جب اقتدار کا سورج نصف النہار پر ہوتا ہے تو زوال کا سفر بھی اقتدار کی غلام گردشوں میں سے اپنا راستہ بنالیتا ہے۔ تکبر کی انتہاؤں پر کھڑے لوگوں کو یہ احساس تک نہیں رہتا کہ اقتدار کی طاقت کا رخ عوام کی طرف موڑنے والے تاریخ میں زندہ رہتے ہیں اور ان کی رخصتی کا منظر خواہ وہ دنیا سے رخصتی ہو یا اقتدار سے، یادگار ہوتا ہے اور چاہنے والے انہیں آہوں ،سسکیوں اور آنسوؤں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں کوئی اچھی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔ عوام کی مرضی کے بغیر اقتدار پر قبضہ فیشن بنتا رہا ہے۔ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو اقتدار پر شب خون مار کر قبضہ کیا تھا ۔ میاں صاحب کی حکومت اچھی تھی یا بری ،اس کا فیصلہ عوام کو اگلے انتخاب میں ووٹ کے ذریعے کرنا تھا لیکن پرویز مشرف نے یہ حق اپنے نام کر لیا کہ نوازشریف کی حکومت ملک کے مفاد اور عوام کی خواہشوں کے برعکس کام کررہی تھی ،اس لیے اسے ہٹانا ضروری ہو گیا تھا۔بری حکمرانی اور جمہوری روایات کی پامالی ماضی کے فوجی حکمرانوں کے ایسے تحفے ہیں جنہیں فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ پاکستان میں جمہوریت کو بار بار پٹڑی سے اتارنے کا چلن اسی صورت میں رک سکتا ہے جب کسی کو اس کی سزا ملے۔ پاکستان میں پہلی فوجی بغاوت کے سرخیل ایوب خان نے لندن کے ایک ہوٹل میں بیٹھ کر سوچا کہ وہی ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور عوام کی ترقی اور خوشحالی کا حل انہی کے پاس ہے۔ یہی سوچ ملک میں پہلے مارشل لاء کا سبب بنی ۔ انہوں نے کم و بیش گیارہ سال حکومت کرکے اقتدار ان الفاظ کے ساتھ یحییٰ خان کے حوالے کیا کہ پارلیمانی جمہوریت ہی ملکی مسائل کا حل ہے۔ ایوب خان کے طرز سیاست کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھاکہ وہ اپنی حکمرانی کو مضبوط دیکھنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے کروڑوں عوام کی خواہشوں کو کچل کر بنیادی جمہوریت کے نام پر 80 ہزار بی ڈی ممبرز کی آمریت مسلط کر دی۔ انہی 80 ہزار لوگوں کو الیکٹورل کالج کا درجہ دے کر نہ صرف اپنے اقتدار کو مضبوط کیا بلکہ ان کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی کرائے گئے۔ یہ 80 ہزار بی ڈی ممبرز ڈپٹی کمشنر، ایس پی، پٹواری اور تھانیداروں کی مٹھی میں ہوتے تھے۔ پھر مغربی پاکستان کے ایک گورنر نواب آف کالا باغ نے ایوب خان کے مخالف سیاستدانوں کو انہی عناصر کے ذریعے ایسا سبق سکھایا کہ کسی کو ایوب خان کے نظام کو چیلنج کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ جبر خواہ کتنا ہی اونچا ہو، اسے زوال کی طرف جانا ہوتا ہے۔ ایک ایک کرکے ایوبی آمریت کے مہرے اور بت گرتے گئے ۔ عوام نے اپنے حق کیلئے آواز اٹھائی اور گلی کوچوں کو تحریر اسکوائر بنا دیا۔ اس کے ساتھ ہی جبر کا گیارہ سالہ دور رخصت ہو گیا۔ پھر یحییٰ خان آئے اور آئین منسوخ کرکے دوسرا مارشل لاء لگا دیااور عوام کا یہ حق تسلیم کر لیا کہ ملک کا سیاسی نظام ان کے ووٹوں سے ہی طے ہوگا۔ ایک ووٹ ایک فرد کے فارمولے پر یحییٰ خان چاہتے تھے کہ ایسی پارلیمنٹ آ جائے جس میں کسی جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہو۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے عوامی لیگ کے حق میںفیصلہ دے کر یحییٰ خان کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ پھر ،ملک ہی آدھا رہ گیا۔ پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے دوسرے جرنیل کے اقتدار کو ناجائز قرار دیا اور یحییٰ خان کیلئے غاصب کے لفظ کا انتخاب کیا۔ پھر ریفری کی حیثیت سے آنے والے ضیاء الحق نے پاکستان کی تہذیب، ثقافت، معاشرت اور معیشت کی جڑیں ہی ہلا کر رکھ دیں۔ میاں نواز شریف نے دوسری مرتبہ اقتدار میں آ نے کے بعد جب ضیاء الحق کی آمرانہ ترامیم کو ختم کیا اورفاروق لغاری سے صدر پاکستان کی حیثیت سے وہ تمام اختیارات واپس لیے جو ضیاء الحق کے پاس ہوتے تھے تو یہ حقیقی جمہوریت کی جانب قدم تھا۔ اس سے آمریت کے دروازے بند ہو رہے تھے اور آئین کی بالادستی کا چرچا تھا،مگر اچانک آرمی چیف نے اقتدار میں فوجی شراکت کا بیان دے دیا تو یہ بات ایک منتخب وزیراعظم کو منظور نہیں تھی۔ پرویز مشرف کو آرمی چیف کی حیثیت سے اس لیے آگے بڑھایا گیا تھا کہ وہ غیر جانبدار اور ایک پروفیشنل جرنیل ہیں اور اپنے کام سے کام رکھیں گے۔ وزیراعظم نے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو پاکستان مدعو کرکے دو پڑوسی ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات قائم کرنا چاہے اور واجپائی کو مینار پاکستان کے سائے تلے لے کر گئے ۔واجپائی صاحب ساری زندگی ایسی جماعت سے وابستہ رہے جو دوقومی نظریہ کو تسلیم ہی نہیں کرتی تھی، ان سے دوقومی نظریہ کو تسلیم کرانا نواز شریف کی بڑی کامیابی تھی۔ مگر اس کامیابی کو کارگل کے حادثے نے گہنا دیا۔ کچھ عرصہ قبل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی چودہ سالہ خاموشی توڑتے ہوئے ایک کتاب لکھی جس میں کارگل آپریشن کے حوالے سے اس کے ذمہ دار جرنیل پرویز مشرف کے فیصلوں ،اقدامات اور حکمت عملی کو چیلنج کیا۔پرویز مشرف بھی اپنے سابق جرنیلوں کی طرح اسی سکرپٹ پر چلتے رہے ۔ پہلے سیاستدانوں کو کرپٹ اور بدعنوان کہہ کر سزائیں دیں پھر انہیں ساتھ ملا لیا اورانہی کے ذریعے ایک سیاستی جماعت بھی بنا لی۔ ایوب خان کی طرح بنیادی جمہوریت کا نظام قائم کرکے انہی خاندانوں کے لوگ ضلعی حکومتوں پر جما دئیے۔ پرویز مشرف انداز حکمرانی میں سابقہ جرنیلوں کے نقش قدم پر چل رہے تھے تو انجام مختلف کیسے ہو سکتا تھا۔ آخر کار انہیں 18 اگست 2008ء کو اپنے 9 سالہ دور اقتدار کے بعد ملک چھوڑنا پڑا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے ایک ایسے صدر کو بینڈ باجوں سے رخصت کیا جس نے دو بار ملک کا آئین توڑا، جمہوریت پر شب خون مارا اور پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں دھکیل کر پتھر کے دور میں بھیجنے کی کوشش کی تھی ۔ انہوں نے لندن جا کر ایک سیاسی جماعت قائم کی اور یہ فرض کر لیا کہ ان کا پاکستان کے اقتدار سے نکلنا حالات کا جبر تھا، وہ اب بھی عوام کے مقبول لیڈر ہیں اور عوام کی بہت بڑی تعداد اب بھی ان کی حامی ہے۔ جلاوطنی ختم کرکے ایئر پورٹ پر آئے تو چند درجن افراد کے استقبال نے انہیں مایوس کیا۔ اور پھر ایک کے بعد ایک کیس بنتا گیا۔ اب مشرف صاحب اپنے قریبی ساتھیوں کی بے مروتی اور عوام کی بے رخی کو دیکھتے ہوئے اڑان بھرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے یہ سوال پوچھا جاناچاہیے کہ وہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کا حساب کب لے گی ؟