"TSC" (space) message & send to 7575

بھٹو کے قتل کا قصاص

بھٹو نے پھانسی چڑھتے ہوئے کہا تھا: ''تم لوگوں کو علم بھی ہے کہ تم کس شخص کو پھانسی چڑھا رہے ہو؟ میں اسلامی کانفرنس تنظیم کا سربراہ ہوں، مجھے اسلام اور پاکستان کے لئے کام کرنے کی سزا دی جا رہی ہے، مجھ سے پہلے شاہ فیصل کو قتل کروایا گیا، اب مجھے اسی انجام سے ہمکنار کیا جا رہا ہے اور یہ سب کون لوگ کر رہے ہیں‘ بے شرم لوگ، جو غیر وں کے اشارے پر اپنے سب سے بڑے آدمی کو مار دینے پر تلے ہوئے ہیں‘‘۔ اس تاریخی سچ کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ 4 اپریل 1979ء کے دن بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر پاکستانیوں کے مقدر کو بھی صلیب پر چڑھا دیا گیا تھا۔ عوام کے حقیقی محبوب قائد کے قتل کا قصاص ہم نجانے کب تک ادا کرتے رہیں گے۔ دراصل اس روز ہماری بربادیوں کا آغاز ہوا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی خودنوشت Daughter of the East میں لکھتی ہیں: ''راولپنڈی جیل میں 4 اپریل 1979ء کو صبح صادق سے بھی بہت پہلے انہوں نے میرے والد کو قتل کر دیا۔ چند میل دور سہالہ کے ایک ویران پولیس ٹریننگ کیمپ میں اپنی والدہ کے ساتھ مقید، میں نے اپنے والد کی موت کے اس لمحے کو محسوس کیا۔ وہ دکھ کی عجیب رات تھی۔ میری والدہ خود بھی غم کی تصویر بنی ہوئی تھیں لیکن انہیں میری فکر تھی۔ والدہ نے میری حالت دیکھی تو مجھے خواب آور گولیاں کھلا دیں۔ ویلیم کی گولیاں کھانے سے نیند تو نہیں آئی تھی لیکن آنکھوں کی پُتلیاں بھاری ہو گئیں تھیں۔ میں اچانک اپنے بستر سے گھبراہٹ کے عالم میں اُٹھ بیٹھی... نہیں پاپا... میرے رندھے ہوئے گلے میں سے چیخ نکل گئی۔ میں سرد ہوتی گئی اور موسم گرما کی حدت کے باوجود میرا جسم کپکپانے لگا، میرے لئے سانس لینا بھی دشوار ہو گیا اور میں سانس لینا بھی نہیں چاہتی تھی۔ میری والدہ اور میرے پاس ایک دوسرے کی تسلی کیلئے الفاظ بھی نہیں تھے۔ وقت گزرتا گیا اور ہم بے سروسامان پولیس کوارٹروں میں سمٹی بیٹھی رہیں۔ ہم دونوں صبح سویرے میرے والد کی میت کے ہمراہ جانے کیلئے تیار تھیں کہ چھوٹے جیلر نے بتایا کہ انہیں (بھٹو صاحب کو) تدفین کیلئے لے جایا گیا ہے۔‘‘ یہ کیسا انصاف تھا کہ وزیر اعظم پاکستان کو پھانسی دے دی گئی اور پھر انہیں ایک لاوارث شخص کے طور پر دفن کر دیا گیا؟ بھٹو صاحب کو دکھاوے کے طور پر عدالت سے پھانسی کی سزا ہوئی لیکن حقیقت میں انہیں قتل کیا گیا تھا۔ ان کے قتل کا حکم عالمی طاقتوں نے دیا جبکہ وقوعہ، مقدمہ، شہادتیںاور پھانسی پر چڑھانے کا عمل ارض پاک پر سرانجام پایا‘‘۔
فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے مارشل لائوں کے تسلسل سے مشرقی پاکستان کے بنگالی علیحدگی پر تُلے ہوئے تھے۔ بنگالیوں کے ہردلعزیز لیڈر شیخ مجیب الرحمان نے اپنے 6 نکاتی منشور کا اعلان 65ء میں کر دیا تھا۔ پاکستان کے قائدین کی طرف سے جب اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا تو بنگالیوں نے اسے اپنا تاریخی، معاشرتی اور ثقافتی استحصال قرار دیا۔ تقسیم کے بعد مشرقی پاکستان 24 سال تک پاکستان کا حصہ رہا۔ اس عرصہ میں ملک پر فوجی حکومیتں قائم رہیں‘ جن سے مشرقی پاکستان کا مسئلہ حل نہ ہو پایا اور بالآخر وہ بنگلہ دیش بن گیا۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ناکامیوں کو بھٹو کے نام کرنے کی پالیسی اپناتے ہوئے تاریخ کو مسخ کیا۔ اس پالیسی کے تحت اس تاریخی بددیانتی کو (اُدھر تم اِدھر ہم) کا نعرہ دیا گیا تھا۔ مذکورہ نعرہ بھٹو کی طرف سے نہیں لگایا گیا تھا۔ یہ اس وقت کے سیاسی اور معروضی حالات پر صحافتی غصہ نکالا گیا تھا۔ یہ سرخی ایک کمیونسٹ نظریات کے حامل اخبار ''آزاد‘‘ میں جمائی گئی تھی‘ جسے اس وقت کی ایجنسیوں نے خوب استعمال کیا۔
بھٹو نے اس ملک پر مجموعی طور پر 6 سال حکومت کی‘ مگر اس مختصر عرصہ میں کامیابیوں کی ہزار داستان لکھ دی۔ (1) ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد صرف ایک سال میں شکست خوردہ قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا۔ (2) بھارت کی قید سے 95 ہزار پاکستانی قیدیوں کو رہا کروایا۔ (3) بھارت سے ساڑھے پانچ ہزار مربع میل علاقہ واپس حاصل کیا۔ ان دو اہم کاموں کے لئے بھٹو صاحب کو اندرا گاندھی سے مذاکرات کرنا پڑے۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی ایک ذہین لیڈر تھیں‘ مگر بھٹو صاحب نے مذاکرات کی میز پر اسے شکست دی تھی۔ (4) قومیائے گئے اداروں سے غریب عوام کی معاشی اور معاشرتی زندگی میں آسودگی لائی گئی۔ (5) بینکنگ نظام کو بہتر بنا کر ملک کی کرنسی کو مستحکم کیا گیا۔ (6) غریب عوام کیلئے تعلیم کی بلامعاوضہ فراہمی یقینی بنائی گئی۔ (7) بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر خاندانی منصوبہ بندی کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ (8) شہری مزدوروں کے معاشی حالات سنوارنے کے لئے کئی ایک اقدامات کئے‘ جیسے مزدوروں اور ان کے اہل خانہ کی صحت کے لئے سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کا آغاز کیا گیا۔ (9) کسانوں کے معاشی حالات سدھارنے کیلئے زرعی اصلاحات کی گئیں۔ (10) پاکستان کی خارجہ پالیسی میں توازن لاتے ہوئے روس، ایران، افغانستان، بھارت اور چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائی گئی۔ (11) بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو بھی نیوکلیئر پاور
بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اس منصوبے کا آغاز بلا تاخیر کیا گیا، بھٹو صاحب کے دور اقتدار میں ہی اس سلسلہ میں بہت سا کام مکمل کر لیا گیا تھا۔ (12) پاکستان کے لئے متفقہ آئین بنایا (13) بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ کیا‘ جس میں بھٹو صاحب نے یہ منوایا کہ بھارت اور پاکستان دوطرفہ تعلقات کے ذریعے کشمیر سمیت اپنے تمام مسائل حل کریں گے۔ (14) عام پاکستانیوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کئے گئے۔ اس سے قبل ریاستی اور حکومتی طور پر عام پاکستانی کے لئے اپنی پہچان یا تعارف کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں تھا۔ پاسپورٹ جاری ہونے کے باعث ہی لاکھوں پاکستانی مڈل ایسٹ سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں آباد ہوئے اور اس سے اربوں روپیہ زرمبادلہ کی صورت میں پاکستان آیا۔ (15) لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقادکرایا گیا۔ یہ وہ واحد اسلامی کانفرنس تھی جس میں فلسطین اور کشمیر کو عالم اسلام کے مسائل قرار دلوایا گیا۔ (16) سردار دائود کے ساتھ افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد باقاعدہ بائونڈری لائن بنانے کا معاہدہ کیا۔
بائونڈری لائن کمیشن کے تحت بھٹو صاحب نے سردار دائود سے یہ تسلیم کرا لیا تھا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان عالمی سرحد کو تسلیم کریں گے۔ دہشت گردی کے چشمے اسی پاک افغان سرحد سے پھوٹتے رہے ہیں۔ یہ وہی ''ہوائی سرحد‘‘ ہے جہاں سے ہزاروں لوگ روزانہ پاکستان اور افغانستان آرپار ہوتے ہیں۔ پاکستانی‘ جن کے مقدر میں دہشت گردی لکھ دی گئی ہے‘ اگر کہیں بھٹو کے لکھے بائونڈری کمیشن کے ''تعویز‘‘ کو گلے میں ڈال لیتے تو ہمارا اتنا جانی اور مالی نقصان نہ ہوتا۔ بھٹو ایک ذہین اور محب وطن لیڈر تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قائد اعظم ؒ کے بعد بھٹو سب سے بڑے قائد تھے تو رتی برابر غلط نہ ہو گا۔ بھٹو کے اندازِ فکر اور ان کے رستے پر چلتے ہوئے پاکستان کو ایک خوشحال اور پُرامن ملک بنایا جا سکتا تھا مگر افسوس بھٹو کو رستے سے ہٹا کر ایسے راستے بنائے گئے جو قبروں میں کھلتے تھے ؎
پیلے چہرے، ڈوبتے سورج، روحیں گہری شامیں
زندگیوں کے صحن میں کھلتے قبروں کے دروازے
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی سیاست کا ایک ایسا فیکٹر ہیں‘ جس کے اثرات آج تک موجود ہیں۔ بھٹو صاحب کے عدالتی کے قتل کے بعد ان کے بیٹوں شاہ نواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کو بھی قتل کیا گیا۔ ستم یہ کہ مرتضیٰ بھٹو کو اس وقت قتل کیا گیا‘ جب ان کی حقیقی بہن بے نظیر بھٹو اس ملک کی وزیر اعظم تھیں۔ عوام کے ووٹوں سے بنائے گئے وزیر اعظم کس قدر بے اختیار ہوتے ہیں‘ اس کا ثبوت بے نظیر کے دور میں مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہے۔ 27 دسمبر 2007ء کی شام عوام کے ووٹوں سے دو مرتبہ منتخب ہونے والی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو‘ جو تیسری بار وزارت عظمیٰ کی ہاٹ فیورٹ امیدوار تھیں، کو بھی راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ یہ وہی شہر ہے جہاں ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو‘ جو تیسری دنیا کے عظیم لیڈر اور پاکستان کے سب سے بڑے اور مقبول قائد تھے‘ کو پھانسی دی گئی۔ ایک طرف بھٹو کے اہل خانہ کو ان کی میت کا آخری دیدار نہ کرنے دیا گیا اور دوسری طرف آمر نے راولپنڈی جیل کو اس لئے مسمار کرا دیا کہ بھٹو کی یادگار نہ بنالی جائے۔ محسن نقوی نے کہا تھا:
سنا ہے زلزلہ آتا ہے عرش پر محسن
کہ بے گناہ لہو جب سنِاں پہ بولتا ہے
چرب زبان اگر جلتے ہوئے پاکستان کے حالات کو کوئی اور عنوان دیں تو یہ اس مظلوم قوم کے ساتھ آخری ظلم ہو گا لیکن سچ یہی ہے کہ قوم بھٹو کے قتل کا قصاص ادا کر رہی ہے۔ جب تک بھٹو کے عدالتی قتل کا گناہ صدق دل سے قبول کرکے اندرونی اور بیرونی سیاست کا قبلہ درست نہیں کیا جائے گا قوم یہ قصاص ادا کرتی رہے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں