پاکستانی قوم 2008ء سے ملک کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اذیت ناک فکر میں مبتلا ہے۔ بحران در بحران کی وجہ سے ہر وقت دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ کہیں ایک بار پھر مارشل لاء نہ لگ جائے‘ خاص طور پر میمو گیٹ سکینڈل اور حالیہ سول ملٹری کشمکش کے وقت یہ خدشہ اور بڑھ گیا۔ آخر سیاستدان کیوں نہیں سمجھتے کہ ان بحرانوں کے ذمہ دار صرف وہی ہیں، آزادی کے وقت سے ہی ہماری تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے، ہمارے سیاستدانوں نے نو برس میں ملک کا پہلا آئین بنایا۔ اس کے برعکس بھارت نے 1950ء میں ہی ایک جمہوری آئین وضع کر لیا تھا جس کے بعد وہاں باقاعدگی سے ہر پانچ سال بعد انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ اس طرح ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا یہ ملک مسلسل جمہوری تجربے سے گزر رہا ہے۔
ہر شخص جانتا ہے کہ دونوں ملکوں کی تاریخ مشترکہ ہونے کے باوجود بھارت ایک جمہوری ملک ہے مگر پاکستان نہیں۔ بلاشبہ 1947ء میں آزاد ریاستیں بننے پر بھارت اور پاکستان دونوں کو پارلیمانی نظام ورثے میں ملا اور انہوں نے اپنے سفر کا آغاز جمہوری شاہراہ پر ہی کیا تھا۔ ہم اپنی جمہوریت کی ناکامی کا ذمہ دار صرف فوجی حکومتوں کو قرار نہیں دے سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے (Coup) کا پہلا واقعہ سویلین حکمرانوں کے ہاتھوں سرزد ہوا‘ فوج کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا۔ 1954ء میں پاکستان کے ایک سویلین گورنر جنرل نے‘ جو فوجی جنرل نہیں تھا‘ آئین ساز اسمبلی توڑ دی اور اپنے اس کارنامے کو عدلیہ سے جائز قرار دلوا لیا۔
پاکستان میں پہلے دس برس غیر سیاسی ہتھکنڈوں سے حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں اور اُدھر بھارت پارلیمانی جمہوریت کی بنیادی اقدار پر کاربند رہا۔ بدقسمتی سے اقتدار کے نشے میں بدمست حکمرانوں نے امور مملکت چلانے میں اتنا خلا پیدا کر دیا کہ 1958ء میں ملک پر پہلا مارشل لاء لگ گیا۔ فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضہ کرنے میں ہمارے سیاستدان اور نوکر شاہی دونوں برابر کے شریک تھے۔ دراصل ہمارا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ملکی سیاست ہمیشہ اشرافیہ کے ہاتھوں میں یرغمال بنی رہی اور یہ طبقہ آزاد سیاست کے در پے رہا۔
بدقسمتی سے‘ بھارتی کانگریس پارٹی کے برعکس‘ پاکستان کی بانی پارٹی‘ مسلم لیگ مکمل طور پر چند جاگیردار خاندانوں کے زیر تسلط رہی۔ تقسیم سے پہلے انگریز انہی خاندانوں کی سرپرستی کرتے تھے؛ چنانچہ آزادی کے بعد انہوں نے نوکر شاہی اور فوج کے ذریعے قومی معاملات کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ مسلم لیگ کے حصے بخرے ہوئے تو یہی جاگیردار مختلف اوقات میں مختلف سیاسی جھنڈوں تلے جمع ہو کر کبھی فوج کے ساتھ اور کبھی اس کے بغیر اقتدار پر قابض رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم ایک نو آزاد قوم کی حیثیت سے آزادی کے ان چیلنجوں پر پورے نہ اتر سکے جن کا کئی اطراف سے ہمیں سامنا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی فرسودگی کا بنیادی سبب جاگیردارانہ نظام اقتدار ہے۔ انہی لوگوں نے ملک میں اراضی کی اصلاحات (لینڈ ریفارمز) نہ ہونے دیں کیونکہ اس کی زد خود انہی پر پڑتی تھی۔ اس قماش کے سیاستدانوں نے نظام کی کمزوریاں دور کرنے اور قومی اتحاد کا باعث بننے والے عناصر کو جمع کرنے کے بجائے ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ دسمبر 1970ء کے الیکشن میں عوام نے اپنی جن امنگوں کا آزادی سے اظہار کیا تھا سیاستدانوں نے انہیں مسترد کر دیا اور بحران سے سیاسی طور پر عہدہ برآ ہونے کے بجائے فوجی حل پر انحصار کر لیا۔ آج ہم وہی غلطیاں پھر دہرا رہے ہیں جن کی بنا پر 1971ء کا سانحہ رونما ہوا تھا۔ ان غلطیوں کا 1973ء کے آئین میں بھی تدارک نہ کیا گیا، شاید اس کی وجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پیدا ہونے والا دبائو تھا کہ نئے آئین میں میرٹ کا خیال نہ رکھا جا سکا۔
اس کے بعد آئین میں بیس ترامیم کی گئیں جن میں قومی تقاضوں کے بجائے سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھا گیا۔ کسی بھی حکومت نے جاگیرداری نظام کی خرابیوں یا صوبوں کی شکایات دور کرنے اور اس ضمن میں تاریخی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی طرف توجہ نہ دی۔ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے اٹھارویں ترمیم کی گئی لیکن اس سے بین الصوبائی عدم توازن جیسا بنیادی مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ بیسویں ترمیم بھی ایک سیاسی چال ثابت ہوئی جس کے ذریعے اختیاراتی ڈھانچے کو اس طرح تحفظ فراہم کیا گیا کہ دو بڑی پارٹیوں کے مفادات متاثر نہ ہونے پائیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں جاگیردارانہ‘ قبائلی اور اشرافیہ کی بالادستی پر مبنی نظام اتنا گہرا ہو چکا ہے کہ اس میں تبدیلی لانا بہت دشوار ہو گیا ہے‘ اس لیے کہ اس میں کوئی بھی بنیادی تبدیلی انہیں راس نہیں آتی، وہ اپنے مفادات کے لیے ہی آئین میں ترامیم کرتے ہیں۔ آئین کے ساتھ اس کھلواڑ کے شکار ریاستی ادارے بنتے ہیں یا پھر قومی سلامتی۔ مفاد پرستوں کی ایک حکمران نسل (جس میں سویلین اور نان سویلین دونوں شامل ہیں) ہمیں اس مقام پر لے آئی ہے جہاں ایک طرف سویلین اور فوجی صفوں اور دوسری جانب لبرل اور مذہبی قوتوں کے مابین بڑی بے دردی سے کھینچا تانی جاری ہے۔
ہمارے سیاستدان نظام کی کمزوریاں دُور کرنے اور قومی اتحاد کو مضبوط بنانے والے عناصر کو مجتمع کرنے کے بجائے ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی اپنی کوئی اہلیت ہے نہ ساکھ‘ وہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ساتھ مل کر یا اس پر کُلی انحصار کرتے ہوئے حکمرانی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ماضی میں فوجی مداخلتوں کا سبب بڑی حد تک سیاستدانوں کا وژن اور مطلوبہ استعداد سے عاری ہونا رہا ہے۔ بلاشبہ، ہم پر فوجی آمروں کی حکمرانی کے ادوار بھی گزرے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ منتخب رہنمائوں کے تحت جو جمہوری حکومتیں ہمارے حصے میں آئیں ان میں بھی ہمیں حقیقی جمہوریت نصیب نہ ہو سکی۔ ہمارے سیاستدان اس تلخ حقیقت سے واقف ہیں لیکن ''جمہوریت کے حُسن‘‘ کے گیت گانے کے سوا انہوں نے خالص جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ دراصل اُن میں سے چند ایک نے تو نشوونما ہی فوجی جُھولوں میں پائی ہے، یہ ناپسندیدہ کمزوری ان کے سیاسی کیریئر کا پیچھا کرتی رہی۔ اس پس منظر میں یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ سول ملٹری محاذ آرائی ہماری سیاست کا ایک لازمی حصہ بنی رہی۔
یہ سوال ہمیشہ پوچھا جاتا ہے کہ اگر سویلین حکومتیں اپنے مینڈیٹ کی بنیاد پر درست طریقے سے کام کرتی رہتیں تو کیا اس صورت میں فوجی مداخلتوں سے بچا جا سکتا تھا؟ آپ کم ازکم گزشتہ چھ برس کی جمہوری حکومت دیکھ لیں‘ کئی سنگین مواقع کے باوجود فوج اپنے آئینی کردار تک محدود رہی اور منتخب رہنمائوں کو اپنا کام کرنے کا پورا پورا موقع فراہم کیا۔ موجودہ محاذ آرائی کی وجہ پاکستان مسلم لیگ ن کے دو وزراء کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کے زیر سماعت مقدمے کے بارے میں نامناسب ریمارکس تھے حالانکہ انہیں یہ باتیں کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔
ہماری سویلین اشرافیہ کو محسوس کرنا چاہیے کہ ان کی اپنی طاقت کا انحصار ملک کی بقا اور آزادی پر ہے۔ کوئی بھی کوشش (مثلاً کیری لوگر بل اور میموگیٹ) جس کا مقصد ہماری مسلح افواج کو کمزورکرنا ہو، خود کشی کے مترادف ہو گی‘ اس لیے اس سے دور رہنا چاہیے۔ غیرملکی تسلط یا بالادستی سے ریاستیں یرغمال بن جایا کرتی ہیں اور پھر ریاست کے بغیر حکمرانی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سویلین قیادت کو چاہیے کہ فوج کو خطرہ سمجھنے کے بجائے اسے اپنے اور ملک کے استحکام کے لیے اثاثہ سمجھے۔ سکیورٹی کے بغیر آپ فلاحی ریاست کا تصور تک نہیں کر سکتے۔
اپنی تاریخ کے اس نازک مرحلے پر ایک ملک اور قوم کی حیثیت سے ہم اپنے آپ کو خود غرض عناصر یا وقت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارے مسائل کا حل یہ ہے کہ موجودہ استحصالی نظام کو ختم کر دیا جائے جو صرف مراعات یافتہ طبقے کو راس آتا ہے۔ ہمیں اندرونی اتفاق و اتحاد اور ریاستی اداروں کے مابین باہمی اعتماد اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ اب گیند منتخب قیادت کی کورٹ میں ہے۔ اسے گزشتہ انتخابات میں ملنے والے مینڈیٹ اور ملک کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کا اہل ثابت کرنا ہو گا۔ اگر سویلین حکومت کام کرے گی تو عوام بھی اس کا ساتھ دیں گے اور اگر وہ ناکام ہوئی تو عوام ماضی کی طرح غیر جمہوری ''متبادل‘‘ کی جانب دیکھنے لگیں گے اور ملک منحوس اندھیروں سے نجات حاصل نہیں کر پائے گا۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)