ا یک طویل عرصہ سے راحت فتح علی خاں اور عاطف اسلم کے البمزبھی میوزک مارکیٹ میں غیر مقبول ہو چکے ہیں۔ ایسے میں صولت مرزا ،عارف علوی اور عمران خان کے آڈیو کیسٹس منظر عام پر آگئے ہیں۔ہماری سیاست میں جہاں سیاستدانوں کے ان آڈیو اور ویڈیو البمز کی اہمیت ہوتی ہے وہاں انہیں منظر عام پر لانے والی ''ریلیزنگ کمپنیوں ‘‘کاکردار بھی اہم ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب پی ٹی آئی اور نون لیگ کی حکومت میں جوڈیشل کمیشن پر سمجھوتہ ہوگیاتھا‘ بعض قوتیں اس جادو کی جپھی سے ناخوش دکھائی دے رہی ہیں۔ لہٰذاوہ اس معتدل سیاسی فضا کودوبارہ کشیدہ کرنا چاہ رہی ہیں۔ اس لیے وہ اہتمام کررہی ہیں کہ ''ٹٹ گئی تڑک کرکے‘‘ والی لوک داستان دہرائی جائے۔
نیوز اینکرز غالباً اپنی پیشہ ورانہ مجبوریو ں سے زیادہ عادت سے مجبور ہوکر باجے کی تیسری سپتک(اونچے سُروں ) میں بیان کررہے ہیں کہ ملکی سیاست میں تہلکہ مچ گیاہے۔مراد یہ ہے کہ عمران خان اور عارف علوی کے درمیان ہونے والی خفیہ بات چیت کو مقامی واٹر گیٹ سیکنڈل سمجھا جائے۔آڈیوکلپ میں مبینہ طور پر عارف علوی، عمران خان کوٹیلی فون پر بتارہے ہیں کہ لوگوں نے پاکستان ٹیلی وژن پر قبضہ کرلیاہے اور اس کی نشریات بھی بند ہوگئی ہیں۔ا س کے بعد عمران خان کی آواز آتی ہے کہ اچھا ہے ۔اچھا ہے ۔عارف علوی اس گفتگو میں عمران سے کہتے ہیںکہ ہم نے رات دیر گئے تک الطاف حسین کے فون کا انتظار کیامگر انہوں نے فون نہیں کیا۔ پی ٹی آئی نے متحدہ سمیت دیگر جماعتوں کو بھی دعوت دی تھی کہ وہ دھرنے میں ان کے ساتھ شامل ہوں ۔اس رات اسی سلسلے میں الطاف حسین کے فون کا انتظار کیاجارہاتھا۔ عمران خان سخت لہجے میں کہتے ہیںکہ مزید پریشر بڑھا یاجائے میںچاہتا ہوںکہ نوازشریف جوائنٹ سیشن سے پہلے ہی استعفیٰ دیں۔ آڈیو ٹیپ میں بعض مقامات پر عمران کی آواز پر Beepلگادی گئی ہے،فقرے کی ساخت اور آواز کی برہمی سے تاثر ملتا ہے کہ وہ وزیر اعظم کوبُرا بھلاکہہ رہے ہیں۔ ''دنیانیوز‘‘ کی اینکر عظمیٰ نعمان نے ہا رون الرشید صاحب سے سوال کیاکہ یہ ٹیپ کس نے ریکارڈ کی ہوگی اور اسے منظر عام پر لانے کا سیاسی فائدہ کون اٹھاسکتا ہے ؟ہارون صاحب نے اپنی انگلیوں کی پوروں پر ملک کی ایجنسیوں کے نام گنتے ہوئے انہیں شک کا فائدہ دے کرمعاملے سے جزوی طور پر علیحدہ کردیا ۔ پھر گمان کیاکہ نون لیگ کی حکومت اس وقت کشیدگی نہیںچاہتی ۔اس سے ایم کیوایم فائدہ اٹھارہی ہے لیکن وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ پرائیویٹ طور پرکسی لیڈر کی ٹیلی فونک بات چیت ریکارڈ کر سکے۔ کسی کا نام لئے بغیر وہ اشاریے کنایے میں بات سمجھا گئے۔
ایک دوسرے ٹی وی شو میں چڑی بابانے انکشاف کیاکہ عمران خان اورعارف علوی کی گفتگو ''ریلیزنگ کمپنیوں ‘‘ نے ہی ریکارڈ کی کیونکہ اس وقت سیاسی رہنمائوں کی باتیں ریکارڈ کی جارہی تھیں مگر اب ایسانہیں کیاجارہا۔ اس کا کریڈٹ فوج کی اعلیٰ قیادت کوجاتاہے۔ بابا نے دھڑلے سے کہاکہ عمران اور علوی کی ٹیپ بالکل اصلی ہے ،عمران ظاہر ی طور پر اصولوں کی سیاست کی بات کرتے ہیںمگر اندر سے وہ بھی موقع پرست ہیں اور حصول اقتدار کیلئے سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ آڈیوکلپ کے بارے میں عارف علوی کاکہنا ہے کہ اس میں آوازیں تو میری اور عمران خان کی ہیں لیکن منظر عام پر لائی گئی ٹیپ میں ہماری گفتگو کمپیوٹر کے ذریعے کانٹ چھانٹ کر تیار کی گئی ہے۔عمران خان نے میڈیا سے کہاکہ انہوں نے ٹیپ سنی نہیں لیکن اس طرح خفیہ طور پرریکارڈنگ کرنا جرم ہے لہٰذا ایسا کرنے والے کو سزا ملنی چاہیے۔متحدہ کی لیڈر شپ کے حوالے سے عمران نے کہاکہ میں نے ٹیپ میں یہ نہیں کہاکہ ''فلاں شخص کو قتل کردو،لاش بوری میں ڈال کر وہاں پھینک دو اور بھتہ وصول کرکے مجھے لندن میں بھیجواو‘‘۔
عمران اور عارف علوی کا یہ آڈیوکلپ اتنی بار ٹی وی پر نشر کیاجاچکا ہے کہ شایدبریٹنی سپیرز کے البم کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیاہو گا۔ سیاست کی میوزک مارکیٹ میں بھی سولو اور ڈئیوٹ دونوں طرح کے البمزمقبولیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ دوآوازوں پر مشتمل مکالمے یا گیت کو Duetکہاجاتاہے۔ ماضی میں جسٹس ریٹائرڈ ملک قیوم اور خادم اعلیٰ شہباز شریف کی ایک ڈئیوٹ ٹیپ بھی مشہور ہوچکی ہے۔میوزک لوورز لتا منگیشکر اور محمد رفیع کی ڈئیوٹ کیسٹس ہاتھوں ہاتھ خریدتے رہے ہیں۔ لتا اور کشور کی طرح نورجہاں اورمہدی حسن کی جوڑی بھی کبھی نیوز ی لینڈ کرکٹ ٹیم کی طرح ہاٹ فیورٹ ہوا کرتی تھی۔بھارتی گلوکارہ آشابھوسلے کیبرے سونگ گانے کی ماہر سمجھی جاتی تھیں۔آرڈی برمن کی تھرلنگ کمپوزیشن جب آشابھوسلے گاتی تھیں تو کیبرے ڈانسنگ کوئین ہیلن اپنی پرفارمنس سے ثابت کرتی تھیںکہ وہ اس کام کی ورلڈ چمپیئن ہیں۔ کیبرے ڈانس کے حوالے سے جیسے ہیلن کاکوئی جوڑ نہیں۔ جبکہ سیاسی پیشین گوئیاںکرنے میں شیخ رشید کا کوئی توڑ نہیں۔الطاف بھائی کے ٹیلی فونک خطابات نے بھی صابری برادران اور عزیز میاں کی طرح میلے لوٹے ہیں لیکن اب شاید انہیں قومی نشریاتی رابطہ پہلے کی طرح سماں باندھنے کے لئے دستیاب نہیں ہوا کرے گا۔
سولو اور ڈئیوٹ آڈیوٹیپ کی طرح ہمارے ہاں وکی لیکس کا چرچا بھی ہوا تھا۔یوں تو اس میں ہمارے اکثر وبیشتر سیاسی وغیر سیاسی رہنمائوں کی گفتگو منظر عام پر لائی گئی تھی مگر مولانا فضل الرحمان کی خواہشات پر مبنی وکی لیکس آرکائیو میں محفوظ کرنے کے لائق تھی۔ مولانا نے خاتون امریکی سفیر سے درخواست کی کہ آپ (امریکہ) ہمیشہ بغیر داڑھی والے لوگوں کو وزیراعظم بنانے کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں ،کبھی باریش وزیر اعظم بھی آزمائیں۔ مولانا کی اس آرزو کا انگریزی ترجمہ مشاہد حسین نے کیاتو امریکی سفیر قہقہے لگانے لگیں۔اسی طرح ایک لیکس ( وکی نہیں) منظر عام پر لائی گئی تھی جس میں ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت‘ جوبھارت سے تعلقات کی بھی خواہاں رہی ہے‘ سرحد کے اس پار کسی پردہ نشیں کو محمد رفیع اور لتا کا گایاڈئیوٹ سنا رہی ہے۔ گیت کی استھائی یوں ہے ''جیت ہی جائیں گے بازی ہم تم ،کھیل یہ ادھوراچھوٹے نہ، پیار کا بندھن جنم کا بندھن جنم کابندھن ٹوٹے نہ‘‘۔ پاک بھارت تعلقات میں دوستی کے خواہشمند یہ وی وی آئی پی عاشق انترہ تو اور بھی دل سے گایا کرتے تھے کہ ''ملتے ہیں جہاں دھرتی اور گگن آئو وہیں ہم جائیں، تو میرے لئے میں تیرے لئے اس دنیا کو ٹھکرائیں‘‘۔سرحد پار اس رومانٹک فلم ''عاشقی تھری ‘‘کا انجام بھی وہی ہوا جوایسی فلموں کا ہوا کرتاہے یعنی اُدھر تم اِدھر ہم ۔
ماضی میں ہمارے ہاں عالمی سیاست کے کچھ ایسے ڈئیوٹ گائے گئے جن کے اثرات نے ہماری سماجی ،ثقافتی ،معاشی اور معاشرتی زندگیوں پر تباہ کن اثرات مرتب کئے ۔امریکی صدر ریگن اور ہمارے محب جنرل صدر ضیاالحق نے مل کر جو ''جہادی ڈئیوٹ‘‘ گایاتھا اس سے سب کچھ خاکستر ہوگیا۔'ریگن ضیاڈئیوٹ‘ تو دیپک راگ سے بھی خطرناک ثابت ہوا۔اسی طرح 'بش مشرف ڈئیوٹ‘یا 'مشرف تھیچر ڈئیوٹ‘ نے بھی بربادی کی اس داستان میں اور بھی زہریلے رنگ بھرے۔ بحیثیت قوم ہم ان فصلوںکو کاٹ رہے ہیں جن کو بونے سے پہلے عوام کی رائے نہیں لی گئی تھی۔ ابھی تو ہم دہشت گردی کی 35سالہ پرانی جنگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں کہ ایک نئی جنگی دوزخ میں کودنے کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔اِکا دُکا افراد کے سوا سبھی نے یہ کہاہے کہ پاکستانی افواج کویمن اور سعودی عرب کی جنگ سے دور رہنا چاہیے۔عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ کا حصہ بننا آسان ہوتا ہے لیکن اس سے باہر نکلنا بہت مشکل ہو جا تاہے۔امریکہ اور افغانستان کے جنگی وسائل میں کوئی موازنہ نہیں لیکن اس 12سالہ جنگ کے بعد بھی سپر پاور کوسمجھ نہیں آرہی کہ میدان سے بھاگنا کیسے ہے ؟سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ایران بھی ہمیں عزیز ہونا چاہیے،حرمین شریفین کی حفاظت مسلمانوں پر فرض ہے لیکن اس کی حفاظت کی ذمہ داری پروردگار نے اپنے ہاتھ لے رکھی ہے لہٰذاپریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔
رجزیہ گیت گانے والے جنگجو کلاکار کبھی خود محاذ جنگ پر نہیں جاتے‘ صرف جنگی ترانے گا کر عوام اور افواج کا خون گرماتے ہیں۔ پاک افواج ملک میں دہشت گردی کی آخری جنگ لڑرہی ہیں ،انشااللہ ہم یہ جنگ جیتیں گے،عوام کو چاہیے کہ آخری جنگ جیتنے سے پہلے ہر قسم کی سولو اور ڈئیوٹ البم کو مسترد کردیں جس میں کسی نئی جنگ کی ترغیب دی جارہی ہو۔