"TSC" (space) message & send to 7575

کرپٹ جمہوری ’’نظامِ شمسی ‘‘کا انجام !

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جاری کردہ فہرست کے مطابق ہمارے بہت سے سیاستدان زکوٰۃ اورفطرانے کے مستحق پائے گئے ہیں۔سیاستدانوں کے اثاثوں کے بارے میں جان کر مجھے تو چکر چڑھ گئے بالکل اس طرح جیسے بچپن میںہم اندھادھند ایک جانب گھوم کر خود کو ’’بھئوں بوٹیاں‘‘چڑھالیاکرتے تھے۔’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کا یہ کمال رہا ہے کہ یہاں شراب حرام قراردے دی جاتی ہے لیکن طلب گار کو ہردورمیں دستیاب رہی ہے ،فرق صرف اتنا پڑا کہ اس پر اداکی جانے والی ایکسائز ڈیوٹی قومی خزانے کی بجائے کسی ’’اقلیتی جیب‘‘ میں چلی جاتی ہے۔شراب پر پابندی اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو نے عائدکی تھی مگر یہ امیرالمومنین ’’ ثانی‘‘ جنرل محمدضیا ء الحق کے مارشل لائی اوراسلامی دور میںبھی دستیاب رہی۔ سینیٹراعتزاز احسن نے کہاہے کہ آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کا اطلاق اگر بابائے قوم قائداعظم پر بھی کیاجاتاتو وہ بھی ممبر قومی اسمبلی بننے سے محروم رہتے ۔ان دفعات سمیت کئی ایسے آئینی ،قانونی اوراخلاقی تمغات ہیںجو ہم نے بحیثیت زندہ قوم اپنے ماتھے پر جھومر کی طرح سجارکھے ہیں۔ اعتزاز احسن لاکھ کہتے رہیں کہ باسٹھ تریسٹھ کے ہوتے ہوئے بابائے قوم بھی رکن اسمبلی منتخب نہیںہوسکتے تھے لیکن ہم بطور قوم یہ معجزہ بھی کردکھائیں گے کہ سیاست کے یہی ’’بابائے فن ‘‘آئندہ بھی اہل وطن کی ’’خدمت ‘‘کرتے دکھائی دیںگے۔ بات سیاستدانوں کے ظاہری اثاثوںکی ہورہی تھی۔ میرے خیال میں سیاستدانوں نے اپنے اثاثے اسی طرح چھپائے ہیںجیسے ہماری فلمی ہیروئنیں اپنے عمریںچھپاتی ہیں۔جن سیاستدانوں نے بظاہر اپنے اصل اثاثے ظاہر کردئیے ہیں ،انہیںدیکھ کر بھی احساس ہوتاہے کہ وہ بھی وینا ملک کے ’’ اثاثوں‘‘ سے کچھ کم نہیں رکھتے۔الیکشن کمیشن کے مطابق ہمارے سابق ارکان پارلیمنٹ میں سے پیپلز پارٹی کے نورعالم امیرترین شخصیت ہیںجن کے اثاثوں کی مالیت مبلغ 32ارب روپے بیان کی گئی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے ہی سابق ’’ہم دم ِقلیلہ‘‘ جمشید دستی غریب ترین رکن ہیں۔ ’’مبینہ‘‘ کرپٹ نظام کے اندر معرضِ وجود میں آئی اس پارلیمنٹ میںنون لیگ کے ترجمان سینیٹر پرویز رشیدکے پاس ایک پیسہ بھی نہیںہے اورالیکشن کمیشن کوفراہم کی جانے والی معلومات کے مطابق وہ کوئی اثاثہ بھی نہیںرکھتے۔ اس دور میں جب سیاست سٹاک ایکسچینج کے کا روبار سے بھی زیادہ منافع بخش دھندہ سمجھاجاتاہے برادرم پرویز رشید کے اس ’’تجاہلِ معاشیانہ‘‘ کو کیا نام دیاجائے !فی الحال میری یہ تجویزنوٹ فرمائی جائے کہ اخلاقی ،معاشی،معاشرتی اورسماجی تنظیمیںپرویز رشید کو فی الفورسقراط، گوتم یا کم ازکم کارل مارکس ایوارڈدیں۔ یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ،صحافیوں کی محفل میںایک کہنہ مشق صحافی برادرم پرویز رشید کی سیاسی جدوجہدکے گُن گا رہاتھا۔ اس نے بیان کیاکہ موصوف کا تعلق اس نسل سے ہے جس نے سیاست کو عوام کی تقدیربدلنے کا ایک ذریعہ سمجھ کر جوائن کیا۔ بھٹوصاحب کی طرف سے روٹی ،کپڑااورمکان کے بلند کیے گئے نعرے پر لبیک کہا لیکن جب انقلاب نہ آیا تو اپنی راہیںجداکرلیںلیکن نظریاتی سیاسی جدوجہد کاسفر جاری رکھا۔ کہنہ مشق صحافی کافی دیر تک پرویز رشید صاحب کی ایماندارانہ اور دلیرانہ سیاست کے نقشے کھینچتارہاتو ایک استاد صحافی نے یہ جملہ ادا کیاجو میری سماعتوں میں آج تک گونج رہاہے :آفرین ہے پرویز رشید کی سیاست پر جنہوں نے اس قدر سیاسی جدوجہد کرنے کے بعد میاں برادران کی نوکری قبول کرلی…اسی واقعاتی زمین میںایک دوسرا واقعہ بھی سن لیں۔ سائونڈریکارڈسٹ ادریس بھٹی کانام فن کی دنیا میںکسی تعارف کا محتاج نہیں۔ادریس بھٹی ملکہ ترنم نورجہاں اورمہدی حسن کے پسندیدہ سائونڈریکارڈسٹ رہے ہیں۔انہوں نے ان دونوں فنکاروں سمیت دوسرے سنگرز کے سینکڑوں گیت ریکارڈ کئے جو آج بھی زبان زدعام ہیں۔بھٹی صاحب تھیٹر کی معروف اداکارائوں اورڈانسرز بہنو ں کی جوڑی نرگس اوردیدار کے والد ِگرامی بھی ہیں۔موسیقار طافو کے چھوٹے بھائی نثار حسین بھگ کو کسی نے کہاکہ آپ بہت بڑے میوزیشن ہیںلیکن آپ کے مالیاتی حالات قابل رشک نہیں، اس کے برعکس ادریس بھٹی اور اسکی فیملی کروڑ پتی ہوگئی ہے حالانکہ وہ صرف ایک سائونڈریکارڈسٹ ہے۔نثار حسین بھگ نے اس کے جواب میں جو تاریخی جملہ کہاتھااسے من وعن تو پیش نہیںکیاجاسکتاتاہم اس کا اخباری ورژن ملاحظہ فرمائیں: ’’ادریس بھٹی کا گھرانہ بڑی محنت اورجدوجہد کے بعد’’فنکار‘‘ ہواہے‘‘۔بھگ نے جس طرح منہ بھر کے ادریس بھٹی اینڈ فیملی کو ’’فنکار‘‘قرار دیاتھاہم اس طرح کسی سیاستدان کو ’’سیاہ کار‘‘قرار نہیں دیںگے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست کو دھندہ بنانے کے پیچھے ہمارے سیاستدانوں سے زیادہ اس ملک کے تماش بین خفیہ حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔1970ء کے عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے کی بجائے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کرکے ملک دوٹکڑے کرلیاگیا ،77ء کے انتخابات کو ایک سازش کے تحت متنازعہ بنایاگیااورپھر 1985ء میںاس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے ’’باس‘‘جنرل محمدضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کاتصور متعارف کرایا۔صرف 90 دن کے لئے آئے فوجی ڈکٹیٹرجس نے قرآن مجید کو ضامن بناکر وعدہ کیاتھاکہ وہ صاف شفاف انتخابات کرانے کے بعد بیرک میں واپس چلاجائے گا،آٹھ سال بعدجو غیر جماعتی انتخابات کرائے وہ کرپشن کا سرچشمہ ثابت ہوئے۔ اسٹیبلشمنٹ نے 53ئاور54ئکے انتخابات میں دھاندلی ’’ایجاد‘‘ کی تھی جسے بعد ازاں جدید بنیادوں پر استوار کیاگیا۔ہمارے سیاسی قائدین کی آبیاری اسٹیبلشمنٹ کی انہیںنرسریوں میںہوئی ۔بعد ازاں وہ پھل دار درخت اوربرگدکے پیڑبن گئے جن پر سیاسی کووں، چیلوں اورگدِھوں نے اپنے گھونسلے اورٹھکانے بنا لئے۔عوام کو اس ’’سیاسی شجر کاری مہم‘‘(انتخابات) سے کوئی فائدہ نہ ہوا اورنہ ہوگا۔ میرے بعض پڑھنے والوں نے ٹیلی فون کالز اورای میلز کے ذریعے اعتراض کیاہے کہ میںلوگوں کو موجودہ سیاسی نظام، جمہوریت اورانتخابات سے متنفر کررہاہوںنیزمسائل کا حل تجویز کرنے کی بجائے صرف کنفیوژن پھیلارہاہوں۔ اپنے بارے میںمیرا دعویٰ ہے کہ میں خالصتاََ بائیس کیرٹ کا ’’جمہوریہ‘‘ ہوں اورالیکشن میںہی قوم کی بھلائی سمجھتاہوں مگر یہ بھی سچ ہے کہ صرف الیکشن ہی نجات کا ذریعہ نہیںہیں۔ یہ درست ہے کہ اس ملک میںایسی طاقتیں موجود ہیںجنہیں عام انتخابات ایک آنکھ نہیں بھاتے،2008ء کے انتخابات سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کردیاگیاتھا لیکن انتخابات پھر بھی ہوئے تھے ۔2013ء کے انتخابات سے قبل کیاکچھ ہونے والاہے ؟ کیا اس بار بھی کسی کی قربانی مقصود ہے؟ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو ۔ انتخابات توپھر بھی کرانے ہی پڑیںگے۔پیپلز پارٹی ہویانون لیگ ،عوامی نیشنل پارٹی ہویاایم کیوایم ،جمعیت علمائے اسلام ہویا جماعت اسلامی ،سبھی نے عوام پر باری باری حکومت کی ہے ۔ان سیاسی جماعتوں میںایم کیوایم اورجمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کا تو کسی دور میں بھی ناغہ نہیںہوپایا۔ قصہ مختصر کپتان خان کے علاوہ سبھی اقتدار کا ڈبل وکٹ ٹورنامنٹ کھیل چکے ہیں ۔ کپتان کی ٹیم میںبھی خورشید محمودقصوری،شاہ محمودقریشی،جہانگیر ترین اورجاوید ہاشمی سمیت ہر قابل ذکر سیاسی جماعت کا کھلاڑی پایاجاتاہے۔پی ٹی آئی کے بارے میں کہاجاسکتا ہے کہ یہ اقتدار کا ٹورنامنٹ کھیلنے کے لئے ایک نئی ’’آئی پی ایل‘‘(اقتدار پریمیر لیگ) تیارکی گئی ہے جس میںبھانت بھانت کی سیاسی جماعتوں کے آل رائونڈر اکٹھے کردئیے گئے ہیں۔ آنے والے انتخابات سے قوم ایک بارپھر امیدسے توہے لیکن سچ یہ ہے انتخابات کی کوکھ سے صرف ’’چاند سی ہنگ پارلیمنٹ ہی پیدا ہوگی‘‘ پاکستانی عوام کو مسائل کی دلدل سے نکالنا جس کے بس میںنہیںہوگا۔ کرپٹ جمہوری ’’نظام شمسی ‘‘میں شامل سیاروں اورستاروں کواپنا وجود قائم رکھنے کے لئے ’’تاروں کی دلبری‘‘ کا سبق یاد رکھنا ہوگا ۔اسٹیبلشمنٹ کی قائم کی گئی اس کرپٹ بزم ِ انجم کا انجام وہی ہوگاجس کے بارے میںفرمایاگیا: یہ کاروانِ ہستی ہے تیز گام ایسا قومیں کچل گئی ہیں جس کی روا روی میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں