نئی صدی کے آغاز سے ہی اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے میڈیاکے زور پر اسلام اور اسلام کی علامات‘ خصوصاً حجاب کے خلاف متعصبانہ رویوں سے بھرپور گمراہ کن مہم شروع کردی گئی تھی‘بدقسمتی سے عالم اسلام کی طرف سے اس کا کافی و شافی جواب نہیں دیاگیا ،مگرشرق و غرب میں بیدار ہو تی ہوئی نوجوان نسل نے اسلام مخالف زہریلے پروپیگنڈا کا اپنے عمل اور اسلام سے سچی محبت کا مظاہرہ کرکے بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے‘ جس کی ایک واضح مثال بچیوں کے اندر حجاب کابڑھتا ہوا رجحان ہے۔ایک سفارتی تقریب میں ایک نام نہاد پاکستانی دانشور نے بڑے افسردہ لہجے میں بتایا کہ جب ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو خال خال ہی کوئی حجاب والی لڑکی نظر آتی تھی‘ مگر اب تو آپ نے ایک موثرمہم کے ذریعے ہر طرف حجاب والی بچیوں کو پھیلادیاہے۔ہم نے جواب دیاکہ حجاب کوئی کسی کو زبردستی تو نہیں پہنا سکتااور یہ حجاب ڈارون کا بندر تو نہیں ہے مگر جیسے کپڑے کے اس ایک گز کے ٹکڑے نے ترقی کی ہے‘ دنیا میںآج تک اس کی مثال نہیں ملتی۔پہلے اسے مسلم خواتین کی ذہنی پسماندگی کی علامت قرار دیاجاتارہاکہ بیچاری برقعے والی عورت کو نہ عصر کا شعور ہے‘ نہ جدید دنیا کے تقاضوں سے باخبر ،نہ اس کے پاس تعلیم ہے ،نہ سماجی مرتبہ تو منہ نہ چھپائیںتو کیا کریںاور گھروںمیں بند ہو کر نہ بیٹھیں تواور کیاکریں۔اگلے مرحلے پر حجاب کو ظلم وجبر کی علامت کے طور پر مشہور کیاگیاکہ مسلم دنیا کے مردظالم،کم نظر اور پسماندہ ہیں۔انھیں عورت کو قید کرکے لطف آتاہے ۔پردے کو مرد کی بالادستی ،جبراور مردوں کے شائو نزم کااستعارہ سمجھا گیا۔پھر حجاب کو ایک سیاسی بیان کے طور پر لیاگیا اور کہا گیاکہ یہ معاملہ دراصل سیاسی اسلام کے پیرو کاروں کاابھاراہواہے‘ جو خود انتہا پسندی کی علامت ہیں اور انھیں پردے جیسی انتہا پسندی پسند ہے‘ لیکن دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور تنا ظر نے حجاب کو ثقافتی اور تہذیبی بیان میں ڈھال دیا۔ اب یہ ایک گز کپڑے کا ٹکڑا آزادی کی توانا علامت او ر مسلم شناخت کا افتخار بن کر ابھر رہاہے۔پسماندگی کی علامت سے آزادی کی علامت تک کا حجاب کا یہ سفر اور ارتقا بہت حیرت انگیز ہے۔
یہ اکیسویں صدی ہے۔ہم حضور نبی کریمﷺ کی لائی ہو ئی آخری آسمانی ہدایت کی طرف لوٹ رہے ہیں‘جنھوں نے ہمیں ان طرح طرح کی غلاظتوں کے بوجھ سے نجات دی‘ جسے زمانے نے ہمارے اوپر لاد دیا تھا او ر ان زنجیروں سے آزاد کیا‘ جنہوں نے طوق کی طرح ہمیں جکڑ لیاتھا۔حضور نبی کریمﷺ کی ذاتی زندگی میں عورت کا کردار مرکزی اور متحرک ہے۔ انھوں نے عورت کو‘ جو کہ زندہ درگور ہورہی تھی‘ خوشبو اور نماز کے ساتھ یاد کیا اور اس ایک جملے کی چھوٹی سی حدیث نے عورت اور مرد کے تعلق کی معنویت اور تقدس کوبہت خوبصورت طریقے سے آشکا ر کیاہے ۔آپ زندگی کے کسی لمحے میں بھی اپنی والدہ بی بی آمنہ کو فراموش نہ کرسکے کیونکہ والد کو تو
آپ ﷺنے دیکھا ہی نہ تھا۔اپنی رضاعی والدہ بی بی حلیمہؓ کے ہمیشہ احسان مند رہے ۔رضاعی والد کو ہم آج
کم ہی جانتے ہیں۔رضاعی بہن حضرت شیماؓ ایک دفعہ آئیں تو ان کے لیے اپنی چادر بچھادی ۔رضاعی بھائی بھی تھے مگر ہم ان سے لا علم ہی رہتے ہیں۔حضرت خدیجہ ؓ پہلی مسلمان ہو نے کے اعزاز کے ساتھ ساتھ آپ ﷺکی زندگی میں ایسے شامل رہیں کہ آپ ﷺ ہر وقت انھیں یاد کرتے رہے او ر حضرت عائشہ ؓکو کہنا پڑا کہ مجھے حضرت خدیجہ ؓ پر رشک آتاہے ۔حضرت عائشہؓ کو اتنا زیادہ لاڈ پیار سے رکھا کہ حیرت ہوتی ہے اور ان کی زندگی وفا اور محبت کی لازوال داستان دکھائی دیتی ہے۔حضرت فاطمہؓ سے تعلق سے تو تاریخ بھری پڑی ہے‘ آپؐ کی نسل بھی آپ ؐ کی بیٹی سے ہی چلی ۔لیکن آج امت مسلمہ بالعموم اور مسلمان عورت بالخصوص کس دوراہے پر کھڑے ہیں۔ایک طرف مغربی تہذیب وثقافت کا سیلاب ہے جو وقت کی ٹیکنالوجی کے مؤثر ترین آلا ت سے آراستہ ہو کر ہمیں اپنے دین وایمان اور اپنی تاریخ وروایت سے کاٹ کر مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھال دینا چاہتاہے‘ اور دنیوی ترقی اور ثروت کے طلسم سے ہماری آنکھوں کو خیرہ کرنے میں مصروف ہے تو دوسری طرف قدامت اور روایت کے کچھ علمبردار بھی اپنے خلوص کے باوجود رسم ورواج کو اقدار اور اصول کا درجہ دے کر وقت کے حقیقی تقاضوں سے مکمل صرف نظر کررہے ہیں۔ زمانے کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی بجائے ہم ماضی کے حصار میں محصور ہوجانے میںعافیت دیکھ رہے ہیں۔یہ دونوں ہی راستے زندگی اور ترقی کے راستے نہیں ہیں۔نہ ہم نے اپنی اقدارو روایات پر کوئی سمجھوتہ کرنا ہے اورنہ وقت کی ضرورتوں کو نظر انداز کرناہے۔
مغلوبیت اور محکومیت سے بچنے کا واحد راستہ وہی ہے ،جو نبی اکرمﷺ نے دکھایا ہے ، جسے صلحائے امت نے اپنے اپنے دور میں کامیابی سے آزمایاہے۔یعنی اصول واقدار کے سلسلے میں مکمل استقامت اور ذرائع ا وروسائل کے باب میں ضروری لچک او ر وسعت۔ستمبر 2003ء میں فرانس نے حجاب پر پابندی کے لیے قانون سازی کی‘ امت مسلمہ کے علمائے کرام نے علامہ یوسف القرضاوی کی قیادت میں پہلی دفعہ 4ستمبر2004ء کو عالمی یوم حجاب منانے کا اعلان کیا۔پاکستان سے محترم قاضی حسین احمدؒ اس تحریک کے علمبردار بنے۔ مسلمان خواتین کی ایک بڑی عالمی تنظیم انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین نے اسے 2004ء سے ہی عالمی سطح پر منانے کی روایت برقرار رکھی اور جماعت اسلامی حلقہ خواتین کا اعزاز ہے کہ وہ اپنے کارکن میں قائدانہ صلاحیتوں کی آبیاری کرتی ہے ۔اس وقت اس عالمی تنظیم کی مرکزی اور ایشیائی ریجن کی صدارت ہماری دو کارکن بہنوں ڈاکڑ کوثر فردوس صاحبہ اور ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ کے پاس ہے‘ اور وہ اس عالمی تحریک حجاب کے ذریعے احیائے تہذیب ا سلامی کی مہم چلارہی ہیں۔ حجاب محض برقعے یاچادر کانام نہیں اور یہ محض عورت سے بھی منسوب نہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظام اخلاق اور نظام عفت وعصمت ہے جوکہ مردوں کو بھی اتنا ہی محفوظ رکھتاہے جتنا عورت کو اور اس کا خطاب مردوں کو بھی ہے اور عورت کو بھی ۔اس تحریک کے ذریعے سے ہم اپنی تہذیب سے اپنے ٹوٹتے ہوئے رشتوں کو بحال کرنے کی کوشش کریں گے ۔میڈیا نے ہمارا پہلے بھی بہت ساتھ دیاہے۔ ہم اب بھی ان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ تہذیب اسلامی کے احیاء کے اس مشترکہ کام میں ہمارا ساتھ دیں تاکہ ہم اپنی کھوئی اور گمشدہ متاع عزت و وقار کو بازیاب کراسکیں۔
آپ جہاں اور جس مقام پر بھی ہیں‘ معاشرے کو استحکام بخشنے کی خاطر اور اپنی نسلِ نو کو اخلاقی طور پر کامیاب وکامران بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔آپ کالم نگار ہیں تو ایک کالم لکھ کر اپنا فرض پورا کریں۔اگر ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں تو ایک پروگرام نشرکر کے اپنا حصہ اداکریں۔اگر آپ پروڈیوسر ہیں ایک دستاویزی فلم،کوئی ترانہ بنا کر اس مہم کا حصہ بنیں۔اگر آپ استاد ہیں تو اپنی زبان اور بیان سے اس دن کی اہمیت اجاگر کریں اور ہر سطح پر معاشرے کے استحکام اور عورت کو اس کی نسوانیت پر فخر کرنے کا موقع دیں اور اسے تحفظ کااحساس دلائیں۔