"TSC" (space) message & send to 7575

گرینجر

ڈیڑھ صدی سے زائد عرصہ سے شائع ہونے والے مشہور برطانوی اخبار 'ٹیلی گراف‘ نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو ''کنٹینر عالم‘‘ قرار دیا ہے۔ 23 جون کو پاکستان میں لائے گئے انقلاب کے بارے میں اخبار نے لکھا ہے کہ جہاز کے بزنس کلاس میں بیٹھ کر عوامی انقلاب کا اعلان کرنے والے شخص کے پاس کوئی پالیسی نہیں‘ اسے صرف ٹیلی ویژن پر آنے کا شوق ہے۔ قادری صاحب پچھلے سال بھی بلٹ پروف کنٹینر میں دھرنا دیے بیٹھے رہے اور غریب سردی میں ٹھٹھرتے رہے۔ اس بار انقلاب کا روٹ کینیڈا سے لندن اور دبئی سے اسلام آباد تھا مگر طیارے کا رخ تبدیل کر دیا گیا‘ جس کے بعد پروفیسر قادری صاحب نے یکے بعد دیگرے کئی مطالبات پیش کیے‘ جن میں ایک یہ تھا کہ فوج کے کور کمانڈر انہیں طیارے سے اپنی حفاظت میں لیں۔ جب ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو پنجاب کے گورنر اور ایک عدد بلٹ پروف گاڑی فراہم کرنے پر طیارے سے باہر نکل آئے اور انقلاب کا معاملہ ایک بار پھر ''رفع دفع‘‘ ہوگیا۔ 
پروفیسر قادری صاحب کی انٹری سے پہلے لاہور ماڈل ٹائون میں واقع منہاج القرآن مرکز میں ہی لال مسجد ''تعمیر‘‘ کرنے کے انتظامات کر لیے گئے تھے۔ اتنا بڑا کلہاڑا اپنے پائوں پر ایک سیاسی حکومت نے خود مارا یا پھر سہواً ایسا ہوگیا‘ اس کا پتہ آلہ قتل برآمد ہونے پر بھی شاید نہ ہو سکے‘ لیکن یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس پائے کی منصوبہ بندی کوئی گلو بٹ ہی کر سکتا ہے۔ پنجابی فلموں کی سٹوری اور سکرین پلے کی تکنیک میں سلطان راہی کی انٹری میں گرینجر (فلمی زبان میں گرینجر سے مراد ٹہکا شہکا ہے) شامل کرنے کے لیے اس کے باپ کو ولن پارٹی سے قتل کروا دیا جاتا ہے یا پھر بہن کے سر سے دوپٹہ اتروایا جاتا ہے۔ بس پھر کیا؟ مرحوم سلطان راہی ولن پارٹی کی اینٹ سے اینٹ بجا کر دوپٹہ واپس لے آتے۔ کامیڈین امان اللہ کہا کرتے ہیں کہ سلطان راہی کو بہن سے زیادہ دوپٹے کی فکر ہوتی تھی‘ اس لیے وہ کئی بار دوپٹہ واپس لے آتے اور بہن کو وہیں بھول آتے۔ حکومت‘ خصوصاً پنجاب حکومت نے بھی ایسا ہی کیا۔ 23 جون کو پروفیسر قادری انقلاب برپا کرنے اسلام آباد آرہے تھے۔ ان کی آمد سے صرف چھ دن قبل 17 جون کو منہا ج القرآن مرکز پر دھاوا بول دیا گیا۔ کیا ایسا اس لیے کیا گیاکہ پروفیسر قادری کی اینٹری کو بھی گرینجر بخشا جائے؟ 
افواج نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا لیکن دوسری جانب پولیس نے منہاج القرآن مرکز پر دھاوا بول دیا۔ کہا جا رہا ہے کہ مستعفی ہونے والے وزیر قانون رانا ثنااللہ کے سینے میں کئی ایک راز ہیں۔ بعض تماش بین کہہ رہے ہیں کہ رانا ثنا بولیں گے اور کچھ وفا شعار پیشین گوئی کر رہے ہیںکہ وہ چپ کا روزہ نہیں توڑیں گے۔ کچھ بھی کہیں لیکن یہ طے ہے کہ پنجاب پولیس نے گلو بٹ کی ''سربراہی‘‘ میں جس طرح یہ آپریشن ہینڈل کیا‘ اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ ہمارا محب وطن، آزاد اور ذمہ دار میڈیا قوم اور فوج کا مورال بلند کرنے کے بجائے پروفیسر قادری کے قسط وار انقلاب کی کوریج میں جتا رہا۔ اس طرز عمل کو اگر تشویشناک ٹائپ کی غیرسنجیدگی قرار دیا جائے تو یہ بھی رعایت ہو گی۔ 22، 23 اور 24 جون کے تینوں دن دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی اطلاعات اور خبریں انقلاب کی طوفانی برسات میں گم ہوکر رہ گئیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر اینکر نے اپنے ٹی وی شو میں انکشاف کیا کہ پروفیسر قادری کے ساتھ لندن سے براستہ دبئی‘ لاہور آنے والے صحافیوں کے ٹکٹ انقلاب فنڈز سے خریدے گئے تھے۔
عمران خان کے بعد اگرچہ پروفیسر طاہرالقادری نے بھی گرینڈ الائنس بنانے کی تردید کر دی ہے لیکن ''ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا‘‘ کے مصداق قادری صاحب کے دوستوں اور انقلاب کے داعیوں نے گرینڈ الائنس بنانے پر بڑا زور لگایا مگر کپتان خان نہیں مانے۔ وہ مانتے بھی کیوں؟ گرینڈ الائنس میں ان کی حیثیت ایک کھلاڑی کی ہو جاتی جبکہ وہ تو کپتان ہیں۔ شیخ رشید ایک عرصہ سے تمام محب وطن سیاسی جماعتوں کو ایک ہونے کا اکسیری مشورہ دے رہے ہیں۔ چوہدری برادران نے بھی محب وطن سیاسی جماعتوں کو گرینڈ الائنس کی صورت میں اکٹھے ہونے کی دعوت دی لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی۔ قادری صاحب انتخابات سے عمل میں آئی حکومت کو جعلی قرار دیتے ہوئے پورا نظام بدلنے کی بات کرتے ہیں‘ جبکہ ان کے انقلابی ساتھی اپنے طویل سیاسی کیریئر میں انتخابات لڑنے اور جیتنے کے چمپئن مانے جاتے ہیں۔ شیخ رشید اور چوہدری برادران کی سیاسی اینٹری جنرل ضیاالحق کے غیر جماعتی انتخابات سے ہوئی اور پھر انہوں نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ حیرت ناک امر ہے کہ جماعتی اور غیر جماعتی انتخابات کے آل ٹائم فیورٹ کھلاڑی انتخابات کے بجائے براہ راست انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں۔ ہمارے یہ مہربان کہہ رہے ہیں کہ تمام محب وطن سیاسی جماعتیں نون لیگ کی حکومت کے خلاف متحد ہو جائیں۔ یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ میاں برادران بھی رجسٹرڈ محب وطن ہیں۔ ان کی اینٹری بھی ضیاالحق کے غیرجماعتی انتخابات سے ہی ہوئی تھی‘ لہٰذا ان کی حب الوطنی پر شک نہ کیا جائے۔ 
23 جون کے دن پروفیسر قادری نے ٹیلی وژن پر حکومت کو ''بکری‘‘ بنا رکھا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ انہوں نے ہیوی مینڈیٹ والی حکومت کے ہینڈز اپ کرا رکھے ہیں۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور کو بہانے سے بلایا گیا‘ پھر یوں لگا کہ گورنر صاحب کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ جنا ح ہسپتال میں گورنر صاحب کی موجودگی میں ہی پروفیسر قادری نے وزیر اعظم نواز شریف کو ہٹلر اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو مسولینی قرار دیا اور گورنر کچھ نہ کہہ سکے۔ دنیا میں کہیں کسی ہسپتال میں دیواروں پر نہیں لکھا ہوتا کہ ''مریضوں کے آس پاس اونچی آواز میں بات مت کریں‘‘۔ پاکستان میں ہسپتالوں میں جابجا اونچا بولنے سے منع کیا گیا ہوتا ہے لیکن یہاں پروفیسر اور علامہ بھی آہستہ بات نہیں کرتے۔
جس روز پروفیسر قادری صاحب کی انقلاب افروز واپسی ہوئی لاہور میں معمولات زندگی معمول کے مطابق چل رہے تھے۔ عین جس وقت قادری صاحب جناح ہسپتال میں میاں برادران کو خطابات سے نواز رہے تھے میں ان سے صرف چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع پٹرول پمپ پر اپنی گاڑی پالش کرا رہا تھا اور وہاں کسی کو خبر تک نہ تھی کہ ہمارے ہاں انقلاب آ چکا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ اس روز کاروبار زندگی معمول کے مطابق چل رہا تھا؛ تاہم نیوز چینلز یہ بتا رہے تھے کہ حکومت چند گھڑیوں کی مہمان ہے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے 10 اپریل 1986ء کا وہ دن یاد آ گیا‘ جب محترمہ بے نظیر بھٹو لند ن سے لاہور آئی تھیں اور لگ بھگ 30 لاکھ لوگوں نے ان کا استقبال کیا تھا۔ میاں نواز شریف اس وقت وزیراعلیٰ تھے‘ جنہوں نے اپنے ایک بیان میں لوگوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو چند ہزار کا مجمع قرار دیا تھا۔
23 جون 2014ء کے دن میں سوچ رہا تھا کہ 26 سال بعد بھی ہماری سیاست اور صحافت بدلے نہیں۔ ہم جہاں سے چلے تھے‘ اب بھی وہیں کھڑے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارا تعلق کسی عظیم قوم سے نہیں ہے لیکن تاریخی اعتبار سے ہم نے اپنے آپ کو تفاخرانہ احساسات سے لبریز رکھنے کے لیے ایک عظیم الشان نشاۃ ثانیہ کا خواب محفوظ کر رکھا ہے۔ ایک دو یا چار پانچ بڑے انسانوں سے پوری قوم عظیم نہیں ہو جایا کرتی۔ اقبال ؒ نے فرمایا تھا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ 
ہم نے فرد اور افراد کے بجائے اپنے قائد، اپنے پروفیسر، اپنے علامہ اور اپنے پیرومرشد کو نجات دہندہ سمجھ لیا‘ جس سے ہمارا حال دگرگوں اور مستقبل مایوس کن ہو چکا ہے۔ مانا کہ دیگر اداروں میں براجمان لوگ بھی غیرمعمولی نہیں ہیں لیکن سیاست اور صحافت سے جڑے افراد نے بھی اپنا کردار ایمانداری سے ادا نہیں کیا۔ جب تک ہم سچ بولنا اور سچ سننا شروع نہیں کریں گے‘ ہمارا مقدر نہیں بدلے گا۔ مشرقی پاکستان سے لے کر بلوچستان تک اور کراچی سے لے کر خبیر پختونخوا تک ہمیں سچ کا سامنا کرنا چاہیے اور اس راہ پر چلتے ہوئے انقلا ب کو مجمع اور طیارہ میں دھرنے اور گھیرائو جلائو کو انقلاب بنا کر پیش کرنے کی عادت کو ترک کرنا ہو گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں