"TSC" (space) message & send to 7575

Radio Jockey

حکمران جماعت مسلم لیگ نون اوراپوزیشن میں سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینے اورغیر آئینی اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے پر اتفاق کیاہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف ''میر جعفر میر صادق اینڈ کمپنی‘‘ ثابت نہیں ہورہی ہیں‘ وگرنہ توہر بار گھٹنے ہی ٹیکتی رہی ہیں اورمنتخب حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے میں بے وفائی ،یارماری اورغداری کے انٹر نیشنل کریکٹر 'بروٹس‘ کی طرح ان کی پرفارمنس بھی عروج پر رہی۔ نوازشریف اورزرداری کے درمیان ہونے والی ملاقات خوش آئندتھی ،ایسی ہی جیسے جمہوریت کی اندھیری گلی میں پھر سے امید کا چاند نکل آیا ہو۔نوازشریف کی حکومت کو جمہوری روایات کی طاقت بہم پہنچانے والے آصف زرداری کی آمدپر پوجابھٹ پر فلمایا گیت دیکھیے اور سنیے جس میں وہ گھر کی چھت سے گلی میں دکھائی دینے والے اجے دیوگن کے لئے کہہ رہی ہے کہ: 
تم آئے تو آیا مجھے یاد گلی میں آج چاند نکلا 
جانے کتنے دنوں کے بعد گلی میں آج چاند نکلا 
لالی وڈ اوربالی وڈ کی سینکڑوں فلمیں ایسی ہیں جن میں دوپیار کرنے والوں کے درمیان ہونے والی ملاقات کو گیت اورسنگیت کی زبان میں بیان کیاگیا۔ وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف اور سابق صدر آصف زرداری کے مابین ہونے والی ملاقات سے میرا دل اوردماغ دونوں Radio Jockeyبن گئے ہیںاورکئی ایک گیت میرے لبوں پر مچلنے لگے ہیں ۔ہمارے ہاں کبھی فوجی بھائیوں کا ریڈیو پروگرام بڑا مقبول ہوا کرتا تھا‘ جس میں سپاہی، لانس نائیک ، صوبیدار اورزیادہ سے زیادہ میجر رینک کے فوجی بھائی خط کے ذریعے ریڈیو پروگرام سے اپنے پسندیدہ گیت سنا کرتے تھے ۔ سپاہی اورصوبیدار تو خط لکھ کر گیت سنا کرتے تھے جبکہ جرنیلوں کے لئے اس ملک کی سب سے بڑی مغنیہ ملکہ ترنم نورجہاں یوں نغمہ سراء ہوئی تھیں: 
میرا ماہی چھیل چھبیلا 
ہائے نی کرنیل نی، جرنیل نی
وزیر اعظم میاں نوازشریف اورسابق صدر آصف زرداری کی ملاقات کو ایک طرف جمہوریت کے ماتھے پر جمہوری روایات کا جھومر قراردیا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف اسے سیاسی مفادات کی 'جادو کی جپھی‘ کہا جا رہا ہے۔ اقتدار اورسیاست کے سرکٹ میں دوعدد مفروضے زباں زد عام ہیں۔اول یہ کہ جمہوری قوتیں غیر آئینی اقدامات کرنے والی طاقتوں کے خلاف ڈٹ گئی ہیں۔دوم یہ کہ ملک کا سیاسی صاحب ثروت طبقہ اپنے مفادات کے محافظ نظام کو بچانے کے لئے اکٹھا ہوگیا ہے۔ دونوں صورتوں کو عوام کی سلامتی اورفلاح وبہبود کی اصولی کاوش ہی قرار دیا جارہاہے لیکن اس حقیقت کا فیصلہ کون کرے گاکہ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ اس کا فیصلہ یوں ممکن ہے کہ آئین اورقانون سب کے لئے برابر ہیں، بحیثیت قوم ہم اپنے آپ سے یہ وعدہ کرتے ہیںکہ آئین اورقانون کی سپر میسی پر مکمل یقین رکھیں گے اوراس کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کریں گے چاہے اس کا تعلق ریاست اورحکومت کے کسی بھی ادارے سے ہو۔کہاجارہاہے کہ وزیر اعظم میاں نوازشریف کی ملک میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری سے ملاقات یہ پیغام دے رہی ہے کہ غیر آئینی اقدامات کی صورت میں جمہوری قوتیں یک جان دوقالب دکھائی دیں گی۔یہ کوئی کمرشل گیت یا رومانوی نعرہ نہیں ،پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ سال میں میاں نوازشریف کو ایسے ''سنہری مواقع‘‘ میسر آتے رہے ہیںلیکن انہوں نے صبر کے دامن کی طرح جمہوریت کا پلو ہی تھامے رکھا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس ملک کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو پورے پانچ سال بعض اداروں کی طرف سے ٹف ٹائم دیا گیا۔کبھی کبھی تو میاں نوازشریف بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کو رگڑا لگا دیا کرتے تھے۔ میموگیٹ سیکنڈل اس کی واضح مثال ہے۔ مذکورہ مقدمہ کے خلاف عدالت میںوکیل اکرم شیخ ہوا کرتے تھے جنہیں پرویز مشرف کے خلاف بھی وکیل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بہرحال اب وزیراعظم میاں نوازشریف جمہوریت کی سنیما سکوپ فلم کے سولو ہیرو ہیںلیکن روایتی سکرپٹ، سکرین پلے اورکاسٹ میں شامل اکثر کردار اورسچویشنز انہیں پریشان کرتی رہتی ہیں۔ایسے میں پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری ان کی جمہوری فلم میں گلزار کا نغماتی ''نور‘‘ بن کرآئے ہیں۔قومی سیاست میں آنے والی آندھی کی صورت حال بھی بھارتی شاعر اورہدایتکار گلزار کی فلم ''آندھی ‘‘ جیسی دکھائی دے رہی ہے جس میں فلم کے ہیرو سنجیو کمار کی زندگی میں ان کی ہیروئن سچترا سین 9سال بعد واپس آتی ہے تو وہ یوں بے اختیار پکار اٹھتے ہیںکہ: 
تم آگئے ہو نور آ گیا ہے 
نہیں تو چراغوں سے لو جا رہی تھی
جینے کی تم سے وجہ مل گئی ہے
بڑی بے وجہ زندگی جا رہی تھی 
ریکارڈ کے مطابق جمہوری نظام کو بچانے کے لئے میاں نوازشریف اورآصف علی زرداری کی یہ چھٹی کوشش ہے۔ آصف علی زرداری نے صدر کے عہدے سے رخصت ہوتے ہوئے وزیر اعظم ہائوس اسلام آباد میں جمہوری اورعسکری قیادت کے سامنے اپنی الوداعی تقریر میں وعدہ کیاتھاکہ وہ ''آئندہ پانچ سال مسلم لیگ کی حکومت کے خلاف کوئی گندی سیاست نہیں کریں گے‘‘۔ پیپلز پارٹی اورنون لیگ کی لیڈر شپ نے اپنے درمیان منعقد کرائے جانے والے اقتدار کی'' ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ ‘‘سے سبق سیکھنے کے بعد فیصلہ کیاتھاکہ آئندہ کیری پیکروں کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوا کریںگے‘ لہٰذا بعدازاں دونوں سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ 2005ء میں سعودی عرب اور2006ء میں برطانیہ میں اکٹھی ہوتی رہیں ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری نے ہی نوازشریف کو الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرنے کامشورہ دیاتھا۔2008ء میں آصف زرداری اور میاں نوازشریف نے جنرل مشرف کو مواخذہ کا کہہ کر ان سے استعفیٰ لیاتھا۔ یہ تعاون اس 
وقت بھی جاری رہاجب 17ویں ترمیم میں کی جانی والی تبدیلیوں کو منسوخ کیاگیاتھا اورآرٹیکل 6میں نئی شقیں متعارف کراکے فوجی بغاوتوں کا راستہ روکنے کے عزم کا اظہار کیاگیاتھا۔ مارکیٹ میں ایسے تیزابی تجزئیے بھی پڑھنے کو مل رہے ہیںجس میں یہ تھیسز پیش کیاجارہاہے کہ زرداری صاحب فوج اورحکومت کے حلقوں سے اٹھنے والے دھوئیں کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ چنگاری بھڑک کرآگ بن جائے۔ یہ بی جمالو ڈیزائن کی تجزیہ نگاریاں اپنی پھیکی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوں گی کیونکہ نوازشریف اورزرداری کے مابین ملاقاتوں کا سلسلہ جنرل مشرف کی بارہ اکتوبری وار دات کے بعد تب شروع ہواتھاجب دونوں جمہوری حکومت کے دھڑن تختے کے بعد کراچی جیل میں اکٹھے قید تھے۔ لہٰذا حالیہ ملاقات کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ ساحر لدھیانوی کی لکھی زیر نظر غزل قومی سیاست اور اس کی سٹار کاسٹ کے مابین ہونے والے عہدوپیماں کے کس قدر قریب دکھائی دیتی ہے کہ: 
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
میں ہوں اپنے صنم کی بانہوں میں 
میرے قدموں تلے زمانہ ہے
دل میرا پیار کا شوالہ (مندر) ہے 
آپ کو دیوتا بنانا ہے
دھڑکنیں، دھڑکنوں میں کھو جائیں 
دل کو دل کے قریب لانا ہے
امید واثق ہے کہ اس بارRadio Jockey کی طرف سے پیش کیاگیادرج بالا سونگ ہی فوجی بھائیوں کو پسند آئے گاجس کی فرمائش حکومت اوراپوزیشن نے اکٹھے کی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں