"TSC" (space) message & send to 7575

البم

گھرمیں ضروری کاغذات تلاش کررہاتھا کہ پرانی تصویروں پر مشتمل البم ہاتھ لگ گئی۔البم کو جھاڑ پونچھ کر دیکھنا شروع کیاتو یادوں کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے دور نکل گیا جہاں گذرے وقتوں میں رونماہونے والے کئی ایک واقعات پکی فصلوں کی طرح میرے سامنے لہلہانے لگے ۔ البم میں سجی ان تصویروں میں سیاست اور ثقافت کے کئی ایک چاندچہروں کے ساتھ صحافت کا یہ دُم دار ستارہ بھی چمک دمک رہاہے۔ تصویر بتاں کے بارے میں کہاگیا: ؎
چند تصویرِ بتاں، چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
مرنے کے بعد گھر سے ساماں نکلنے کا وقوعہ تو پرانا ہوچکا اب تو جیتے جی ایسا اسلحہ برآمد ہوتاہے جس کے لئے سپر پاور کوتردید کرنا پڑتی ہے کہ ہمارے اسلحہ کی ''پیروڈی ‘‘ تیار کی گئی ہے۔تصویریاد وں کا 'ڈاکومنٹ‘ ہوتی ہے۔اگر یادیں بہت زیادہ دلخراش ہوں جس میں زندہ جل جانے والوں کی تعداد سینکڑوں ہوتو 'ڈاکومنٹری‘ کہلاتی ہیں۔ہمارے ہاں پہلے فلمیں بناکرتی تھیں۔ ایک عرصہ سے ڈاکومنٹریز بننے لگی ہیں۔فلموں میں ہیرواور ہیروئن ہوتے تھے۔ ہیرورومان پسند اور ہیروئنیں نیک پروین ہوا کرتی تھیں لیکن ڈاکومنٹریز کے کردار عموماً بھائی لوگ ہوتے ہیں۔ بھائی لوگوں کے اوپر ایک بھائی ہوتے ہیں،معاملات بگڑ جائیں تو بھائی ،بھائی لوگوں کی دھلائی بھی کردیتے ہیں۔ڈاکومنٹ اور ڈاکومنٹریزسے احتراز برتتے ہوئے تصویرِبتاں کی بات کریں تو میرا گھر ایک مندر دکھائی دیتا ہے ۔اس مندر کو اگر سومنات سمجھاجاوے تو بھی غلط نہ ہوگاکیونکہ اس میں دیوتائوں کے ساتھ ساتھ دیویوں کی تصویریں بھی کثرت سے ''برآمد ‘‘ ہوسکتی ہیں۔یہاں دیوی سے مراد سری دیوی سے لی جائے ۔ بھارتی فلم انڈسٹری میں دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کا کمرشل کوڈ دیوتاہے۔ درج ذیل فلمی شخصیات سے میری ملاقاتیں رہی ہیں اس لیے ان کے ساتھ اتاری گئیں تصویریں ذاتی البم میں موجود ہیں۔البم میں ہیمامالنی،شرمیلاٹیگور ،وحیدہ رحمان اور سائرہ بانو کے علاوہ آج کی سرسوتیوں میں ایشوریا رائے، سشمیتاسین، رانی مکھرجی، انوشکاشرما ، قطرینہ کیف اور دیپکا پوڈکون کے علاوہ کئی ایک ڈپٹی دیویاں بھی شامل ہیں۔ بالی وڈ میں چونکہ فلمی ہیروئنوں کو دیوی کہاجاتاہے اس لیے ان کے ساتھ اتری تصویروں کی نسبت سے اپنے گھر کو تمثیلی طور پر سومنات کا مندرکہہ رہاتھا،براہ کرم اس پانچ مرلہ قطعہ اراضی پر سترہ حملوں کی سلسلہ وار سیریل کا ارادہ ترک کیجئے گا۔
ایک تصویرمیں ،میں کسی محفل میں اداکارہ ریما خان کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہوں۔یہ تصویر سینئر صحافی طفیل اختر نے اپنے پندرہ روزہ فلمی میگزین میں شائع بھی کی تھی ۔طفیل اختر کو ہم پیار سے دادا کہتے ہیں۔ دادا نے '' دادوں‘‘ والی حرکت کی ریمااور میری اس تصویر کا کیپشن یوں جمایا ۔ ''مقامی اخبار کے جواں سال کلچرل رپورٹر معشوق چوہدری اداکارہ ریما سے محوِگفتگو ہیں‘‘۔کیپشن میں شرارت یہ تھی کہ میں جس اخبار سے وابستہ تھا وہاں میرے سینئر معروف فلمی صحافی عاشق چوہدری تھے جن کی نسبت سے مجھے معشوق چوہدری قراردیاگیاتھا۔
ایک تصویر میں، میں اداکارہ زیبابختیار کو دوپٹہ اوڑھا رہا ہوں۔ میرے ساتھ شاہد جگو بھی زیبا بختیار کے دوپٹے کو سلجھا رہاہے۔ یہ تصویر کسی فلم کے سیٹ کی نہیں ‘روزنامہ پاکستان کے فلم ایڈیشن کے فوٹوشوٹ کے لئے اتاری گئی تھی۔ یہ 1993ء کا زمانہ تھا جب میں مذکورہ اخبار کے فلم‘ ٹی وی ایڈیشن کا انچارج ہوا کرتاتھا۔ شاہد جگو پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف ساکت عکاس استاد جگو کا شاگردِ خاص تھا۔ جگو آرٹ فلم انڈسٹری کے شعبہ ساکت عکاسی کاایک ایسانام‘ جو فلم کے ابتدائیہ میں ''ساکت عکاسی جگو آرٹ‘‘ کے عنوان سے نمایاں دکھائی دیا کرتاتھا۔شاہد جگو بلاکا ذہین تھا،وہ روانی میں ایسی بات کہہ جایاکرتاتھاکہ پیشہ ور جگت باز کا ہم پلہ لگتا۔اس نے اپنی عمر کا ایک حصہ فلم انڈسٹری میں سٹل فوٹوگرافر کے طور پر گزارا تھا۔ اس کے بعد وہ روزنامہ صحافت سے وابستہ ہوا تھا۔اپنی بنیادی تربیت اور ذہانت کی وجہ سے اس کی گفتگوبذلہ سنجی ،فقرے بازی اور مخصوص اصطلاحات سے بہت دلچسپ ہوگئی تھی۔ ہم جس اخبار سے وابستہ تھے اس کے مالک اکبر علی بھٹی مرحوم تھے جو وہاڑی سے ایم این اے بھی تھے۔مذکورہ اخبار کے ورکرز میں تنخواہ تقسیم کرنے کاکام اکبر بھٹی کے ایک کزن شوکت بھٹی کیاکرتے تھے ۔شاہد جگو نے شوکت بھٹی کا نام ''تنخواہ بھٹی‘‘ رکھاہواتھا۔ تنخواہ میں تاخیر ہوتی تو جگو کہاکرتا... یار آج پینتالیس تاریخ ہوگئی ہے اب تک تنخواہ نہیں ملی۔ اکبر علی بھٹی لاہور سے اپنے حلقے وہاڑی جاتے تو جگو بتایاکرتا... بھٹی صاحب آئوٹ ڈور چلے گئے ہیں۔نگارخانوں میں یہ اصطلاح اس وقت بولی جاتی تھی جب محمدعلی، زیبا،ندیم ،بابرہ شریف اور وحیدمراد جیسے سٹار ز کے ساتھ فلم کا یونٹ آئوٹ ڈور شوٹنگ پر گیاہوتاتھا۔شاہد جگو ایک زندہ دل انسان تھا مگر زیادہ دیر زندہ نہ رہا۔ماں باپ کے بعداس کابڑابھائی بھی انتقال کر گیاتھا۔ مجھے یاد ہے‘ میں اس کے بڑے بھائی کے جنازے میں شامل نہیںہوسکا تھا۔ جگو اپنے بھائی کو قبر میں اتار کر گھر واپس آ رہا تھا۔ پُرسے کیلئے میں نے اسے گلے سے لگایاتو اس نے کہا... بھائی! پیک اپ ہوگیا۔
ایک اور تصویر میں ،میں نواب زادہ نصراللہ خاں مرحوم کے ساتھ ان کے لاہور آفس واقع بوڑھ والا چوک میں موجود ہوں۔ میں اورمیرے ساتھی عمران الحق وقت مقررہ پر پہنچے تو ہمیں ایک بھی لمحہ ضائع کئے بغیر بلاروک ٹوک اندر بھیج دیاگیا۔ لیکن ہوایوںکہ داخلے کے بعد دوگھنٹے سے زائدعرصہ تک ہمیں نواب زادہ صاحب کی صحبتِ زریں میں خاموش بیٹھنا پڑا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ نواب زادہ صاحب قومی اخبارات کامطالعہ فرمارہے تھے اورہم چُپ سادھے بیٹھے رہے ۔ اتنے اخبار میںنے کسی اخبار کے دفتر میں بھی نہیں دیکھے۔نواب زادہ صاحب کے دفتر میں ،میں نے اردو اخبارات کے علاوہ پشتو، بلوچی، سندھی اور سرائیکی زبان کے اخبار بھی دیکھے تھے ۔ نواب زادہ صاحب علاقائی زبانوںکے یہ تمام اخبارات اردو اور انگریزی اخبارات کی طرح روانی سے پڑھ رہے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ رینجرز کے علاوہ اگر کوئی سول ایجنسی بھی تلاشی لیتی تو نواب زادہ کے ہاں سے عبرانی، دراوڑی اور آریائی ز بانوں کے اخبارات بھی ''بر آمد ‘‘ ہوسکتے تھے۔
میں اور میرا ساتھی آفس میں داخل ہوئے تو کچھ ساعتیں اخبارات سے نواب زادہ صاحب کا وجود تلاش کرنا ہمارے لئے مشکل تھا۔ نواب زادہ صاحب اخبارات میں گھرے اور گرے ہوئے تھے ،اگرچہ اخبارات مائع شکل میں نہیں ہوتے لیکن وہ منظر کچھ ایسا ہی تھا،مجھے یوں لگاکہ نواب زادہ صاحب اخبارات میں لتھڑے ہوئے ہیں۔یہ وہ مقام تھاکہ من میںڈوب کر سراغ ِ زندگی پاجانے کامقام سامنے آگیا۔نواب زادہ صاحب اخبارات کی شہ سرخیوں اور سرخیوں میں ڈوب کر سراغ ِسیاست پانے میں مصروف رہے اور ہمارے لئے مسئلہ یہ تھاکہ ہم نوابیت ،سیاست اور صحافت کی ''چراغ جپھی‘‘ چھڑانے سے قاصر تھے۔
یہ 1988ء کے دن تھے اورمیں نے عملی صحافت کا آغاز کیا تھا۔ میرے ایڈیٹر اطہر مسعود صاحب کی طرف سے دی گئی اسائن منٹ میں نواب زادہ نصرا للہ خاں کا غیر سیاسی انٹرویو بھی شامل تھا۔مجھے علم نہ تھاکہ نواب زادہ صاحب کا غیر سیاسی انٹرویو کرنا اتنا مشکل ہوگا۔ نواب زادہ صاحب سے غیر سیاسی انٹرویو کرنا اتنا ہی مشکل تھاجتنا حافظ سعید سے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر بات کرنا مشکل ہوتی ہے۔ اسائن منٹ چونکہ غیر سیاسی انٹرویو کرنا تھی اس لیے میں نے سارے سوالات غیر سیاسی لکھے تھے ۔مثال کے طور پر آپ کہاں پیدا ہوئے؟ بنیادی تعلیم کہاں سے حاصل کی ؟بچپن کیسے گذارا؟کیاآپ بچپن میں شرارتی تھے یاتب بھی سنجیدگی آپ کی طبع کا حصہ تھی وغیرہ وغیرہ۔
میری پریشانی اس وقت شدت اختیار کرگئی جب نواب زادہ صاحب ہر غیر سیاسی سوال کو سننے کے بعد یہ فرماتے کہ اگلاسوال کیجئے ۔نواب زادہ صاحب نے میرے سارے سوال یوں مسترد کردئیے جیسے ایک عرصہ تک عمران خان نون لیگ کی طرف سے مصالحت کی کوششوں کو ٹھکراتے رہے ہیں۔
پھر یکا یک یہ ہوا کہ میں بطور ایک آپرنٹس جرنلسٹ جرنلزم کے افق سے ہمیشہ کیلئے ڈوب جانے سے پہلے سراغِ صحافت پاگیا۔یہ سراغ ِصحافت ، دراصل سراغِ سیاست بھی تھا۔آئیڈیا یہ تھاکہ میں نے اپنے ہرسوال کے ساتھ سیاست کا سابقہ نتھی کرلیا۔میں نے نواب زادہ صاحب سے پوچھا کہ آپ جب پیدا ہوئے تو برصغیر پاک وہند کے سیاسی حالات کیسے تھے؟ آپ جب بچے تھے تو آپ کے ہم عمر بچوں کو سیاست کی شُد بُد تھی،نیز یہ بھی فرمائیں کہ کیا بچپن میں بھی آپ بچوں کی کسی تحریک کے قائد ِحز ب اختلاف رہے؟نواب زادہ صاحب میرے غیر سیاسی سوالات کو سیاسی سمجھ کر جواب دیتے رہے اورمیری اسائن منٹ پوری ہوگئی ۔مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ سیاست کوئی بُری شے نہیں ہوتی ،شرط صرف یہ ہے کہ سیاستدان نواب نصراللہ خان کی طرح پاک دامن ہوں۔وہ آڈر پر مال تیار کرنے کی مصداق کسی آمری ٹکسال میں لیڈر بننے کی بجائے عوامی حقوق کے علمبردار ہوں ۔میں نے مسکراتے ہوئے نواب زادہ نصراللہ خان کے ساتھ اپنی تصویر کو دیکھا اور پھر البم بند کردی ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں