سیاست کے کھیل میں انتخابی عمل کی بساط اس وقت بچھائی جاتی ہے جب کامیابی حکمران قوتوں کی چوکھٹ پر دستک دینے والی ہو۔ اب نیا قضیہ سامنے آیا ہے اور2009ء کے بعد آئینی ضرورت کا ایک تقاضا پورا نہیں ہو رہا۔ اس کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک بہانہ ہر طرف سے سامنے آ رہا ہے۔ موجودہ سیاسی قوتیں اور حکومتیں قانون ساز اداروں کے پیچھے چھپنے سے بھی گریز نہیں کررہیں۔ اگر ہم پرویز مشرف کو دیکھیں تو انہوں نے عوامی وزیراعظم کا تختہ الٹ کر اپنے سیاسی عزائم کو چھپایا نہیں۔ سات نکاتی ایجنڈے کے آغاز کو انہوں نے گراس روٹ لیول کی حکمرانی کا نام دیا۔ 23 مارچ 2000 ء کو ضلعی حکومتوں کا جو نظام متعارف کرایا گیا،اس کا بنیادی مقصد ضیاء الحق اور ایوب خان کی طرز سے ذرا مختلف بلدیاتی نظام کے بارے اپنے عزائم کا اعلان تھا ، جس میں ضلعی حکومتیں اس حد تک طاقتور بن گئیں کہ تیس سے زائد محکمے اس کے زیر اثر آ گئے۔ 2002ء کے قومی انتخابات کے بعد صوبائی حکومتیں اختیارات اپنی طرف کھینچتی رہیں۔ ضلعی حکومتوں کا فیصلہ مسلم لیگ (ق) اور صدر پرویز مشرف کی مشاورت سے طے ہوتا رہا۔ 2008 ء کے انتخاب کے بعد ہونے والی ترامیم میں بلدیاتی حکومتوں کا چیپٹر مرکزی حکومتوں سے صوبوں کو منتقل ہو گیا۔ بلدیاتی انتخاب کے حوالے سے آمرانہ دور حکومت میں بلدیاتی انتخاب بروقت ہوتے رہے۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے دو دو انتخابات کرائے۔ 1985ء کے بعد صوبوں میں پنجاب واحد صوبہ تھا جہاں تین انتخابات ہوئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے 4 مرتبہ اقتدار میں رہنے کے باوجود ایک مرتبہ بھی انتخابی عمل کو شروع ہی ہونے نہیں دیا،خاص طور پر چارٹر آف ڈیمو کریسی کے بعد حکمرانی کے پانچ سال بغیر کسی بلدیاتی انتخاب کے گزار دیئے ۔ کسی اور صوبائی حکومت نے بھی اس کیلئے کوشش نہ کی۔ بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان کو میدان میں آنا پڑا۔ مرکز اور صوبائی حکومتوں کو یاد دہانی کرانا پڑی کہ آئینی ذمہ داری سے انحراف کسی صورت میں قبول نہیں ہے۔ پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بلدیاتی الیکشن کیلئے آمادہ ہونا پڑا پھر سیکرٹری دفاع کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن کیلئے آمادہ ہوئے مگر سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دیئے ہوئے شیڈول کے مطابق انتخاب کیلئے آمادہ نہیں۔ اب تازہ نئی صورتحال یہ ہے تحریک انصاف سے لے کر سندھ تک انتخاب سے فرار کی تدبیریں ابھر ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے قومی اسمبلی میں انتخاب کے التوا کی قرارداد منظور کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ جاری ہونے والے شیڈول کے مطابق انتخاب کیلئے تیار نہیں ہے۔ یہ قرارداد ایک ایسے موقع پر پاس کی گئی جب تحریک طالبان پاکستان نے ملا فضل اللہ کو اپنا امیر نامزد کیا تھا ۔اس پر بحث اور غورو فکر کیلئے کسی جمہوری اور انقلابی قوت کیلئے وقت نہیں تھا۔ اس اہم ایشو کی بجائے ہر سیاسی جماعت اپنے فائدے کیلئے بڑھ چڑھ کر انتخاب کے التوا کے حق میں قومی اسمبلی میں بول رہی تھی۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے سات نومبر کو تحریک التوا پیش کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ سندھ اور پنجاب میں انتخابی عمل کو اس لیے ملتوی کر دیا جائے کہ جلد بازی میں انتخاب کے انعقاد سے الیکشن کی ساکھ مشکوک ہو جائے گی اور بیلٹ پیپرز کسی اور ادارے سے نہیں صرف پرنٹنگ کارپوریشن سے ہی شائع کرائے جائیں۔ شاہ محمود قریشی ہی اس قرارداد کے محرک نہیں تھے بلکہ پیپلزپارٹی کے سید خورشید علی شاہ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے محمود اچکزئی، مسلم لیگ (ق) کے طارق بشیر چیمہ، ایم کیو ایم کے فاروق ستار اور مسلم لیگ (ن) کے برجیس طاہر اور شیخ آفتاب احمد بھی قرارداد پر دستخط کرنے والوں میں شامل تھے۔ ایوان کی انتخابات کے التوا کیلئے دلیل مضبوط ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ نے کرتاہے؛ البتہ اس کو پیش کرنے والے ایک کے علاوہ تمام ممبران قومی اسمبلی اسی نظام سے ابھرے ہیں۔ جہاں تک شاہ محمود قریشی کا تعلق ہے ان کا خاندان قیام پاکستان سے پہلے ڈسٹرکٹ بورڈ کے انتخاب میں گیلانیوں سے بھرپور مقابلہ کرتا رہا ہے۔ خود شاہ محمود قریشی نے سیاست میں قدم 1983 ء میں رکھا تھا ، مگر وہ جاوید ہاشمی کے بھائی کے مقابلے میں کونسلر کا انتخاب ہار گئے ،البتہ 1987 ء میں وہ دیوان عاشق کو شکست دے کر چیئرمین ضلع کونسل بنے۔ پرویز مشرف کے ضلعی انتخاب میں بھی وہ سرکاری امیدوار سکندر بوسن کو شکست دے کر ضلع ناظم بنے۔ ایم کیو ایم نے کراچی میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ ڈاکٹر فاروق ستار کو کراچی میٹروپولیٹن کا میئر بنا کر ہی کیا۔ دو مرتبہ بہاولپور سے ضلع ناظم بن کر طارق بشیر چیمہ نے اپنی سیاسی طاقت منوائی۔ سید خورشید علی شاہ کیلئے بلدیاتی انتخاب اچھا تجربہ ثابت نہیں ہوئے۔ وہ سکھر ڈپٹی میئر کا انتخاب اسلام الدین شیخ کے بھائی کے مقابلے میں ہار گئے تھے۔ آفتاب شیخ بھی اٹک میونسپل کمیٹی کے چیئرمین کی ہیٹ ٹرک مکمل کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان تمام کو تو بروقت بلدیاتی انتخاب کے حق میں بولنا چاہیے تھا۔ قرارداد کے بعد سندھ حکومت تو بلدیاتی انتخاب کے التوا کیلئے سپریم کورٹ چلی گئی ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے موجودہ صوبائی حکومتیں بھی کارکردگی کے حوالے سے اپنے کھاتے میں کوئی کارنامہ نہیں رکھتیں۔ بلدیاتی انتخاب آئینی ضرورت ہے اور خود سیاستدانوں نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے ان اداروں کو طاقتور بنانے کی شقیں شامل تو کیں لیکن اس ادارے کو متحرک بنانے کی عملی کوشش گزشتہ پانچ سالوں میں نظرنہیں آئی۔ بلدیاتی انتخاب سے جو تنازع شروع ہوا ہے اس سے حکومت اپنا دامن بچانا چاہتی ہے اور عدالت عظمیٰ سے کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں چاہتی ۔جہاں تک قومی اسمبلی کی قرارداد کا تعلق ہے آئینی ماہرین کے مطابق اس کی حیثیت مشورہ کی ہے۔ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ مئی 2013 ء کے بعد قانون سازی کرتیں۔ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ نے جو حکم دیا ہے اس پر عمل ہونا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخاب میں اترنے کیلئے تیار تو ہیںمگر انجانا خوف بھی ان کے پیچھے ہے۔ اب انہیں مناسب وقت کا بہانہ نہیں بنانا چاہیے اور ضیاء الحق کے 79 ء کے انتخاب کے ٹائم فریم سے ہی سبق سیکھ لینا چاہیے جب ایک ماہ میں پورے ملک کا انتخابی عمل مکمل ہو گیا تھا۔