"TSC" (space) message & send to 7575

عالم گیر سچ

علی امریکہ کے شہرڈیٹرائٹ میں رہتا ہے اوران دنوں پاکستان آیا ہوا ہے ، وہ میری بیگم صاحبہ کا بھتیجا ہے۔ گزشتہ پندرہ دن مختلف مقامی نیوز چینلز دیکھنے کے بعد اس نے ''سروے رپورٹ‘‘ جاری فرمائی جس کے مطابق یوں لگتا ہے جیسے ہمارے ہاں صرف دو ''پراجیکٹس‘‘پر کام ہورہا ہے۔۔۔اول، بھارتی اداکارائیں پاکستانی پراڈکٹس کی تشہیر کرتی دکھائی دے رہی ہیں اور دوم، دہشت گردی کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ اول تو لوڈشیڈنگ کے باعث ٹیلی وژن بند ہی رہتا ہے ، بجلی آئے توایک طرف قطرینہ کیف اورکرینہ کپور دکھائی دیتی ہیں ، دوسری طرف حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی بحالی اورناکامی کے بعد افواج پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کی ہائی لائٹس پیش کی جارہی ہوتی ہیں۔ علی تو پاکستان میں چند دن بطور مہمان قیام کرے گا اور واپس امریکہ چلا جائے گا ، ہمار ا کیاہوگا ، ہم جو اس دیس کے باسی ہیں؟ شکیب جلالی نے درودیوار کے رنگ کو خون جگر کے رنگ سے یوں تشبیہ دی تھی کہ ؎
کچھ دن اگر یہی رہا دیوار و در کا رنگ
دیوار و در پر دیکھنا خونِ جگر کا رنگ
غور کیا جائے تو ہمارے ہاں یہ''آگ‘‘ دوسرے سیکٹرز میں بھی لگی ہوئی ہے ۔ اس ''آگ‘‘ سے مراد کسی شے کے حصول کا جنون ہے۔ پاکستانی صارفین میں بطورخاص کمرشل کماڈیٹیز (Commodities) حاصل کرنے کے لیے جنون کی سی کیفیت پیدا کرنے کی خاطر پاکستان اوربھارت کے سپر سٹارز کے سٹارڈم کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ان سٹارز میں عمائمہ ملک ، وسیم اکرم، آمنہ شیخ ، عاطف اسلم، نرگس فخری ، علی ظفر، قطرینہ کیف اور کرینہ کپور عرف بے بوشامل ہیں ۔ پاکستانی مارکیٹ میں بھارتی سٹارز کاسٹارڈم بھارت سے بھی بڑا ہوجاتاہے۔ یہ کمال فیکٹر ہے کیونکہ بھارت پچھلے 66 سال سے ہمارا دشمن نمبر ون چلا آرہا ہے ، پاکستانی ریاست کی طرف سے بھارت کو روایتی دشمن قرار دینے، دونوں ملکوں کے مابین جنگوں اورمعرکوںکے علاوہ درجنوں بار دوطرفہ ڈائیلاگ کے فیل ہونے کے باوجواداکار شاہ رخ خان کو بالی وڈ کے ساتھ لالی وڈ میں بھی ''کنگ‘‘ لکھا اورپکار ا جاتا ہے اورامیتابھ بچن پاکستان میں بھی ''بگ بی‘‘ سمجھے جاتے ہیں۔ لتامنگیشکر کی آواز یہاں بھی کانوں میںرس گھولتی ہے ،کشورکمار اور محمد رفیع کو بھارت کے طرح پاکستان میں بھی میلوڈی کنگز سمجھا جاتاہے ۔ پاکستانیوں اوربھارتیوں میں مشترکہ جینیاتی اورنفسیاتی میلان کے باعث پاکستانی صنعت کاریہ طریقہ آزماتے ہیں۔ وہ اپنی کمرشل پراڈکٹس کی تشہیر کے لیے بھارتی سٹارز کو کاسٹ کر کے پاکستانی صارفین میں ایک جنون کی سی کیفیت پیدا کردیتے ہیں ۔ ماضی میں پاکستانی مارکیٹ سے بھارتی سٹارز کے لیے صرف دادوتحسین ''ایکسپورٹ‘‘ ہوتی تھی لیکن اب ایک عرصہ سے ریونیو بھی ایکسپورٹ ہورہا ہے جو اصولی طور پر درست نہیں ، اس فیکٹر پر بات پھر ہوگی ۔ فی الحال اس جنون پر بات کرتے ہیں جو آج کل کرینہ کپور المعروف بے بو نے یہاں پیدا کررکھاہے۔
کرینہ کپور جب کوئی پاکستانی پراڈکٹ ہاتھ میں تھام کر پاکستانیوں سے کہتی ہے کہ''یہ میری پسند ہے اور آپ کی؟‘‘ تو اہل وطن اس پیش کش پر نہ صرف عمل کرتے ہیں بلکہ عمل پیرا ہوجاتے ہیں ۔ کرینہ کپور کا شمار ان ہیروئنوں میں ہوتا ہے جس کے فن کی تعریف میں اپنی زوجہ محترمہ کی موجودگی میں بھی کرسکتا ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کرینہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں میں بھی یکساں مقبول ہے۔ 
کرینہ کپور المعروف بے بو کون ہے؟ بے بو کا تعلق برصغیر کی''رائل فلمی فیملی‘‘ سے ہے۔کرینہ کے شجرہ نسب کے مطابق ان کے ایک بزرگ کانام دیوان کشیو مل تھا جن کا تعلق پشاور سے بیان کیاجاتا ہے۔ دیوان کشیومل کے بیٹے پنڈت بششر ناتھ تھے جو رشتے میں بے بو کے لگڑ دادا بنتے ہیں ۔ پنڈت بششرناتھ کے بیٹے پرتھوی راج کپور تھے جنہوں نے اپنی اندر پائی جانے والی صلاحیتیوں کا اظہار اس زمانے کے تھیٹر اور بعدازاں فلم میں بھی کیا اورایک عظیم فنکار کہلوائے۔ پرتھوی راج ، کرینہ کپور کے پڑدادا اور (شومین) راج کپور اس کے دادا تھے۔ راج کپور کا اصل نام رنبیر راج کپور تھا ۔ آج کے بھارتی سٹار رنبیر کپور کا نام ان کے دادا راج کپور سے موسوم ہے ۔ رنبیر ،کرینہ کے چچا زاد بھائی ہیں ۔کرینہ کے والد رندھیر کپور المعروف ( ڈبو) اپنے زمانے کے بی کلاس ایکٹر رہے ہیں۔ کرینہ کی والدہ ببیتا بھی بی کلاس ہیروئن رہی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک بی کلاس ممی ڈیڈی کی دونوں بیٹیاں یعنی کرشمہ کپور المعروف (لولو) اورکرینہ کپور المعروف (بے بو) دونو ں عمدہ ایکٹریسز کے ساتھ ساتھ سٹارز بھی کہلائیںجو ان کے والدین نہیں تھے۔
بھارت کی مارکیٹ میںایک طویل عرصہ تک عظیم کرکٹر سچن ٹنڈولکر سب سے مہنگے کمرشل ماڈل رہے ہیں ۔ ان کے بعد بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان کا نمبر آتا ہے۔ دھونی بھی بھارتی مارکیٹ کے بڑے ماڈل رہے ہیں ۔ پوری دنیا کی طرح بھار تی کمرشل پراڈکٹس کے لیے وہاں کی لوکل سیلبرٹیز ہی کوبطور ماڈلز منتخب کیاجاتا ہے لیکن پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاںبھارتی ماڈلز، ترکی کے ڈرامے اورچیچنیا سمیت دیگر ممالک کے دہشت گرد چھائے ہوئے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے مختلف علاقوں میںدہشت گردوں کے 65 مختلف گروہ ہیں۔ ان میں سے 21 کا تعلق پاکستانی اورپنجابی طالبان سے ہے۔ پروردگار ہم پر اپنا فضل وکرم فرمائے ، اتنی تعداد میں تو دنیا میں فٹ بال ٹیمیں نہیں جتنے دہشت گرد گروپس ہمارے ہاں پیدا ہوگئے ہیںاورکھل کر کھیل رہے ہیں۔ لگتا ہے وطن عزیر میں دہشت گردی کا ٹورنامنٹ ہورہاہے۔ 
جماعت اسلامی کے امیر منور حسن صاحب جب بھی بولتے ہیں''کمال ‘‘ کرتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب سے کہہ رہے ہیں کہ مذاکراتی میز دوبارہ بچھائیں ۔ حکومتی اورطالبانی کمیٹیوں کے مابین ''دودھ پتی مذاکرات ‘‘جاری تھے کہ طالبان نے کراچی میں ہمارے 13پولیس کمانڈوز شہید کردیے۔ حکومتی کمیٹی اپنی ہم منصب بلکہ دودانے اوپرطالبانی کمیٹی سے گلے شکوے کے انداز میںبات کر ہی رہی تھی کہ طالبان نے اپنی قید میں 23 ایف سی اہلکاروں کو بھی بے دردی سے شہید کردیا۔ اس کے بعد مذاکراتی کمیٹیوں کا باہم بیٹھنا کیا معنی رکھتا ہے ؟
حکومت اورطالبان کمیٹیاں ''ڈوب‘‘ ہی جانی تھیں ۔ کمیٹی یا کمیٹیوں کے بارے میں پہلا اور آخری تجزیہ یہی ہوسکتا ہے کہ کمیٹی نکل آئے گی یا ڈوب جائے گی ۔ میں کوئی شیخ رشید لال حویلی والا یا کوئی 80 سالہ سیاسی باوا نہیںہوں لیکن اتنا تو سبھی جانتے ہیں کہ مشرق ومغر ب کبھی بھی آپس میں بغل گیر نہیں ہوسکتے۔کمیٹیوں کے ''تڑک‘‘ کرکے ٹوٹنے والے انجا م کے بارے میں اتنا ہی 'شورشاٹ‘ تھا جتنااپنے زمانہ طالب علمی میں ''انونسبل گیس پیپرز‘‘ پر میرا پختہ یقین ہوا کرتا تھا ۔ بعض سادہ دل لوگ طالبان کے لیے صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ وہ ہم پر ''شریعت‘‘ نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں جنگیں دولت کے انبار وں سے ہی لڑی جاتی رہی ہیں، جنگوں پر اس دور میں بھی مال ودولت صرف ہوا کرتا تھا جب تلوارکو میزائل اورگھوڑے کو طیارے کی حیثیت حاصل تھی۔ ''شریعت ‘‘ نافذ کرنے کی اس جنگ میں بھی بے پناہ پیسہ ملوث ہے، لہٰذا اس جنگ کے پیچھے بھی وہی جذبے کارفرما ہیں جودنیا کی دوسری جنگوں کے پیچھے ہوا کرتے ہیں۔ حکومتی کمیٹی میں شامل رکن رستم شاہ مہمند کا بیان بہت ہی بامعنی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے ، وہ کسی کو دھوکا نہیں دے رہی تاہم ابھی تک اعتماد کی فضا قائم نہیں ہوسکی ۔ شریعت یا آئین بھی کوئی مسئلہ نہیں ، مسئلہ کچھ اورہے۔ حبیب جالب نے غموں ، بموں ، خودکش دھماکوں ، دہشت گردی کی جنگ میں فوجی ایکشن کے بعد کسی امکانی خوشی کو عالم گیر عنوان یوں دیاتھا: 
غم یہاں پر، وہاں پہ شادی ہے 
مسئلہ سارا اقتصادی ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں