"TSC" (space) message & send to 7575

اُترن پہنو گے ؟

یہ 3اگست کی رات کا قصہ ہے۔میں اور نامور ٹی وی ڈرامہ پروڈیوسر ایوب خاور شیخ زید ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ڈیوٹی پر موجودعملے کی ’’فرض شناسی ‘‘ جھیل رہے تھے،جبکہ مریض شدید درد سے کراہ رہاتھا۔ ایمرجنسی وارڈ میں موجود سٹاف نرسیں اورڈاکٹر سبھی یوں تو اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے مگر لگ رہاتھاجیسے وہ کسی دوسرے کی ’’پراکسی ‘‘ کررہے ہوں۔ خاور صاحب کے داماد طاہر ادریس کو اسی شام افطاری کے وقت ایمرجنسی وارڈ میں لایاگیاتھا۔ان کی بیٹی بیلانے پریشانی کے ساتھ بتایاکہ اسکے شوہر نے روزہ افطار کرنے کے لئے جونہی پانی کاایک گھونٹ حلق سے نیچے اتارا تو اسی لمحے اسے یوں محسوس ہواجیسے آری سے کوئی اس کاسینہ کاٹ رہاہے۔ٹھیک دس منٹ بعدبیلااپنے شوہر کو لے کر شیخ زیدہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ پہنچ چکی تھی۔اس واقعہ کی اطلاع خاور صاحب کو اسلئے نہیںدی گئی تھی کیونکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کی انجام دہی کے لئے میرے ہمراہ تھے۔ایوب خاور اورمیں گذشتہ تین دنوں سے ’’دنیانیوز ‘‘ کے عیدسپیشل شو کی تیاریوں میں اکٹھے مصروف تھے۔ اہل خانہ انہیںپریشان نہیں کرناچاہتے تھے مگر جب رات گیارہ بجے تک ان کے داماد کی طبیعت بحال نہ ہوئی تو انہیں ٹیلی فون کرکے اطلاع دی گئی۔ خاور صاحب نے اپنی بیٹی کا فون سنا تو تڑپ اٹھے ۔ صرف ایک لمحے میں مجھے ان کی وجیہ اوربھاری بھرکم آواز پر غم کی خراش سنائی دی۔ انہوں نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا’’طاہر ! گاڑی کارخ شیخ ہسپتال کی طر ف موڑ دو ،میرا داماد شیخ زید ہسپتال میں ہے‘‘ ۔صرف چند لمحوں میں ہم دونوں ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میںتھے جہاں بیلااپنے شوہر کاہاتھ تھامے بے یارومددگار کھڑی تھی۔بیلانے اپنے والد کو دیکھاتو اس کی آنکھوں میں رکے ہوئے آنسو چھلک پڑے ۔ بیٹی کے لئے باپ کیاہوتاہے اوربیٹی کا دکھ باپ کے لئے کس قسم کا غم ہوتا ہے میں یہ اس لیے سمجھ سکتا ہوں کیونکہ ردا فاطمہ میری اکلوتی اولاد ہے۔بیلانے آنسو پونچھتے ہوئے کہا :’’پاپا !طاہر کو ان آٹھ سالوں میں کبھی کچھ نہیںہوا ،لیکن آج جس قسم کی درد سے یہ دوچار ہوئے ہیں میرے خدایاکبھی کسی کو نہ ہو‘‘۔یہ کہتے ہوئے بیلانے خاور صاحب کو ٹریٹمنٹ چارٹ دکھایا جس پر لگ بھگ نودس قسم کی پین کلر میڈیسن درج تھیں۔ بیلانے بتایاکہ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے کہا ہے کہ یہ سرجری کا کیس ہے ،سرجن ڈاکٹر کوایمرجنسی کال دی گئی ہے ،وہ 10منٹ تک آجائیں گے ۔لگ بھگ ایک گھنٹے تک جب سرجن بہادر ایمرجنسی وارڈ میں نہ پہنچے تو میں نے اپنے صحافتی نیٹ ورک کو متحرک کرنے کی کوشش کی ۔اس کوشش میںمجھے منہ کی کھانی پڑی ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ نیٹ ورک سے وابستہ اکثروبیشتررات 12بجے سے پہلے اپنے فون آف کرچکے تھے ،جو اونگھ رہے تھے وہ شاید اس وقت میری مدد کرنے سے قاصر تھے۔ ایمرجنسی وارڈ کسی میدان جنگ کا نقشہ پیش کررہاتھا۔ہر بیڈ پر مریض تڑپ رہاتھاا ور اسکے ارد گرد نرسیں اور ڈاکٹر روبوٹ کی طرح ڈیوٹی سرانجام دینے میں مصروف تھے۔ڈاکٹر ایک مریض کی فریاد سنتا تو کئی ایک لواحقین اسے اپنے مریض کے مرض کی ہزارداستان سنانے کے لئے لائن میں لگے ہوئے ہوتے۔اس لمحے میرے دل میں یہ خیال آیاکہ ہمارے مریض اس لیے بھی بے یارومددگار پڑے رہتے ہیںکیونکہ18سے 21کروڑ کی آبادی کے لیے علاج معالجہ کی سہولیات نہ ہونے کے برابرہیں۔ حکمران طبقہ اپنے علاج معالجہ اورسالانہ چیک اپ کے لئے بیرونی دنیا کے وی وی آئی پی ہسپتالوں سے رجوع کرتے ہیںجبکہ عوام کے لیے چیرٹی ہسپتالوں ،ایمرجنسی وارڈوں اورآخری آرام گاہوں کے طور پر قبرستانوں کی ’’آپشن ‘‘ ہی رہ جاتی ہے۔ رات ایک بجے کے قریب ایک جونیئر سرجن مریض کے مرض کی تشخیص کے لیے آیا۔ جس نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مختلف ٹیسٹوں کے ساتھ سینے کے ایکسرے کرائے۔ایکسرے رپورٹ میں واضح طور پر معدے میں سوراخ دیکھا جاسکتاتھامگر رات دیر گئے ڈیوٹی پر موجودمسیحائوں میں یہ صلاحیت نہیںرہتی کہ وہ مرض کا درست اندازہ کرکے علاج کارُخ متعین کرسکیں ۔رات کے 2بج چکے تھے۔ جونیئر سرجن نے مریض کے درد کو صبح اس وقت تک گھسیٹنے کے لیے ،جب پروفیسربہادر نے وزٹ کیلئے تشریف لاناتھا ، مریض کی رگوں میں مزید پین کلر منتقل کردی ،مریض کو درد سے قدرے نجات ملی تو رات ڈھائی بجے کے قریب میںخاور صاحب کو جوہر ٹائون میں واقع ان کی رہائش گاہ ڈراپ کرنے چلے گیا۔ ایوب خاور کے گھر واقع جوہر ٹائون سے میرے گھر گارڈن ٹائون کا فاصلہ یوں توچند منٹوں کا ہے،لیکن میرے دماغ کے سیلولائیڈ پر خاورصاحب کے لیے کام کا فلیش بیک اتنا لمبا تھا ۔یوں لگا میںمدت بعد اپنے گھر پہنچاہوں۔کتنے ہی ڈرامے اوران گنت کردار خاور صاحب نے اپنے کیریئر میں تخلیق کئے تھے۔ فشار، دن، کہانی گھر،غریب ِ شہر،کانچ کے پر،انکار،نشیب،پاتال، ریڈکارڈ، خواجہ اینڈسن کے علاوہ شاعری کی کتابیںاوران میںلکھی نظمیں،غزلیں اورگیت۔ایک صحافی کے طور پر میں نے کئی ایک جونیئر فنکاروں کو گمنام سے نامور ہوتے بھی دیکھا ہے ۔ ان میںریشم،نبیل،عفت رحیم،نعمان اعجاز،ماریہ واسطی،علی ظفر اورہم سب کے سہیل احمدالمعروف عزیزی بھی شامل ہیں۔ ایوب خاور اس ملک کے بہت بڑے میڈیا مین ہیں۔ان کے پاس سرکاری اورغیر سرکاری بیسیوں ایوارڈ ہیںمگر اس رات ایمرجنسی وارڈ میں کسی نے انہیںاس کا ریوارڈ نہیںدیا۔بحیثیت ایک سنیئر شہری بھی انہیںکوئی امتیازحاصل نہیںتھا۔میں نے جب دیکھاکہ خاور صاحب کا داماد بہت تکلیف میںہے اور اس کی وجہ سے ان کی بیٹی کی حالت بھی غیر ہورہی ہے تو میں نے آگے بڑھ کر اپنا ’’صحافتی استحقاق‘‘آزمایامگر میں بھی کچھ نہ کرسکا ۔ سوائے اس کاروائی کے کہ خاور صاحب اورا ن کے اہل خانہ کو محسوس ہو کہ میں ان کے دکھ درد میںشریک ہوں۔ خداخدا کرکے رات گذری ۔صبح بتایاگیاکہ سرکاری ہسپتال میں کچھ نہیںہوگا ۔اگر مریض کاعلاج کرانا ہے تو اسے یہاں سے اس ہسپتال میں شفٹ کرنا ہوگاجہاں سب کچھ پرائیویٹ ہوگا۔لواحقین نے ویسا ہی کیاجیسا فرمایاگیاتھااوریوں مسیحائوں سے پیسوںکے عوض مسیحائی خرید لی گئی۔وطن عزیز میں یہ رواج فروغ پاچکا ہے کہ مسیحا زندگی کے کشکول میں مسیحائی کی بھیک بھی نہیںڈالتے۔ یہ گلہ اورشکوہ صرف ڈاکٹروں اورمسیحائوں سے نہیںہے ،معاشرے کا ہرکردار اورہررشتہ متاثر ہواہے۔ کمرشل ازم کا یہ رنگ سماج سے جڑے ہر رشتے اورہر رسم ورواج پر چڑھ چکاہے۔زندگی سے جڑے ہر کردار کے حفظ ِ مراتب کو اختیاراوراقتدار کی کسوٹی سے ناپا جاتاہے ،مراعات یافتہ طبقات کے لئے زندگی ایک پوشاک ہے جبکہ عام انسان کے لئے یہ نعمت ایک بوسیدہ پہناوا اوراترن ہے جسے ہر حالت میں اسے پہننا ہی پڑتاہے ۔ایوب خاور نے اپنی ایک نظم ’اترن پہنو گے؟‘‘میں زندگی اوراس سے جڑے رشتوں سے یہی سوال کیاتھا: اُترن پہنو گے ؟ گھاٹ گھاٹ سے دھل کر آئی ،اُترن پہنو گے جانے کس،کس ذات کے لمس ہیں ،اس اُترن کے بخیوں میں کس،کس نسل کی دیمک اس کے دامن سے ہے لگی ہوئی کتنے رنگ ریزوں نے اس پر اپنے رنگ چڑھائے ہیں کتنی بار کی دھلی ہوئی ،جگہ جگہ سے چھدی ہوئی انجانے ہونٹوں کے نم سے دھاگہ ،دھاگہ لدی ہوئی سو،سو طرح کی خوشبو ئوں میں بسی ہوئی اُترن پہنوگے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں