"SAC" (space) message & send to 7575

غلط دروازوں پر دستک

''آمدند، گفتند، برخاستند!‘‘ ہر سال ستمبر میں دنیا بھر کے رہنما نیو یارک میں ایک ایسے غیر اہم عالمی اجتماع میں شریک ہوتے ہیں‘ جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس کہلاتا ہے۔ جنرل اسمبلی، اقوام متحدہ کا بحث و تمحیص اور پالیسی سازی کے لیے سب سے بڑا ادارہ ہے جس کے 193 ممبران ہیں۔ اس کے ہر باقاعدہ اجلاس کے ابتدائی ایام میں ایک عمومی بحث ہوتی ہے‘ جس سے عموماً رکن ممالک کے سربراہان خطاب کرتے اور اہم و فوری نوعیت کے بین الاقوامی امور و مسائل پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اس سال یہ عمومی بحث 24 ستمبر سے یکم اکتوبر تک ہوئی۔ اس کے بعد جنرل اسمبلی کی چھ بڑی کمیٹیاں اپنا کام دسمبر کے وسط تک مکمل کریں گی اور 16 دسمبر سے جنرل اسمبلی آرام کے ایک طویل وقفے پر چلی جائے گی۔
حقیقت سے آشنا لوگ جانتے ہیں کہ اس سالانہ اجتماع کی حیثیت دنیا کے غریب عوام اور دنیا میں قیام امن کے نام پر ایک عالمی میلے، جشن طرب، تفریح اور خوش باشی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ اکتوبر 1945ء میں اقوام متحدہ کی تاسیس کے وقت سے یہ اجلاس بلاتعطل ہر سال منعقد ہوتا ہے۔ جنرل اسمبلی کا پروگرام بالعموم اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں جنرل سیکرٹری کی جانب سے ناشتے کی ایک استقبالیہ تقریب سے شروع ہوتا ہے۔ اس کا مینیو (Menu) عالمی سطح کے تکلّفات سے آراستہ ہوتا ہے۔ بعدازاں کئی ظہرانوں، استقبالیوں اور عشائیوںکا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس دوران سربراہان ریاست و حکومت ایک دوسرے کے ساتھ باہمی گفت و شنید میں مصروف رہتے ہیں۔ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اقوام متحدہ سے متعلق عالمی رہنمائوں کی واحد مصروفیت دس سے پندرہ منٹ کا وہ بیان ہوتا ہے جو وہ جنرل اسمبلی کے پوڈیم (سٹیج) سے پڑھ کر سناتے ہیں۔
عالمی رہنما اس فورم سے اہم امور پر حکمت و دانش سے پُر بیانات کی ہر سال تکرار کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے مستقبل کے لیے امن، خوشحالی اور بنی نوع انسان کی تمام برائیوں اور آفات سے نجات کے بارے میں بہت اچھی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ یہ رہنما اقوام متحدہ کو تبدیل شدہ دنیا کے حقائق سے ہم آہنگ کرنے کا عزم بھی دہراتے ہیں‘ لیکن یہ وعدے کہیں بھی پورے ہوتے نظر نہیں آتے۔ دنیا اور خود اقوام متحدہ میں بہتری کے آثار عنقا ہیں۔ ہاں، ایک تبدیلی ضرور آئی ہے... دنیا پہلے سے کہیں زیادہ پُرتشدد اور افراتفری کا شکار ہو گئی ہے۔ عملاً اقوام متحدہ، بحث و مباحثے کے ایک فورم سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں جس میں ہر سال اسی طرح کی قراردادوں پر مشتمل کئی ضخیم جلدوں کا اضافہ ہو جاتا ہے جن پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا؛ چنانچہ ان کا کوئی ٹھوس نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوتا۔
(اقوام متحدہ کے) اس مایوس کن پس منظر اور ملک کے اندر منتشر سیاسی صورت حال کا تقاضا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 69ویں اجلاس میں شرکت کے لیے نہ جاتے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ اجلاس ایک سالانہ رسم ہے جس میں وہ سربراہان مملکت شریک ہوتے ہیں‘ جن کے ممالک کو مسائل کا سامنا نہیں ہوتا اور وہ معمول کی زندگی سے ہٹ کر کچھ وقت آرام اور تفریحی مشاغل میں گزارنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف‘ جو ایک ایسے ملک کے منتخب سربراہ ہیں جس کی حکومت کو اندرون ملک گوناگوں چیلنجوں کا سامنا ہے، یقیناً ان حکمرانوں میں سے نہیں جنہیں آرام و سکون نصیب ہوتا ہے۔
انہیں اپنے اندرونی چیلنجوں کا بوجھ پہلے لندن اور پھر نیویارک تک اٹھا لے جانے کی بجائے ملک کے اندر رہ کر موجودہ سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ میاں نواز شریف ایک ایسے ملک کے نمائندہ ہیں‘ جو آج اقتصادی اعتبار سے کشکول بدست ہے، جس کے وسائل انتہائی محدود ہو چکے ہیں، جو انتشار اور بدامنی کا شکار ہے اور جس کی اتھارٹی اور عملداری تقریباً ناپید ہو چکی ہے۔ اب یہ وہ ملک نہیں رہا جس پر انہوں نے 1990ء کی دہائی میں دو بار حکومت کی تھی۔ آج کے پاکستان میں گورننس کے چیلنج بدل چکے ہیں، ان کی غیرمعمولی نوعیت اور سنگینی یکسر ایک نئے طرز حکمرانی کی متقاضی ہے۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد کم از کم ابتدائی چند ماہ ملک کے اندر رہ کر عوام کی تکالیف اور شکایات کا مداوا کرنے کے لیے اپنی حکومت کی مساعی میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ ان کو درپیش پہلا چیلنج یہ تھا کہ وہ خود کو گزشتہ الیکشن میں حاصل کردہ مینڈیٹ کا اہل ثابت کرتے۔ ان کی حکومت تقریباً اٹھارہ ماہ سے برسراقتدار ہے، لیکن اس کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اسلام آباد کا سیاسی بحران اس کے سوا ہے جس نے تقریباً دو ماہ سے ان کی حکومت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ملک کو پست درجے کی حکمرانی اور اقتصادی انتشار و بدنظمی سے نکالنے کا عمل غیرمعمولی طور پر طویل اور تکلیف دہ ہوتا جارہا ہے۔ 
اگرچہ دفتر خارجہ نے ان (نوازشریف) کا بیان عرق ریزی سے تیار کیا لیکن یہ انہی خیالات کی تکرار تھا جو انہوں نے گزشتہ برس اسی فورم پر پڑھ کر سنایا تھا۔ اس سال بھی انہوں نے تقریباً تمام اہم عالمی امور بشمول موسمیاتی تبدیلی، کشمیر، افغانستان، فلسطین، شام، اقوام متحدہ میں اصلاحات، پاک بھارت تعلقات اور دہشت گردی پر اپنے معلوم و معروف موقف کا اعادہ کیا۔ اسی موقف اور پالیسی بیان کو دہرانے کے لیے وزیراعظم کو نیویارک کا سفر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ اقوام متحدہ کی اس واحد باقاعدہ مصروفیت کے علاوہ وزیراعظم نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف ایک اہم ملاقات امریکی نائب صدر جوبائیڈن سے کی۔
گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی صدر اوباما ہمارے وزیراعظم سے ملنے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ اتنے مصروف تھے کہ وہ وزیراعظم پاکستان کے لیے چند منٹ بھی نہ نکال سکیں۔ دراصل یہ ہمارے خطے کے لیے امریکہ کی پبلک ڈپلومیسی کا نیا انداز ہے۔ اس تبدیلی کا پہلا اشارہ ہمیں اکتوبر 2005ء میں اس وقت دے دیا گیا تھا‘ جب جارج ڈبلیو بش بھارت کا پانچ روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد پاکستان میں صرف پانچ گھنٹے کے لیے رکے تھے۔ بش نے واضح طور پر صدر مشرف کو بتا دیا تھا کہ بھارت اور پاکستان ''دو مختلف ملک ہیں جن کی تاریخ اور ضروریات مختلف ہیں، ان کا ایک دوسرے کے ساتھ تقابل نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
مشرف کے بعد پاکستان کے سویلین لیڈروں کو وہ توجہ اور اہمیت نہ مل سکی جو ان کے پیشروئوں کو روایتی طور پر ملتی رہی۔ 2012ء میں صدر زرداری اس امید کے ساتھ شکاگو میں نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے گئے کہ ان کی صدر اوباما سے ملاقات ہو جائے گی، لیکن وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ گزشتہ برس وزیراعظم نوازشریف کے دورۂ واشنگٹن کے دوران انہیں سربراہ حکومت کا نہیں بلکہ ایک وزیر کا پروٹوکول دیا گیا تھا۔ تین شب و روز شرپا کی طرح دوڑنے کے بعد ان کی ملاقات اوول آفس میں صدر اوباما سے ہو پائی (شرپا، ہمالیہ پہاڑ کی ایک قوم ہے جو نیپال اور تبت کی سرحد پر آباد اور کوہ پیمائی میں مہارت رکھتی ہے) کم از کم اس بار ہم نیویارک میں وزیراعظم کے ساتھ ہونے والے سلوک کا پیشگی اندازہ کرکے بڑی آسانی سے سفارتی پشیمانی سے بچ سکتے تھے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران ملک کے اندرونی امراض کا علاج تلاش کرنے کے لیے غلط دروازوں پر دستک دینے کے عادی ہیں۔ علاج نیو یارک، لندن یا بیجنگ اور ریاض میں نہیں بلکہ گھر پہ ہی موجود ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ گھر میں رہ کر ملک کی انتظامی کمزوریاں دور کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔ اس مقصد کے لیے انہیں اداروں کا وقار بحال اور اپنی قوم کو متحد کرنے والے عناصر کو مضبوط بنانا چاہیے۔
اگر کوئی ملک اندرونی طور پر کمزور ہو تو وہ بیرونی خطرات کی زد میں رہتا ہے۔ دوسروں سے عزت و احترام کرانے کے لیے پاکستان کو سیاسی اور اقتصادی طور پر مستحکم و مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ خود کفیل اور بیرونی استحصال اور پابندیوں سے محفوظ رہ سکے۔ اس نصب العین کے حصول کے لیے سخت فیصلوں اور انداز حکمرانی میں بنیادی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں