''کراچی میں بدامنی کا جن بوتل میں بند کر دیا گیا ہے؟‘‘
رینجرز کراچی میں متحرک ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اہم انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ جمعرات کی صبح ایم کیو ایم کے کارکن صولت مرزا کا ویڈیو بیان سامنے لایا گیا جس میں وہ الزام لگا رہا ہے کہ اسے مختلف شخصیات کو قتل کرنے کے لئے متحدہ کی لیڈرشپ براہ راست احکامات جاری کرتی رہی۔ صولت مرزا کا یہ ویڈیو پیغام اس وقت سامنے لایا گیا جب اسے صرف پانچ گھنٹے بعد پھانسی دی جانے والی تھی۔ اعتراف گناہ پر مبنی صولت مرزا کی یہ Exclusive فوٹیج دکھا کر میڈیا نے خوب مقبولیت کمائی۔ ورنہ پہلے ہمارے رستم زماں میڈیا کا یہ حال تھا کہ وہ ایم کیو ایم کے خلاف بات کرنے کو گناہ کبیرہ سے تعبیر کرتا تھا۔ رینجرز کے ایک کرنل صاحب نے مدعی کی حیثیت سے الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا‘ جس میں کہا گیا ہے کہ متحدہ کے سربراہ نے اپنے ٹیلی فونک خطاب میں دھمکی آمیز الفاظ استعمال کئے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ الطاف بھائی اپنے ٹیلی فونک خطاب میں کوئی نہ کوئی بات ایسی کہہ دیتے‘ جس کی سیاسی تشریح متحدہ میڈیا الیون کو ٹاک شوز میں کرنا پڑتی تھی۔ بعض اوقات الطاف بھائی خود بھی معذرت کر لیا کرتے ہیں جیسا کہ ''سوری شیریں مزاری‘‘ کہہ کر معاملہ نبٹایا گیا تھا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے برطانیہ کے ہائی کمشنر کو باضابطہ طور پر یہ کہا گیا کہ وہ اپنے برطانوی شہری (الطاف حسین) کو پاکستان کے ریاستی اہلکاروں کو دھمکانے سے باز رکھے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ کی طرف سے برطانوی ہائی کمشنر کے نوٹس میں یہ معاملہ لانا غیرمعمولی واقعہ ہے۔
متحدہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا رہی‘ لیکن اب ناگواری بڑھتی جا رہی ہے۔ نائن زیرو پر چھاپہ مارنے والے رینجرز اہلکاروں کو ''تھے اور اب ہمیشہ کیلئے تھے ہو جائیں گے‘‘ کہنے کے معاملہ پر بھی الطاف بھائی نے وضاحت کر دی کہ ان کے لفظوں کے مفہوم کو غلط سمجھا گیا۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
مگر یہاں معاملہ مختلف ہے۔ سیاست کا وہ طریق کار اور انداز جو کبھی شناخت ہوا کرتا ہے اب وہی الزام، جرم اور مقدمہ ہے۔ جنرل ریٹائرڈ مشرف نے اپنے ایک تفصیلی انٹرویو میں متحدہ کے ماضی سے لے کر پاکستان کے مستقبل تک کئی ایشوز پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ فرماتے ہیں کہ متحدہ پر دہشت گردی کی چھاپ لگ گئی ہے‘ اسے دور کرنا چاہیے، میں نے ایم کیو ایم کو بہت سمجھایا‘ لیکن انہوں نے میری نصیحت پر عمل نہ کیا۔ متحدہ نے مشرف صاحب کی نصیحت پر عمل کیوں نہیں کیا؟ اس کا جواب تو وہ خود دیں گے لیکن ہماری دانست میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایم کیو ایم نے سمجھا ہو کہ یہاں تو معاملہ ہی ''اوروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت‘‘ والا ہے۔ جنرل صاحب سے پوچھا جانا چاہیے کہ قبلہ آپ کسی محلے کے بڑے بوڑھے نہیں تھے جن کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی گئی، آپ آرمی چیف اور صدر مملکت جیسی دوہری اور جوہری قوتوں کا منبع تھے‘ پھر آپ سے کیس مس ہینڈل کیوں ہوا؟ آپ نے لال مسجد اور نواب اکبر بگتی کے خلاف تو آپریشن کیا اور ایم کیو ایم کو صرف سمجھایا!!
ہمارے ہاں المیہ یہی ہے کہ قانون پر عمل کرتے ہوئے شدید امتیاز برتا جاتا ہے۔ 12 مئی 2007ء کا دن یاد کیجئے جب کراچی میں صبح سے لے کر شام تک 54 انسانوں کی لاشیں گرا دی گئی تھیں۔ شام جب رات میں ڈھلی تو اسلام آباد میں مشرف نے مکا لہراتے ہوئے کہا تھا: ''عوامی طاقت کے سامنے آنے والے کچل دیے جائیں گے‘‘۔ یہ وہ دن تھے جب مشرف اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے اور کراچی میں ایم کیو ایم کی حکومت تھی۔ کوئی بتائے 12 مئی کے دن قتل کئے جانے والے معصوم شہریوں کا مقدمہ کس کے خلاف درج ہوا؟ مشرف نے اپنے زریں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک پر مارشل لا تو نہیں لگنا چاہیے مگر حکومت کی تبدیلی ہر صورت میں ہونی چاہیے۔ ان کو جب بتایا گیا کہ آئینی طور پر حکومت کو ختم نہیں کیا جا سکتا تو فرمایا: اگر حکومت کو تبدیل نہ کیا گیا اور دہشت گردی اسی طرح ہوتی رہی تو پاکستان کی حالت شام اور عراق جیسی ہو جائے گی۔
جنرل ریٹائرڈ مشرف کی حکومت قرون مظلمہ کے دور کی بات نہیں جو لوگوں کو اس کا حشر یاد نہ ہو۔ ہم سبھی جانتے ہیںکہ دہشت گردی کے بیج جنرل محمد ضیاالحق نے بوئے تھے اور جنرل
مشرف کے دور میں اس میں روشن خیالی کی کھاد ڈالی گئی اور سپرے کیا گیا۔ جنرل مشرف کے دور میں سیاسی حالات دگرگوں تھے، آخری دنوں میں تو حالت یہ تھی کہ فوجی افسران کو وردی میں ایسے مقامات پر جانے سے روک دیا گیا‘ جہاں عوامی اجتماعات ہوتے تھے۔ افواج پاکستان کا روایتی امیج بحال کرنے میں جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف کی کاوشوں کے ساتھ ساتھ فوج کی اس ڈاکٹرائن کا بھی ہاتھ ہے جس میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ ڈاکٹرائن یہ ہے کہ فوج اپنا آئینی اور پیشہ ورانہ کردار ادا کرے۔ لہٰذا اب کمانڈو خاں کی کسی ایسی بات پر کان نہیں دھرنا چاہیے جس میں وہ جمہوری سیٹ اپ کو لپیٹنے کا نظریہ پیش کریں۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے حوالے سے مائنس ون فارمولے پر عمل کرتے ہوئے جنرل (ر) مشرف کو متحدہ کی سیاسی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے آگے لایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں مشرف کا کہنا ہے کہ ریجنل رول نہیں‘ بڑا کردار ادا کرنا چاہوں گا۔ مراد یہ ہے کہ متحدہ تو علاقائی جماعت ہے لیکن وہ (مشرف) ایک قومی لیڈر ہیں۔ جنرل (ر) مشرف قوم کی بہتری کے لئے کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے‘ لیکن اس سے پہلے وہ عدالتوں میں اپنے اوپر دائر مقدمات کا سامنا ایک عام شہری کی حیثیت سے کریں۔ یہ ان کا پاکستان کے آئین اور قانون پر احسان عظیم ہو گا۔
جنرل ریٹائرڈ مشرف نے یہ بھی کہا ہے کہ آرٹیکل 6 ملک کی سلامتی سے زیادہ اہم نہیں۔ ان کے نزدیک انہوں نے آئین اور قانون کو توڑ کر ملک کو بچایا تھا۔ یہ کیاجواز ہے کہ کوئی شخص‘ چاہے وہ ریاستی ادارے کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو‘ یہ کہے کہ اگر وہ آئین نہ توڑتا تو ملک ٹوٹ جاتا۔ قانون کی تشریح کرنا عدالتوں کا کام ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم آئین اور قانون کی تشریح کرتے ہوئے امیتاز برتتے ہیں۔ جنرل یحییٰ خان اور بھٹو نے قانون کا سامنا کیا۔ ایک کو رہائی ملی اور دوسرے کو پھانسی دی گئی۔ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی اور جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ کے مشہور زمانہ اصغر خان کیس کا فیصلہ بھی نہیں ہو پایا۔ جنرل ریٹائرڈ مشرف کو وی وی آئی پی انصاف فراہم کیا جا رہا ہے، لہٰذا صرف نائن زیرو پر چھاپہ مار کر یہ کہنا کہ پاکستان میں قانون کے نفاذ کا انقلاب برپا ہو گیا‘ قرین انصاف نہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ملاقات میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ''کراچی میں امن قائم کریں گے، آپریشن بغیر دبائو کے جاری رہے گا‘‘۔ سیاست اور اقتدار کے کھیل کو ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، مافیاز کی قتل و غارت گری سے پاک کرنا چاہیے‘ لیکن یہ عمل ہرگز جانبدارانہ نہیں ہونا چاہیے، ہمیں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے حقیقی سیاسی عوامل کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔ ہم بحیثیت قوم ایک ایسے مقام پر آکھڑے ہوئے ہیں جہاں ہمیں موقعہ مل رہا ہے کہ سچ بول کر ستم گروں، جلادوں اور صیادوں کو کٹہرے میں کھڑا کریں۔ فیض نے کہا تھا:
کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشو، فریاد کچھ تو ہو
رنگیں لہو سے پنجہ صیاّد کچھ تو ہو
خوں پر گواہ دامنِ جلاّد کچھ تو ہو