گزشتہ روز سیاسی اورقانونی ''اوتار‘‘ سے ملاقات ہوئی ۔ میرے محترم بزرگ ماضی قریب میں پاکستان میں لائی گئی ایک تحریک کے سرخیل رہے ہیں ۔ ان کا اعزاز ہے کہ وہ انقلابی تحریک کے ڈرائیور تھے اور ریاست کو ماں بننے کا مشورہ بھی انہیں کی طرف سے آیا تھا۔تحریک کے دوران وہ بڑے پُر جوش تھے۔ موصوف چونکہ شاعر بھی ہیں اس لیے خواب دیکھنا ان کا فطری اور پیشہ وارانہ حق بھی ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والی گفتگوچونکہ آف دی ریکارڈ تھی اس لیے آپ سے شیئر نہیں کرسکتا مگر ان کے بیان انکشافات سے میری حالت بالکل ا یسی ہی تھی جیساکہ بیان کیاگیاہے ۔ ع
عقل ہے محوِتماشائے لب ِبام ابھی
پیارے وطن میںاب تک جتنے بھی انقلاب آئے ہیں، وقت نے ثابت کیاکہ زیادہ تر ''ہاف بوائلڈ‘‘تھے۔ مراد یہ ہے کہ ارض پاک پررونما ہونے والے انقلابات دونمبر یا ناخالص تھے ۔ سوائے 1969ء کے انقلاب کے جس میں محنت کش اوراستحصال زدہ طبقات حقیقی معنوں میںملک میں انقلا ب لے آئے تھے مگر اس سنہری موقع کو ضائع کردیا گیا۔ اس عوامی انقلاب کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہیں اس وقت کے جرنیلوں ٗ ججوں اورملاوں نے ایک گٹھ جوڑ کے ساتھ پھانسی پر لٹکا دیاتھا۔یوں تو ہمارے چاروں جرنیل حکمران نجات دہندہ بن کر آئے تھے ٗ مگر جنرل محمد ضیاالحق کو قوم کی بد نصیبیوں کا ''بانی ‘‘قراردیاجاتاہے۔ضیاالحق کا دور ایک ایسا جہنم تھا جس سے چلنے والی مسموم ہواوں سے ہی فرقہ پرستی ، لسانیت ،منشیات اوردہشت گردی سمیت ہر قسم کی آگ اورالائوجل رہے ہیں۔ضیا الحق کی پالیسیوں میں ' الف‘ سے لے کر بڑی'ے‘تک تضاد تھا۔ وہ ہمارے جبراََ''امیرالمومنین‘‘ تھے جو قسطوں میں اسلام نافذ کررہے تھے۔دین کے بارے میں فرمایاگیاہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ٗ مگر ضیاالحق نے اپنے گیارہ سالہ دور میں صرف حدود آرڈی نینس ہی نافذ کیا۔ ضیاالحق بھارت کے دشمن تھے مگر ان کے ہاں بھارتی اداکار شتروگھن سنہہ کا آنا جانا تھا۔ضیاالحق کے دورمیںپاکستانی فوج سوویت یونین کی کفار ریاستوں سے جہاد کررہی تھی۔اس جنگ کے لئے وہ امریکہ سے ڈالر وصول کررہی تھی اورقوم کو بتایا جارہاتھاکہ معرکہ ء حق وباطل برپا ہے۔ ڈالر وں کے لالچ میں لڑی جانے والی اس جنگ میں ہماری حیثیت ''رینٹ اے لشکر ‘‘ کی سی تھی۔امریکی ڈالروں اوراشاروں پر لڑی جانے والی سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ اور اشتراکی نظام کی بعض اندرونی وجوہ کی بنا پر سوویت یونین ٹوٹ گیاجس سے دنیا میں طاقت کاتوازن بگڑ گیا۔جنرل ضیاالحق اوران کے نظریاتی ہم نوائوں سے بے وقوفی یہ ہوئی کہ وہ امریکہ جیسے سفاک ملک کو ''ڈان ‘‘ بنانے میں استعمال ہوئے۔ظلم اورجہالت کی ہزارداستان کا یہ نوحہ تو اب عمر بھر جاری رہے گاجسے قسط وار بیان کرتے رہنا ہوگا ۔ اکادکا اچھی خبروں کی بات کرکے روح کی تھراپی بھی کرتے ہیں۔
نحس خبروں کی برسات اوربھرمار میں خوشی کی ایک خبر یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صوبے میں بلدیاتی الیکشن کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بعد اب دوسرے صوبوں میں بھی ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا۔بلوچستان کو ایک عرصہ سے مسائل نے گھیر رکھاہے ۔باغیوں سے لے کر دہشت گردوں تک نے حالات ابتر کررکھے ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹر عبدالمالک کا بلدیاتی الیکشن کا انعقاد کرالینا کسی کرشمہ سے کم نہیں۔بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں وزیر اعلیٰ کی جماعت نیشنل پارٹی کوبرتری حاصل نہیں ہوئی ٗ وہاں زیادہ تر آزاد جیتے ہیں،جس کا مطلب یہ اخذ کیاجارہا ہے کہ صوبہ میں انتخابات شفاف اورغیر جانبدارنہ ہوئے ہیں۔دوسری طرف یہ بھی کہاجارہا ہے کہ جب اکثریت آزاد ممبران کی ہوتو ''ہارس ٹریڈنگ‘‘(قومی سیاست کی ایک پرانی اصطلاح جس میں نوٹ سے ووٹ خریدے جاتے تھے)ہوا کرتی ہے۔ کچھ بھی کہیں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اس صوبے میں ایک شفاف اورغیر جانبدار انتخابات کرا دئیے ہیںجسے باغیوں ، دہشت گردوں ،اندرونی اوربیرونی دشمنوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ڈاکٹر بلوچ کے اس کارنامے پر انہیں حقیقی معنوں میں عوامی وزیر اعلیٰ قراردے کر ''وزیر اعلیٰ پلس‘‘لکھا اورپکارا جاسکتا ہے۔
جناب صدر ممنون حسین کی جانب سے بھیس بدل کر عوام کے مسائل جاننے کے طریقہ کار پر تنقید ہورہی ہے۔ہمارے ایک محترم
بزرگوار نے اس خواہش کو بچگانہ قراردیا ہے ۔ہمارے خیال میں صدرصاحب کی یہ خواہش بچگانہ بھی ہے اوربزرگانہ بھی۔انسان کی عمر میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب وہ بچپن،جوانی اوربڑھاپے کے بعد دوبارہ اپنے اسی'' عہدے‘‘ پر فائز ہوجاتاہے جہاں سے وہ اپنی زندگی کا آغاز کرتاہے۔بچوں کو دیکھئے ،وہ اکثر اوقات اپنے چہرے کو سپائڈر مین اورسپر مین کے بنائے گئے ماسک سے ڈھانپ کر بھیس بدل لیتے ہیں۔بچے بھیس بدل کر سمجھ رہے ہوتے ہیںکہ ان کے بڑ ے اب انہیں پہچان نہیں سکتے ،شرارتی بچے تو بھیس بدل کر اپنے بڑوںکو ڈرا بھی رہے ہوتے ہیں۔بچوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اچانک سامنے آکے اپنے بڑوں کا ''ترا ہ‘‘ (پائوں کے نیچے سے زمین سرکانا) نکال دیں۔اکثر بڑے اپنے بچوں کی اس معصوم حرکت پر جان بوجھ کرڈر تے بھی ہیں جیسے بچے نے کوئی کارنامہ سر کرلیاہو۔بعض اوقات بچے اپنے بڑوں کو سچ مچ ڈرانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ایسے بچوں کے لئے کہاگیاہے کہ ''بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے‘‘۔
بچوں کے علاوہ بڑوں کے بھیس بدلنے کو بھی بُرا نہیں سمجھاگیا ۔ ہزاروں سال سے نوٹنکی اورڈرامہ کی جو بھی صورت رہی ہو اس میں روپ بدلے جاتے تھے۔ ویسے بہروپ بھرنا اوربھیس بدلنے میں تھوڑا فرق ہے۔روپ بدلنے یا بہروپ بھرنے کا عمل نوٹنکیوں اورناٹکوں میں رائج رہا ہے۔قدیم زمانوں میں رحمدل بادشاہ اورحکمران بہروپ بھر کر اپنی رعایا کے حقیقی مسائل کا کھوج لگایاکرتے تھے۔مگر یہ ان زمانوں کے قصے کہانیاں ہیں جب بریکنگ نیوز کا رواج نہیں تھا۔اب تو کوئی شخص اگر کھمبے پر چڑھ جائے تو وہ براہ راست کیمروں کی زد میں ہوتا ہے ،دوسری طرف کوئی الہڑکھسرا اگر کسی لیڈر کے سامنے بال کھولے دھمال ڈالے تو یہ بھی بریکنگ نیوز کے زمرے میں آتی ہے۔لہٰذا فی زمانہ بھیس بدلنے سے زیادہ بہتر حکمت علمی یہ ہے کہ ٹی وی سکرین پر دکھائے جانے والے عوامی مسائل بیان کرنے کی میراتھن دوڑ دیکھی جائے۔عوامی مسائل کا ٹوئنٹی ٹوئنٹی،ون ڈے ، ٹیسٹ سیریز اورورلڈ کپ سب کچھ ٹی وی پر دکھایاجاتاہے اس لیے حکمرانوں کو بھیس بدلنے کا متروکہ اورقدیمی طریقہ کار ترک کردینا چاہیے۔
بھیس بدل کر عوامی مسائل کے بارے میںکھوج لگانے کا عمل اگرچہ متروک ہوچکا ہے ٗ مگر' اقتدار ‘ اور ' ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘کے کھیل میں بھیس بدلنے کاسلسلہ جاری ہے۔اس ڈبل وکٹ ٹورنامنٹ میںبعض بہروپیوں نے سپر مین کا روپ دھارا ہواہے۔اس نوٹنکی کی تصدیق ہمارے سیاسی اورقانونی ''اوتار‘‘ نے کی ہے۔ہمارے محترم دوست نے مجید امجد کا یہ شعر حالات کی نذر کیاکہ ؎
کٹی ہے عمر بہاروںکے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
ہم نے مزید بات کرنا چاہی تو انہوں نے کہاکہ میں نے خواب دیکھاتھاکہ ''ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘ لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا ۔اب شکوہ کے جواب میں ''جواب شکوہ ‘‘ لکھوں گامگر اس کے لیے دوتین دن انتظار کرلیں،قوم کو پتہ چل جائے گاکہ کس نے سپر مین اورسپائڈر مین کا بھیس بدل رکھا تھا؟