"TSC" (space) message & send to 7575

خادم اعلیٰ سے ’’مذاق رات‘‘

یہ ایک منفرد ریکارڈ ہے کہ پنجاب کے تیزگام وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کسی سیاسی طنز ومزاح کے پروگرام میں مہمان کے طور پر شریک ہوئے۔وزیر اعلیٰ پنجاب ''دنیانیوز‘‘ کے مقبول پروگرام ''مذاق رات ‘‘ میں مہمان کے طور پر جلوہ گر تھے جہاں انہیںکامیڈی ورلڈ کے چار فاسٹ بائولرز اورایک عظیم آل رائونڈر کا سامنا تھا۔مذاق راتی ٹیم میں امان اللہ ، سخاوت ناز، افتخار ٹھاکر ،مجاہد عباس اورسہیل احمد المعروف عزیزی‘ خادم اعلیٰ سے طنز ومزاح کا دوستانہ میچ کھیل رہے تھے ۔اگرچہ مذکورہ میچ دوستانہ تو تھا مگر نورا نہیں تھا۔پنجاب خصوصاََ لاہور‘ گجرانوالہ‘ سیالکوٹ‘ فیصل آباد اورملتان والے تو ''نورا کشتیوں‘‘ کی اصطلاح سے واقف ہیں لیکن ملک کے دیگرحصوں میں رہنے والے لوگ فن پہلوانی سے جُڑی اس ''ٹریک ٹو ڈپلومیسی ‘‘ سے بے بہرہ ہیں۔نورا کشتی کی دلچسپ داستان پھر کبھی سنائوں گا۔ فی الحال اتنا سمجھ لیجئے کہ یہ بھی میچ فکسنگ طرح کا ایک کھیل ہوا کرتا تھا مگر فن پہلوانی کے زوال کے ساتھ ہی یہ ''روایت‘‘ بھی دم توڑ گئی۔ خادمِ اعلیٰ ''مذاق رات ‘‘ کے سیٹ پر آئے تو بے اختیار میرے دل ودماغ کے سیلولائیڈ پر یہ گیت گونج اٹھا :
تم آئے تو آیا مجھے یاد گلی میں آج چاند نکلا
جانے کتنے دنوں کے بعد گلی میں آج چاند نکلا
میاں شہبازشریف اور میاں نوازشریف گزشتہ 25سال سے پاکستان کی مین سٹریم سیاست کی اہم شخصیات ہیں ۔میڈیا کو اپنی خبروں، شہ سرخیوں ، نیوز بلیٹن،بریکنگ نیوزاورٹی وی پروگراموں کو سجانے کے لئے سیاسی آرکسٹراز سے لے کر میگاسٹارز تک چاہیے ہوتے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے ٹاک شوز میں شرکت کرنے والی شخصیات لگ بھگ ایک سینکڑہ ہوں گی۔ پچیس کے قریب شخصیات کو اے کلاس کیٹیگری جبکہ بارہ عدد (درجن بھر) کو وی آئی پی اور چار ایسی شخصیات ہیں جنہیں ''ٹاک شو انڈسٹری ‘‘ میں وی وی آئی پی سمجھا جاتا ہے۔میاں برادران کے علاوہ ان میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری اورمتحدہ کے الطاف حسین شامل ہیں۔مذکورہ سیاسی شخصیات کا سیاسی طنز ومزاح کے پروگرام میں شریک ہونا تو درکنار‘ یہ وی وی آئی پی ٹاک شو ز میں بھی شرکت نہیںکرتے۔ البتہ ایوان صدر، وزیر اعظم ہائوس اوراپنی ذاتی رہائش گاہوں سے یہ شخصیات اینکر حضرات کو انٹرویوز تو دیتی ہیں مگر وہ بھی ایک وقفے کے ساتھ ہوپاتے ہیں۔ سیاستدانوں میں عمران خان غیر معمولی نوعیت کے گیسٹ سٹار ہیں‘جو دنیا کے ہر بڑے چھوٹے چینل پر'' منہ دکھائی‘‘ کے باوجود اپنا گلیمر اوراہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔شیخ رشید کو ٹاک شو ز انڈسٹری کا رنبیر سنگھ سمجھاجاتاہے ۔شیخ رشید صاحب کے سامنے اگر اینکر بھی سٹارہوتو ''رام لیلا‘‘ تیار ہوجاتی ہے۔انٹرویو اور اینکر انڈسٹری میں چوہدری پرویز الٰہی کا انٹرویو بھی قیمتی ہوتا ہے۔الطاف بھائی کا انٹرویو کرنے کے لئے لند ن جانا پڑتا ہے۔ الطاف بھائی متحدہ کے کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہیں۔ یہ خطاب اتنے طویل ہوتے ہیںکہ انہیں سلسلہ وار شکل میں نشر کیا جانا چاہیے مگر میڈیاچونکہ آزاد ہوچکا ہے‘ اس لیے الطاف بھائی کی تقریر کو طویل دورانیہ کے خطاب کے طور پر ایک ہی بار نشر کردیاجاتاہے۔ 11دسمبر کے بعد فیصل رضا عابدی کی باکس آفس پوزیشن میں یکایک اضافہ ہوجائے گا۔ اس کی وجہ ایک اہم ''ریٹائر منٹ ‘‘ ہے۔ 
حکمران عموماََ اپنے ''فیورٹ‘‘ اینکر پرسنز کو انٹرویو دینا پسند کرتے ہیں۔سچے‘ کھرے اوردبنگ اینکر پرسنز صرف وہی سوال کرسکتے ہیںجو میڈیا ٹیم کی معاونت سے تیار کئے گئے ہوتے ہیں‘مگر بعض کہنہ مشق اپنے پیشہ ورانہ حق سے دستبردار نہیں ہوتے۔ سیاسی طنز ومزاح کے پروگراموں کے بارے میں حکمرانوں کا رویہ پہلے پہل سنجیدہ نہیں تھا۔حکمران ایسے پروگراموں کوفرصت کے وقت تھوڑا بہت دیکھ تو لیتے تھے مگر پروگرامنگ کی درجہ بندی میں اسے (بی کٹیگری) خیال کیاجاتاتھا۔ہمارے ہاں جن ٹی وی پروگراموں کو سیاسی طنز ومزاح کا نام دیا گیا ہے‘ دنیا میں اسے Political Satire کہا جاتاہے۔ سیاسی طنز ومزاح کی بانی بھی عظیم یونانی قوم ہے۔قدیم یونان میں معاشرے کے اہم اور سرکردہ افراد کی نجی زندگی اوران کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتاتھا۔طنز ومزاح کا آغاز قدیم یونان سے ہوا تھا۔ اس روایت کے تحت سیاسی اورنظریاتی مخالفین تقریر کرتے اورنجی محافل میں تنقید کانشانہ بنایاکرتے تھے۔ مزاحیہ تقریروں کے بعد مزاحیہ شاعری کی شروعات بھی یونان سے ہوئی تھی۔ دوسری دنیا میں Political Satire نے کارٹون فلموں سے لے کر نائٹ شو ز تک کی منازل طے کی ہیں۔امریکہ میں اس نوع کے ٹی وی پروگراموں کا آغاز 60ء کی دہائی میں ہوا ،رچرڈ نکسن کے امریکی صدر منتخب ہونے میں سیاسی طنز ومزاح کے پروگراموں سے رائے عامہ کومتاثر کرنے کا کام لیاگیاتھا۔ 
پنجاب کی دھرتی میں حکمرانوں کی نجی زندگی اورسیاسی پالیسیوں پر جگت اورپھبتی کسنے کی تاریخ بھی پرانی ہے۔اس ضمن میں‘ میں نے کوئی باقاعدہ ریسرچ تو نہیں کی لیکن سینہ گزٹ کے مطابق حکمرانوں میں پہلی جگت پنجاب کے بہادر حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کو کی گئی تھی۔اٹھارویں صدی کے آغاز میں پنجاب پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت تھی ۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کا آبائی شہر گجرانوالہ تھا اوریہ میرابھی شہر ہے ۔اس رشتے سے میں اپنے آپ کو آج بھی مہاراجہ کی ''رعایا‘‘ سمجھتا ہوں۔مہاراجہ رنجیت سنگھ سے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنی فوج کے ساتھ خود بھی میدان جنگ میں اترتے تھے ۔ایک جنگ میں لڑتے ہوئے مہاراجہ کی آنکھ ضائع ہوگئی جس پر لوگ چوری چھپے انہیں ''کانا‘‘ بھی کہنے لگے تھے ۔ یہ روایت بھی موجود ہے کہ مہاراجہ پیدائشی طور پر ہی ایک آنکھ سے محروم تھے۔ مہاراجہ ایک بہادر اور بارعب حکمران تھے‘ لہٰذا کسی کو ہمت نہ تھی کہ کوئی انہیں روبرو ان کے ''تخلص‘‘ سے پکارتامگراپنے دور کے سیاسی طنز ومزاح کے ''ماہر ‘‘ نے انہیں بھرے دربار میں نہ صرف کانا کہابلکہ مہاراجہ سے بھاری انعام بھی پایا۔ہمارے خیال میں مہاراجہ رنجیت سنگھ سے بذلہ سنجی کرنے والے اسی گمنام فنکار کو ہی ان فن کا جد امجد تسلیم کیاجانا چاہیے۔حسب روایت مہاراجہ کا دربار 
سجا ہوا تھا اورفنکار رنجیت سنگھ کی دلجوئی کرنے میں مصروف تھے۔دادا نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ایک آنکھ سے محرومی کا تذکرہ ایسے دلفریب انداز سے کیاکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ اسے داد کے ساتھ ساتھ انعام واکرام دئیے بغیر نہ رہ سکے ۔دادا نے کہا:
تیری اکو اکھ سلکھنی پئی لشکارے مارے 
دو‘ دو اکھیاں والے تینوں جھک جھک کرن سلاماں 
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی گئی اس پنجابی جگت کی ''اردو ڈبنگ‘‘ یوں کی جاسکتی ہے کہ :مہاراجہ تمہاری ایک آنکھ ہی اتنی خوبصورت ہے کہ دو ‘دو آنکھوں والے تمہیں جھک‘ جھک کر سلام کرتے ہیں... ماضی ہو یا حال‘ حکمرانوں کا ایسے پروگراموں سے گھبرانا یا انہیں نظر انداز کرنا سمجھ میں آتا ہے۔کیونکہ فنکار لوگ حکمرانوں کی کج خُلقی اورکج نظری کا بھانڈا بھرے دربار میں پھوڑ دیتے ہیں۔مہاراجہ رنجیت سنگھ اوردادا کی مثال آئیڈیل ہے لیکن ہمارے ہاں اپنے آپ کو مزاح کا ارسطو سمجھنے والے بعض بھائی لوگ کھیل کے اصول بھول جاتے ہیں۔ایسے نیم حکیم خطرۂ ظرافت فنکاروں کو مہاراجہ کے دادا کی تکنیک سے آداب مزاح سیکھنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا ممنون ہوں جن کی آمد سے ''مذاق رات‘‘یاد گار اورتاریخی اہمیت اختیار کرگیاہے۔ہم اس واقعہ کو ''سندھ طاس‘‘ ''شملہ معاہدہ‘‘ یا ''میثاقِ جمہوریت‘‘ سے تعبیر تو نہیں کرسکتے مگر سیاسی طنز ومزاح کی دنیا میں اسے گولڈن شیڈز یعنی سنہری حروف میں یوں ضرور لکھا جانا چاہیے:
آیا وہ بام پر تو کچھ ایسا لگا منیر 
جیسے فلک پہ رنگ کا بازار کُھل گیا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں