موجودہ حکومت نے اپنا چوتھا بجٹ 43.95کھرب روپے کا پیش کیا ہے ،یہ 1276ارب روپے خسارے کا بجٹ ہے ۔ امید کی جارہی تھی کہ حکومت موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں عوامی بجٹ پیش کرے گی جس میں عام آدمی کے مسائل کو اڈریس کیا جائے گا اور عوام کو درپیش معاشی مشکلات کو دور کرنے اور عام آدمی کو زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کرنے کیلئے حکومت واضح لائحہ عمل دے گی مگر بجٹ تقریر کے ساتھ ہی تمام امیدیں دم توڑ گئیں ۔ بجٹ کوروایتی اور انتظامی تو کہا جاسکتا ہے مگراسے فلاحی اور عوامی کہنا قرین انصاف نہیں ۔ دھوم دھڑکے سے پیش کئے گئے بجٹ کے تمام اعداد وشمار فرضی ہیں۔حکومت چونکہ مردم شماری کروانے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے آمدن اور اخراجات کے تخمینہ جات اور گوشوارے غلط مفروضوں پر مبنی ہیں ان کا حقائق کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں،بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عوام اور بجٹ میں اتنا فاصلہ ہے جتنا سینیٹ کے ائرکنڈیشنڈ ہال اور ملتان شہر کی گرمی کا ہے ۔صحت کے لیے بجٹ کا0.42فیصدرکھناشرمناک ہے ۔جبکہ صورتحال یہ ہے کہ 1308افراد کے لیے ایک ڈاکٹر1613افراد کے لیے ایک بستر اور ہر پانچواں شخص علاج سے محروم ہے ۔تعلیم صحت ،ماحولیات اور انسانی ترقی کے دیگر منصوبوں کے بجٹ میں اضافہ ہونا چاہئے تھامگر حکومت اپنے انتظامی اخراجات پورے کرنے کیلئے ٹیکسوں کے ہیر پھیر میں ہی الجھی رہی ۔ تعلیم پر بجٹ کا 2.2فیصد مختص کرنا باعث حیرت ہے جہاں شرح خواندگی 57فیصد اور43فیصد آبادی ان پڑھ ہے وہاں تعلیم کے لیے اتنی کم رقم رکھنا اس شعبہ کو مزید تباہی سے دوچارکرنے کے مترادف ہے ۔ہم تو
تعلیم میں بنگلہ دیش ،بھوٹان اور سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اگلے پچاس سال میں بھی تعلیم یافتہ قوم کے طور پر کھڑے نہیں ہوسکیں گے ۔ آئین کے تقاضوں کے مطابق وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوئی ۔حکومت این ایف سی میں صوبائی حکومتوں کو ان کا حصہ دینے میں بھی ناکام رہی،جس سے صوبوں میں احساس کمتری اور وفاق کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا۔ بجٹ کیا ہے ؟ ،آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض لینا اور پھر ا س پر سود دینا ہی اصل مقصدبن گیا ہے اور پھر سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے ۔ بجٹ کا 42فیصد سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے جو انتہائی شرمنا ک ہے ۔قرضوں کا سود دینے کیلئے 1360ارب روپے رکھے گئے ہیں جس کی وجہ سے 1148ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بنائے گئے اس بجٹ میں ایک عام پاکستانی پر 90قسم کے ودہولڈنگ ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں ،جس کی وجہ سے مہنگائی کا ایک طوفان اٹھے گا اور عوام کی، جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں ان کی زندگی مزید اجیرن ہوجائے گی ۔عام آدمی میں تو اب بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کی بھی سکت نہیں رہی۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کیا گیا اضافہ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔محض10فیصد اضافہ سے چھوٹے ملازمین موجودہ کمرتوڑ مہنگائی کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں؟۔مہنگائی کی شرح کے پیش نظر مزدور کی کم سے کم تنخواہ بیس ہزار روپے ہونی چاہئے تھی مگر حکومت نے محض 14ہزار روپے تنخواہ مقرر کرکے انہیںمستقل پریشانی میں مبتلا کردیا ہے ، جبکہ اس پر بھی عمل درآمد کا کوئی واضح امکان نظر نہیںآتا ۔ میں اسحق ڈار کو اس وقت ماہر معیشت سمجھوں گا جب وہ 14ہزار روپے میں ایک گھر کا بجٹ بناکر دکھائیں گے ۔ یہاں غربت ناپنے کا پیمانہ بھی مضحکہ خیز ہے ،فی کس آمدنی روزانہ دو ڈالرہے ۔ بجٹ میں پیش کئے گئے اخراجات اور آمدن کے تمام اشاریے غلط ہیں جس سے معیشت میں کسی بہتری کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے خاتون خانہ کو یہ تو بتایا جائے کہ مہمان آرہے ہیں مگر یہ نہ بتایا جائے کہ ان کی تعداد کتنی ہے ۔
زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور کل آبادی کا قریباً 64فیصد شعبہ زراعت سے وابستہ ہے ۔حکومت نے زرعی انقلاب لانے کا بہت ڈھنڈورا پیٹا ہے ،جبکہ حکومت گزشتہ سال کے زرعی اہداف کوحاصل کرنے میں بھی ناکام رہی اور موجودہ بجٹ میں بھی کسانوں اور کاشتکاروں کو طفل تسلیوں پر ٹرخایا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی زرعی پالیسی کسانوں کو مطمئن کرنے میں ناکام ہے ۔کھادوںکی قیمتوں میں معمولی کمی کرکے تاثر دیا جارہا ہے کہ حکومت نے کسانوں کو بڑا ریلیف دیا ہے مگر زرعی ادویات ،بیج اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتوں کے حوالے سے بجٹ خاموش ہے ۔ حکومت نے کسانوں کے لیے زرعی پیکج کا اعلان کیا ہے جبکہ ورلڈ بینک کے سروے کے مطابق پانچ فیصد جاگیرداروں کا چونسٹھ فیصد زرعی زمین پر قبضہ ہے ۔جس سے زرعی پیکج کا فائدہ عام کسان یا کاشتکار کو نہیں بلکہ پانچ فیصد جاگیرداروں کو ہوگا۔ تین سو بیالیس ارب روپیہ جاگیردار لے اڑیں گے ۔ملک میں دوکروڑ نوجوان بے روز گار پھر رہے ہیں حکومت نے ان کو روز گار فراہم کرنے کی طرف کوئی توجہ دی نہ منصوبہ بندی کی ۔ فاٹا اور قبائلی علاقے ہمیشہ حکومت کی توجہ سے محروم رہے ہیں جس کی وجہ سے قبائلی عوام میں حکومت کے خلاف نفرت اور بداعتمادی کی فضا ہے ،امسال بھی قبائلی علاقوں کیلئے دیا گیا صرف ایک سو ارب کا بجٹ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے ۔
بدقسمتی کہ قیام پاکستان سے اب تک قوم پر ایسے لوگ مسلط رہے ہیں جنہیں یہودی سرمایہ کاروں اور ساہو کاروں پر تو اعتماد ہے مگر اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر بھروسہ نہیں ،ہماری روز مرہ کی ضروریات زندگی کی قیمتیں وہ مقرر کرتے ہیں،بجلی اورگیس کے بل ان کی ڈکٹیشن پر طے کئے جاتے ہیں اور تیل و گیس کی قیمتیںان کی خواہش کے مطابق رکھی جاتی ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہم چاروں طرف سے صیہونی اداروں کے چنگل میں پھنس چکے ہیں،بچت کی صرف ایک صورت نظر آتی ہے کہ ہمیں سودی معیشت کو چھوڑ کر اسلامی معیشت کی طرف بڑھنا چاہیے۔
سودی معیشت سے کسی طرح بھی عوام کو ریلیف نہیں مل سکتااور قرضوں پر مبنی معیشت کیسے پنپ سکتی ہے ۔ دنیا میں آئندہ جنگیں آبی وسائل پر ہوں گی،مگر ہمارے بجٹ میں آبی وسائل بڑھانے اور ڈیم بنانے کے لیے معمولی رقم رکھی گئی ہے ۔ معاشی ترقی کے تمام اعدادوشمار حکومت کی نااہلی اور معیشت کی بدحالی کے آئینہ دار ہیں۔ اس بجٹ سے سندھ کی غریب گوٹھوں ،پنجاب کے غریب دیہاتوں اور بلوچستان اور کے پی کے کے غریبوں کے لیے کچھ بھی نہیں۔ دیہاتی شہرو ں کی طرف آرہے ہیں کیونکہ وہاں زندگی کی کوئی سہولت میسر نہیں ،شہروں کا مستقبل بھی خراب ہے وہاں نہ پینے کا صاف پانی ہے اور نہ صحت افزا آب وہوا۔ بجٹ میں بے روزگاری کے خاتمہ کا کوئی روڈ میپ نہیں۔دو کروڑ بچے سکول نہیں جا رہے اور جو جارہے ہیں انہیں اپنا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے ،پڑھے لکھے نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لئے نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے باوجود انہیں کوئی ملازمت نہیں مل رہی۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ہم اپنے سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بے روز گاروںکو اکٹھاکررہے ہیں،آئندہ سالوں میں کروڑںبے روزگاروں کی فوج ہوگی ،ضروری ہے کہ ہر روز اٹھارہ ہزار نئی اسامیاں پیدا کی جائیں،تاکہ اس فارغ فوج کو کوئی مصروفیت مل سکے ،مگر حکومتی ترجیحات میں کہیں بھی اس کا ذکر نہیں اور نہ بجٹ میں اس کیلئے کوئی رقم مختص کی گئی ہے ۔