"TSC" (space) message & send to 7575

ادب کے ہاں ڈکیتی

محبتوں کے شاعر احمد فراز کے گھر میں ڈکیتی کی واردات سے ادب کی دنیا میں سراسیمگی پھیل گئی ہے۔ منگل کو رات گئے ڈاکو اسلام آباد میں واقع احمد فراز کے گھر داخل ہوئے اور طلائی زیورات اور نقدی سمیت شاعرِ رومان کو زندگی میں ملنے والے تمام اعزازات بھی لوٹ کر لے گئے۔ ان اعزازات میں تمغۂ امتیاز، ستارۂ ہلال اور صدارتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی بھی شامل ہیں۔ نامور کالم نگار منو بھائی نے ڈکیتی کی اس واردات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکوئوں کو ایوارڈز کی کیا ضرورت تھی؟ فراز کے ہاں ڈاکے سے ڈاکوئوں نے اپنی ''کارکردگی‘‘ کا مظاہرہ کر دیا ہے، حکومت کو چاہیے کہ اب وہ انہیں (ڈاکوئوں کو) بھی تمغہ برائے حُسن کارکردگی سے نواز دے۔ اداکار سہیل احمد المعروف عزیزی نے فراز کے ہاں ڈاکے کو ادب پر ڈاکہ قرار دیا ہے۔ سینئر اور نامور کالم نگار نذیر ناجی نے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فراز کے ہاں ڈاکہ ڈالنے والے کوئی ناکام شاعر ہوں گے‘ جو مرحوم کا غیر مطبوعہ کلام چرانے آئے ہوں گے۔ شعلہ نوا کالم نگار حسن نثار نے فراز کے ہاں ڈکیتی کی واردات سے متعلق کہا کہ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں تخلیق کار مرنے کے بعد بھی عافیت سے نہیں، قوموں کا 'حال‘ لٹتا ہے ہم وہ بدنصیب ہیں جن کا 'ماضی‘ اور 'مستقبل‘ بھی لوٹا جا رہا ہے۔ ساغر صدیقی نے کہا تھا:
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
فراز کے ہاں ڈاکہ ڈالنے والے ڈاکو کون تھے؟ اخبارات میں جو تفصیلات شائع ہوئی ہیں ان کے مطابق ڈاکو دیوار پھلانگ کے گھر میں داخل ہوئے‘ انہوں نے فراز کے بیٹے اور بہو کو رسیوں سے باندھ کر گھر میں موجود نقدی، زیورات، لیپ ٹاپ حتیٰ کہ ایوارڈز بھی سمیٹے اور چلتے بنے۔ نامور اینکر پرسن حامد میر پر احمد فراز بڑی شفقت فرماتے تھے۔ حامد میر سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ڈاکو غلط جگہ آ گئے تھے‘ اگرچہ وہ نقاب پوش تھے لیکن اُمید ہے جلد گرفتار ہو جائیں گے‘ کیونکہ امیچور ڈاکو گھر کے مختلف مقامات پر اپنے فنگر پرنٹس چھوڑ گئے ہیں‘ نادرا کے ریکارڈ سے انہیں باآسانی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
اداکار سہیل احمد نے فراز کے ہاں ڈکیتی کو ادب پر ڈاکہ قرار دیا۔ نذیر ناجی صاحب اس واردات کے پیچھے ادبی سرقہ کرنے والے کسی ڈاکو کا ہاتھ دیکھتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ قانون نافذ کرنے والے محافظ جب ادب کے اس ڈاکو کو گرفتار کریں تو مال مسروقہ میں فراز کی غزلیں، نظمیں اور رباعیاں برآمد کر لی جائیں۔ احمد فراز مرحوم زندگی میں ڈاکوئوں کے ہاتھوں لٹنے سے محفوظ رہے لیکن اہلِ دنیا کے ہاتھوں اپنے اور صاحب دل حضرات کے لوٹے جانے کے مقدمے میں مفت بروں کو انہو ں نے یوں نامزد کیا تھا:
اہلِ دنیا نے تجھی کو نہیں لوٹا ہے فراز
جو بھی تھا صاحب دل مفت بروں تک پہنچا
تفصیلات کے مطابق فراز کے گھر میں ڈکیتی کرنے والے ڈکیت پشتو سپیکنگ تھے۔ فراز کی مادری زبان بھی پشتو تھی۔ اس نسبت سے کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکو پشتو سپیکنگ ''اہل زبان‘‘ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مال و دولت کے لحاظ سے ڈکیتی کی واردات چاہے چھوٹی ہی کیوں نہ ہو اس کی دہشت بہت ہوتی ہے۔ متاثرہ شخص اور اہل خانہ ایک مدت تک اس کے نفسیاتی اثر سے باہر نہیں نکل پاتے۔ فراز کے ہاں ڈکیتی کرنے والے کوئی بدذوق ڈاکو لگتے ہیں۔ ڈاکہ زنی کے بھی کچھ اُصول ہوتے ہوں گے۔ ڈاکو عموماً مال و دولت لوٹتے ہیں، ایوارڈز لوٹنے والے ڈاکو ڈاکہ زنی کی اخلاقیات سے ماورا اور آزاد تھے اس لیے ڈکیتی کی اس واردات کو ''آزاد ڈکیتی‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ادب کی دنیا میں ادبی ڈکیتیوں کا رواج پرانا ہے۔ ادبی ڈاکو شعری زمینیں اور تخیلات چُراتے رہے ہیں، ردیف اور قافیے سرقہ کرتے ہیں اور اس نوع کی وارداتیں کرنے والے ادبی شیدے میدے عوام میں تو معتبر کہلاتے ہیں لیکن ادب کے تھانے اور کچہریوں میں ان کے خلاف مقدمات درج ضرور کر لئے جاتے ہیں۔ ادبی ڈاکہ زنی پرانی روایت ہے اور اصلی شاعر ادیب ایسے رابن ہڈوں سے لٹتے بھی رہے ہیں۔ یہ ایسے رابن ہڈ ہوتے ہیں جو ادبی ڈاکے میں لوٹا ہوا مال مسروقہ کسی غریب مسکین شاعر ادیب کو دان کرنے کی بجائے سارا گھر لے جاتے ہیں۔
ادبی ڈاکے اور ڈاکووں کا خیال آیا تو چشمِ زدن میں مجھے شاعروں اور ادیبوں کی تمام آبادی ہی غیرمحفوظ دکھائی دینے لگی۔ فراز کے ایوارڈز لٹنے کے بعد فیض کو دیا گیا امن کا لینن ایوارڈ بھی خطرے میں ہو سکتا ہے، احمد ندیم قاسمی کی فصل گل، منیر نیازی کے اشک ِرواں، غالب کا تصور جاناں اور میر کا تغزل بھی غیرمحفوظ ہو سکتا ہے۔ بہادر شاہ ظفر کی عمر دراز، مولانا حسرت موہانی کی پاک بازی، داغ دہلوی کے داغ، میر انیس کا مرثیہ، محسن نقوی کا نوحہ، مجید امجد کی شب رفتہ، شاد
عظیم آبادی کی غنائیت اور شیرینی، خواجہ میر درد کی روحانیت اور مبارک عزیز آبادی کی وضع داری کی بھی خبر رکھنی چاہیے۔ ہمیں جگر مراد آبادی کا ترنم، رنجور عظیم آبادی کی نکتہ آفرینی کے ساتھ ساتھ ن م راشد کے کوزہ اور اختر شیرانی کے خوابیدہ جہان‘ دونوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ ساغر صدیقی کے عالم مدہوشی میں کئے سجدے اور ناصر کاظمی کی لہر اور چھوٹی بحر بھی عزیز ہونی چاہیے۔ اسی طرح پروین شاکر کی نزاکت، ظفر اقبال کی شاعرانہ ضخامت، نجم الدین آبرو کی روایت پسندی اور حقیقت پسندی، نادر کاکوروی کے انگریزی کی شاہکار شاعری کے ترجمے، مصحفی کی بصیرت اور آہستہ خرامی، اسماعیل میرٹھی کی دیہی زندگی کی تصویری مہارت‘ ولی کی شاعرانہ مہمیز اور حبیب جالب کی شاعرانہ نعرہ بازی کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ غلام بھیک نیرنگ کی تحریک پاکستان کے لئے شاعرانہ تحریک، جمیل مظہری کی بوقلمونی اور جوش ملیح آبادی کی یادوں کی بارات کی رونقیں ماند نہیں پڑنی چاہئیں۔ جوش نے ڈاکوئوں اور مجرموں کیلئے کہا تھا:
مجرموں کے واسطے زیبا نہیں یہ شور و شین
کل یزید و شمر تھے اور آج بنتے ہو حُسین
غیرمحفوط شاعروں اور ادیبوں کی فہرست طویل ہے۔ غالب کے تنگنائے غزل کی طرح ''تنگ نائے کالم‘‘ ہاتھ روک رہا ہے‘ لیکن بعض احباب کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ غیر محفوظ شعرا میں امجد اسلام امجد کا اسلام، عطاالحق قاسمی کی سفری شاعری، وصی شاہ کا کنگن اور میرے دوست فرحت عباس شاہ کی شام کا دھیان بھی رکھنا ہو گا۔ جہاں فرحت عباس کی شام کا دھیان رکھنا ہو گا وہاں اسلم کولسری کی افسردگی پر بھی نگاہ رکھنا ہو گی۔ لمحۂ سکوں کے لٹنے کی ایک واردات کا مقدمہ اسلم کولسری نے یوں درج کرایا تھا:
اک لمحۂ سکوں تو ملا تھا نصیب سے
لیکن کسی شریر صدی نے چُرا لیا
حبیب جالب نے امیدوں کے لٹ جانے کا گلہ یوں کیا تھا:
لُٹی ہر گام پر اُمید اپنی
محرم بن گئی ہر عید اپنی
شاعروں کو اپنی شاعری کی طرح عاشقی بڑی عزیز ہوتی ہے۔ وہ مرتے مر جاتے ہیں لیکن عاشقوں کی فہرست میں معتبر کہلانے کی ضد ضرور کرتے ہیں، فراز نے کہا تھا:
مرے نہ لٹ کے بھی ہم قیس و کوہ کن کی طرح
اب عاشقی میں ہماری مثال جو بھی ہو
سوال یہ بھی ہے کہ فراز کے گھر سے ان کے ایوارڈز چُرانے والے کیا فراز کی شاعرانہ عظمت اور وہ مقبولیت اپنے نام ٹرانسفر کرا سکتے ہیں جو مرحوم کو ان کے چاہنے والوں نے بخشی ہے؟ فراز اپنی شاعری کے 1664 صفحات پر مشتمل دیوان ''شہر سخن آراستہ ہے‘‘ میں کہتے ہیں کہ مجھے اپنے بارے میں یا اپنی شاعری کے بارے میں نہ کوئی زعم‘ نہ دعویٰ ہے۔ ایک بات ضرور ہے میرے پڑھنے والوں نے مجھے ہمیشہ محبت دی ہے۔ فراز نے کہا تھا:
فراز تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا
زمانہ صاحب ِزر اور صرف شاعر تو
ڈاکو فراز کے تمغات اور تمغہ برائے حُسن کارکردگی تو چُرا لے گئے ہیں لیکن ان کی فنی کارکردگی اور شاعرانہ حُسن نہیں چُرا پائیں گے۔ نیک نامی اور قبول عام کے جملہ حقوق عوام کے دل و دماغ میں محفوظ ہوتے ہیں‘ جو جعلی طور پر دوسرے کے نام ٹرانسفر نہیں ہو سکتے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں