ہونی چاہیے؟ سب نے اپنے تصورات پیش کیے اور مغربی سیاسی دانشوروں نے انہی کو بنیاد بنا کر ریاست اور طرزِ حکومت کے مختلف نظریات پیش کیے۔ مشرق اور مغرب‘ دونوں معاشروں کے سیاسی نظریہ سازوں نے قیادت کی مختلف اشکال پر بھی غوروفکر کیا اور ایک مثالی قائدکی ایسی شخصیت کا خاکہ پیش کیا جو کئی پیچیدہ خصوصیات کا مرقع ہو۔ انہوں نے معاشرے کے بنیادی ڈھانچے‘ قیادت کے کردار‘ فرد کے حقوق اور عدل و انصاف کے بارے میں مثالیت اور عملیت دونوں طرح کے تصورات پیش کیے۔
عہد حاضر کے جمہوری نظاموں (بشمول ان تجربات کے جو آزادی کے بعد پاکستان میں کیے گئے) یا جمہوری اصولوں سے متعلق مقامی سطح کے نظری و عملی پہلوئوں میں آویزش پر بحث تشنۂ تکمیل رہے گی تاوقتیکہ چند معروف اہلِ دانش کے تصورات و افکار سے روشناس نہ کرا دیا جائے۔
اس فلسفیانہ سلسلے کی پہلی کڑی افلاطون (427 تا 347قبل مسیح) ہے جس نے ایک مثالی شہری ریاست اور فلسفی بادشاہ کا تصور پیش کیا۔ وہ اپنی شہرۂِ آفاق تصنیف ''جمہوریہ‘‘ میں عدل و انصاف کو ایک مرکزی معاملہ اور''ناگزیر خیر‘‘ قرار دیتا ہے جو ریاستی امور میں شریک ''نیک طینت افراد‘‘ کے مابین متوازن معاونت سے جنم لیتا ہے۔ افلاطون ''فلسفی بادشاہ‘‘ کو ترجیح دیتا ہے بشرطیکہ کہ ہم ایک ایسا اعلیٰ و ارفع شخص تلاش کر لیں جو کامل دانش اور عدل کے ساتھ حکمرانی کرے۔
سیاسی نظریات میں ارسطو (384 تا 322 قبل مسیح) کا عظیم ترین حصہ ایک قانونی فرمانروا اور ارادتاً جابر حکمران میں امتیاز کی وضاحت پر مبنی ہے۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ لوگوں کو اپنے فطری نوعیت کے اجتماعی مشاہدے کی بنا پر اپنے قائدین کا انتخاب کرنے اور ان کا محاسبہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ریاست اور معاشرہ انسان کی ایک لازمی ضرورت ہے، اچھی حکمرانی ایک اضافی معاملہ ہے اور تمام لوگوں کو تمام اوقات میں بہترین حکومت فراہم نہیں کی جا سکتی۔
ایک مثالی ریاست کا وجود تو شاید ممکن نہ ہو لیکن رُوسو (1722ء تا 1778ء) نے اپنے ''معاہدہ عمرانی‘‘ میں اپنی نوعیت کی ایک مثالی ریاست کا یہ تصور پیش کیا کہ یہ سادہ اور اتنی چھوٹی ہو کہ اس کے باشندے اپنی حکومت کے امور میں فعال حصہ لے سکیں اور اس امرکو یقینی بنایا جائے کہ ریاست اپنے تمام شہریوں کی ضروریات پوری کر سکے گی۔ اس نے ایک ایسی جمہوریہ تجویز کی جس میں قوانین کی حکمرانی ہو‘ حکومت لوگوں کے ایسے منتخب کردہ افراد کے ہاتھ میں ہو جو عوام کی خواہش کو عملی جامہ پہنائیں۔
جن فلاسفہ نے قیادت اور اقتدار جیسے امور پر توجہ مرکوز کی ان میں مکیاولی (1469ء تا 1527ء) بہت نمایاں ہے جس نے ''نظریہ ضرورت‘‘ کا مشہور و معروف تصور پیش کیا۔ ایک حکمران کے لیے جسے وہ ''پرنس‘‘ کہتا ہے‘ اس کے بنیادی نظریات اسی نام کی کتاب میں موجود ہیں۔ مکیاولی کے پرنس کو مضبوط‘ عملیت پسند‘ کرشماتی شخصیت کا حامل اور اپنی رعایا کے لیے بے رحم حکمران ہونا چاہیے۔ وہ لازمی طور پر ''منافقانہ اور لچکدار‘‘ رویہ رکھتا ہو، رعایا میں اپنا اچھا تاثر قائم کرنے کے لیے ''رحم دلی‘ خدا پرستی‘ راست بازی‘ انسان دوستی اور مذہب پسندی‘‘ کا نقاب اوڑھے رکھے مگر عام طور پر عمل ان خصوصیات کے برعکس کرے۔ سیاسی اقتدار کے حصول کے لیے مکیاولی کہتا ہے کہ حکمران کا قسمت کا دھنی ہونا اور پیدائشی طور پر حاکم گھرانے سے تعلق ضروری ہے، ایسا نہ ہو تو پھر اسے دھوکہ دہی اور طاقت کے زور پر مسند اقتدار پر قابض ہو جانا چاہیے۔ مکیاولی کے فلسفہ حکمرانی کی بنیاد یہ مفروضہ ہے... چونکہ نیک اطوار شہریوں کی عدم موجودگی میں معاشرہ صرف ''بدعنوان عوام‘‘ پر مشتمل ہوتا ہے اور نصب العین کے حصول کی خاطر ہر طرح کے طریقے استعمال کرنا جائز ہوتا ہے‘ اس لیے انہیں صرف ایک ''پرنس‘‘ ہی دھوکہ دہی اور شاطرانہ رویے سے کنٹرول کر سکتا ہے۔
ان خیالات اور نظریات سے انسانی ذہن متاثر ہونے کی بنا پر‘ جب سے ''قومی ریاست‘‘ کا تصور ابھرا ہے‘ دنیا کو تمام قسم کے سیاسی نظاموں کے تجربات سے گزرنا پڑا جن میں بادشاہت‘ قدیم جمہوریہ‘ مطلق العنانیت‘ آمریت‘ ظلم و جبر اور جدید جمہوریت تک سبھی نظام شامل ہیں۔ صدیوں کے تجربات کے بعد جمہوریت کو عالمی سطح پر ایک ترجیحی طرز حکومت تسلیم کیا گیا اور آج سب سے زیادہ یہی ماڈل رائج ہے جو تمام طرزہائے حکومت میں سے مشکل ترین ہے کیونکہ اس کے لیے گہری ذہانت اور وسیع تعلیم درکار ہوتی ہے۔
ایک تُرش گو دانشور کے بقول ''آپ محض اس لیے جہالت کو بالادست نہ مان لیں کہ اس کی فراوانی ہے‘‘۔ عملی طور پر جمہوریت ایک عیاشی ہے جس سے چند ملک ہی لطف اندوز ہو سکتے ہیں، اس لیے کہ تعلیم اور معاشی آسودگی اس کے پھلنے پھولنے کے لیے ضروری ہے جو چند مستثنیات کو چھوڑ کر ترقی پذیر ممالک میں عنقا ہے۔ افریقہ‘ ایشیا اور لاطینی امریکہ کی بیشتر ریاستوں پر ایسے جابرانہ سیاسی نظام مسلط ہیں جن میں فیصلہ سازی اور حکومت کی تبدیلی میں عوام کا کردار واجبی سا ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں۔
انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ سنگاپور اور جنوبی کوریا سمیت صرف چند ممالک ہی دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کی آبادی نیم متنوع (Quasi-Pluralistic) ہونے اور حزب اختلاف کی عدم موجودگی کے باوصف جمہوری نظام سے متمتع ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کا دامن جمہوریت کی روح سے خالی ہے۔ ان کا مطمح نظر ''پہلے ترقی پھر جمہوریت‘‘ ہے؛ البتہ اس راہ پر چلتے ہوئے انہوں نے اچھی حکمرانی‘ قانون کی عملداری‘ انسانی و قومی وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔
وطن عزیز میں سیاسی نظام عرصہ دراز سے زیر بحث ہے لیکن عوام کا ذہن ہنوز صاف نہیں ہوا اور وہ یہ طے نہیں کر پائے کہ کون سا نظام ان کے لیے مناسب ہوگا۔ آزادی کے وقت ہمیں بھارت کی طرح پارلیمانی جمہوریت ورثے میں ملی تھی لیکن بہت جلد ہم یہ راستہ کھو بیٹھے۔ اس کے برعکس بھارت بدستور پارلیمانی جمہوریت پر کاربند ہے۔ ہم تقریباً ہر نظام حکومت کی مسخ شدہ شکلوں کے تجربات کر چکے ہیں‘ جن کا دائرہ جمہوریت‘ آمریت اور پارلیمانی و صدارتی نظام تک پھیلا ہوا ہے۔
بھارت بہت بڑے رقبے اور آبادی کے علاوہ معاشی و معاشرتی چیلنجوں کے باوجود جمہوری راستے پرگامزن ہے اور اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کا اعزاز حاصل ہے۔ بدقسمتی سے ہم نظام کی ٹوٹ پھوٹ‘ سیاسی طوائف الملوکی اور اقتدار کی رسہ کشی کا شکار رہے، بار بار حکومتوں کا ٹوٹنا اور فوجی آمریتیں بھی ہمارا مقدر رہیں۔
سیاسی مفاد پرستی اور نااہلی کے باعث ہم تاحال ایسی ریاست اور طرز حکومت کی جستجو میں ہیں جو ہماری قوم کے لیے موزوں ہو اور جو نسلی اور لسانی طور پر ہماری متنوع آبادی کی ضروریات سے بھی مطابقت رکھتا ہو۔ ہمارے پیشہ ور سیاستدان تنگ نظری اور مفاد پرستی سے پیچھا چھڑانے سے قاصر نظر آتے ہیں اور مکیاولی طرز کی سیاست کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔
تھر کی حالیہ قحط سالی میں غریب عوام کے مصائب فزوں تر ہیں۔ ہمیں اپنا فرسودہ نظام فوری طور پر بدلنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم پرانے سیاسی غاصبوں اور اشرافیہ کی بالادستی سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔ ہمیں ایسا نظام درکار ہے جو ہماری قوم کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہو اور اقتدار حقیقی معنوں میں اقتدار عوام کے پاس ہو۔ بدقسمتی سے جب بھی ہمیں سنگین مسائل کا سامنا ہوتا ہے، ہم انہیں نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی نااہلی اور کم مائیگی سے صرف نظر کرتے ہوئے معمول کی زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ جو لوگ ملک کے کرم خوردہ سیاسی نظام کو بدلنے کی بات کرتے ہیں ہم، ان کا مذاق اڑانے سے بھی باز نہیں آتے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)