وزیردفاع خواجہ محمد آصف ، وزیر دفاع برائے وزیر اعظم دکھائی دیے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں عمران خان کی معیت میں آنے والے پی ٹی آئی کے اراکین کو جس طرح ''جی آیاں نوں‘‘ کہا ، وہ نہ تو جمہوری روایات کا آئینہ دار تھا اور نہ ہی آداب خواجگی کا تقاضا۔ علامہ اقبال ؒ نے شکوہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ قسمت نے انہیں حکمرانی عطا کی ہے جو احترام ِآدمیت سے نا آشنا ہیں :
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں کہ روشِ بندہ پروی کیا ہے
خواجہ آصف کی طرف سے ''شرم کرو‘‘ اور ''حیاکرو‘‘ جیسی زبان استعمال کرنے پر وزیر اعظم ہائوس میں خاموشی چھائی رہی۔کہتے ہیں کہ خاموشی نیم رضا مندی ہوتی ہے، اس خاموشی کو بھلے مانسی تو قرارنہیں دیاجاسکتا۔ ''سائنسدان ‘‘ بتاتے ہیںکہ حیاکرو، شرم کرو فیم تقریر ''فرمائشی ‘‘ تھی۔ انہی ماہرین کا کہنا ہے کہ چودھری اعتزازاحسن کی طرف سے چودھری نثار علی خان کی شان میں کی گئی تقریر بھی ''فرمائشی‘‘ تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دونوں بار فرمائشی سماچار سننے والی ہستی ایک ہی تھی۔ اگرچہ وزیر اعظم ہائوس کی طرف سے رسمی طور پر خواجہ آصف کے اس رویے کی مذمت نہیںکی گئی لیکن مسلم لیگ نون کی میڈیا الیون ٹیم کے فل بیکوں اور سنٹر فارورڈوں نے کہا ہے کہ خواجہ آصف نے دھرنے کابدلہ اتار دیا۔ اشارے کنائے کے بجائے کھل کر بات کرنے والے شاعر شکیب جلالی نے کہا تھا:
شکیب جس کو شکایت ہے کھل کے بات کرے
ڈھکے چھپے اشارے مجھے قبول نہیں
یہ یکم ستمبر 2014ء کی دوپہر تھی۔ ٹی وی چینلز بریکنگ نیوزکے طور پر نشرکررہے تھے کہ ''پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنوں نے پی ٹی وی پر قبضہ کرلیاہے اور پہلی بار اس قومی ادارے کی نشریات روک دی گئی ہیں‘‘۔ حساس علاقوں میں حسا س اداروں کے اہلکار تعینات تھے، لیکن پی ٹی وی کو چند ڈنڈا برداروں نے''فتح ‘‘ کرلیا۔ ایسے میں ایک ٹی وی چینل پر بیٹھی جوڑی نے خواجہ آصف کو لائن پر لے لیا۔ اس دن خواجہ آصف کا درجہ حرارت منفی بائیس ڈگری تھا جوہمارے ہاںگیاری سیکٹرکا ہوتا ہے۔ یوں لگ رہا تھاکہ خواجہ صاحب پاتال سے مخاطب ہیں۔ اینکر جوڑی نے دریافت کیا: آج افواہ گردش کر رہی ہے کہ وزیر اعظم بذات خود استعفیٰ دے دیںگے۔ خواجہ آصف نے بتایاکہ ان کا وزیر اعظم سے رابطہ نہیں ہو پا رہا،اس لیے انہیں علم نہیں۔ وزیر دفاع نے تردید کرنے کی بجائے دہائی دی کہ اگر ایسا ہوا تو یہ جمہوریت کی بدنصیبی ہوگی۔ یہ وہ دن تھا جب وزیر دفاع ، وزیر آہ و بکاہ دکھائی دے رہے تھے۔
دھرنا دینا جمہوری حق ہے، لیکن کپتان خان کی طرف سے دیے گئے دھرنے کاسٹائل ''سب سے پہلے پاکستان‘‘جیسا تھا۔ اس نوع کے دھرنے، ریلیاں اور تحریکیں'' قومی سلامتی پروڈکشن ہائوس‘‘ کے تعاون سے ارض ِپاک پر چلائی جاتی رہی ہیں، اس لیے کوئی جمہوریت پسند پی ٹی وی پر حملے کو جائز قرارنہیں دے سکتا۔گزشتہ دنوں ایک آڈیو ٹیپ منظر ِعام پر لائی گئی جس میں عارف علوی اور عمران خان کے مابین پی ٹی وی پر حملہ آوروں کی مذمت کرنے کے بجائے کہا جا رہا ہے کہ''اور پریشر بڑھایا جائے تاکہ نواز شریف اسمبلی کے جوائنٹ سیشن سے پہلے استعفیٰ دے‘‘۔ عمران خان ایک محب وطن اور ایماندار لیڈر ہیں۔ ان کے دل میں عوام کے لیے درد بھی ہے، لیکن وہ حصول ِاقتدارکے لیے بعض اوقات غیر جمہوری شارٹ کٹ اپناتے ہیں جس پر اعتراض کیاجاتا ہے۔ آمریت کے بتوںکو پتھر مارتا وہ اچھا لگتا ہے جس نے خود کبھی ان کی پوجا پاٹ نہ کی ہو، مگر جو خود آمریت کے پجاری ہوں انہیں ان بتوںکو پاش پاش کرنے کی جھوٹی کہانیاں نہیں گھڑنی چاہئیں۔ وزیر دفاع ہمیشہ فخر سے فرماتے ہیںکہ ان کے والدِگرامی ایک سیاسی کارکن تھے جنہوں نے اس ملک سے آمریت کو نجات دلانے میں اہم کردارادا کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ 1979-80ء میں جب جنرل محمد ضیاء الحق نے انتخابات ملتوی کرکے اپنے آمری دورکو طول دینے کی منصوبہ بندی کرلی تو پہلاکام یہ کیا کہ ڈپٹی کمشنروں اور خفیہ اداروں کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیوںکے امیدواروں کے متوقع نام طلب کئے۔ اب یہ ڈپٹی کمشنروں اور خفیہ والوں کی صوابدید تھی کہ وہ قوم کوکس قماش کے قائدین مہیا کرتے ہیں۔ یہ قائدین وہ تھے جنہیں ''قومی قائدین‘‘ کے طور پر اُس منتخب پارلیمنٹ کا نعم البدل بننا تھا جسے بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ کرتحلیل کر دیا گیا تھا۔ ضیاء الحق کی تیارکردہ سیاسی کھیپ میں یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ امیدوار کردارکے اعتبار سے ''صالح‘‘ ہوں۔ چنانچہ جنرل صاحب نے قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے ایسے افراد کا چنائوکیا جن میں زیادہ تر اپنے علاقہ کے''بستہ ب معززین‘‘ تھے۔ پولیس کے پرانے نظام میں''بستہ ب‘‘ سے مراد عادی مجرم ہوتا تھا۔ نوآموز بدمعاش ''بستہ الف‘‘ کی کٹیگری میں شامل کیے جاتے تھے، جب یہ سینئر ہوجاتے تو انہیں ''بستہ ب‘‘ کی فہرست میں شامل کر لیاجاتا۔ 1985ء کی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہوکر آنے والی سیاسی کھیپ پر نظر ڈالیں تو جواب ملتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے کس طرح اطمینان کے ساتھ قوم کی تقدیر میں بربادی اورکرپشن کی لکیریں کھینچی تھیں۔
ہمارے ہاں یہ رواج پرانا ہے کہ بت فروش، بت شکن کہلانے پر اصرارکرتے ہیں، لیکن انسانی حافظہ اپنی تمام ترکمزوریوں کے باجود ''یاد ماضی کے عذاب ‘‘ سے محفوظ نہیں رہتا۔ جنرل ضیاء الحق نے دکھاوے کے لیے جو مجلس شوریٰ بنائی تھی، خواجہ محمد صفدر اس کے چیئرمین مقررکیے گئے۔ مرحوم صحافی اظہر سہیل نے اپنی کتاب ''جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سال‘‘ میں لکھا تھا کہ ''مجلس شوریٰ میں جو افراد شامل کیے گئے وہ اگلے دو ڈھائی سال قوم کے مستقبل سے کھیلتے رہے۔ اور عجیب لطیفے کی بات یہ ہے کہ اس''شوریٰ‘‘ میں بھی ایک اپوزیشن موجود تھی جو حکومتی سرگرمیوں پر مثبت انداز میں تنقیدکرکے کاروبار حکومت کو ''جمہوری انداز ‘‘ میں چلانے کافریضہ انجام دے رہی تھی۔ یہ ایک ایسا سیاسی تماشا تھا جس پر مارشل لاء کے سیاسی حلیف بھی بلبلا اٹھے تھے‘‘۔ قصہ مختصر یہ کہ مجلس شوریٰ وہ نام نہاد ادارہ تھا جس نے ایک آمرکوسیاسی مردانہ قوت عطا کی جس سے وہ مرد آہن بن کر قوم کی تقدیر سے کھیلتا رہا۔ مجلس شوریٰ کی سربراہی قوم کی کتنی بڑی خدمت تھی،اس کا فیصلہ بآسانی کیاجاسکتا
ہے۔ مجلس شوریٰ سے پہلے مغربی پاکستان کی قانون سازاسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے سر پر نواب آف کالا باغ کے سایہ شفقت کی بات کی گئی تو بات دور تک چلی جائے گی لہٰذا چپ ہی بھلی ہے۔
ماضی کے مزاروں سے سیاست کے حال میں واپس آئیں تو فضا قدرے بدلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یہ تبدیلی اگرچہ بہت بڑی نہیں لیکن مایوس کن بھی نہیں ہے۔ آزاد کشمیرکا ضمنی انتخاب، جس میں پی ٹی آئی کے بیرسٹر سلطان محمود نے نون لیگ اور پی پی پی پر مشتمل چھوٹے پیمانے کی''آئی جے آئی‘‘کو ہرایا، اس سے عوامی ٹرینڈ سمجھ میں آ جاتا ہے۔ آزادکشمیر میں فتح کا جھنڈا گاڑنے کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی کا رُخ کراچی کی جانب ہے۔کراچی کے حلقہ 246 میں جس طرح ضمنی انتخاب پانی پت یا جنگ پلاسی جیسی تاریخی اہمیت اختیارکرگیا وہ قابل افسوس ہے۔ نائن زیرو ہو یا لاڑکانہ، بنی گالا ہو یاڈیرہ اسماعیل خان،کوئی بھی علاقہ کسی دوسرے کے لیے نوگو ایریا نہیں ہونا چاہیے۔ متحدہ کے قائدین کی طرف سے عمران خان اور ریحام بھابی کوکراچی میں خوش آمدید کہنا خوش آئند ہے، لیکن چندگھنٹے پہلے پی ٹی آئی کے انتخابی خیموں میں ''شوٹنگ‘‘ قابل مذمت ہے۔ سیاست میں ہرقسم کی بے ہودگی کی مذمت کی جانی چاہیے۔ میرتقی میر نے بے ہودگی اور''ٹن ‘‘کیفیت کی سرزنش یوں کی تھی:
کیا میر شراب تُو نے پی ہے
بے ہودہ یہ گفتگو جو کی ہے
بس مے سے زبان اب نہ تر کر
مستیِ سخن پہ ٹک نظر کر
ہے نشۂ سامعہ دوبالا
پھر حرف نہ جائے گا سنبھالا