حکومت درست ٹریک کی طرف بڑھ رہی ہے یا ماضی کی غلطیوں کی طرف لڑھک رہی ہے؟ قومی منظرنامے پر یہ سوال موضوع بحث ہے۔ دانشور پوچھتے ہیں کہ حکومت جتنا بڑا کام کرنے جا رہی ہے یہ اس سے ہو بھی سکے گا؟جہاں پرویز مشرف کے خلاف آئینِ پاکستان سے غداری کا مقدمہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے وہاں میاں نواز شریف نے مشاورتی کانفرنس میں ویژن 2025ء کی نقاب کشائی کرتے ہوئے کھری کھری باتیں کیں۔ وہ ڈرون حملوں پر خوب بولے،خارجہ پالیسی کو اپنی تقریر کا موضوع بنایا اورملک کے اقتصادی مستقبل کا نقشہ کھینچا۔ ایک طرف انہیں پرویز مشرف پر مقدمہ چلانا ہے اور دوسری طرف اصغر خان کے مقدمہ میں سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرنا ہے۔ اقتصادی صورتحال درست ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ صرف ایک ماہ میں مہنگائی 15 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ سرکاری ملازم جن کی تنخواہوں میں رواں مالی سال میں 10 فیصد اضافہ ہوا تھا سب سے متاثر ہوئے ہیں۔ان تمام مسائل کے باوجود پرویز مشر ف پر مقدمے کا فیصلہ وقت کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں آمریت کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے۔
میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ سے سابق جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت قائم کرنے کی استدعا کی؛چنانچہ وزیراعظم کی منظوری سے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میںخصوصی عدالت قائم کردی گئی جس کے دوسرے دو ارکان جسٹس طاہرہ صفدراورجسٹس یاور علی ہوں گے۔خصوصی عدالت سابق صدرکے خلاف 3نومبر2007ء کوایمرجنسی لگانے پرکارروائی کرے گی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا 14 رکنی لارجر بنچ 31 جولائی 2009ء کو متفقہ طور پر 3 نومبر کی ایمرجنسی اورکوکالعدم قرار دے چکی ہے۔3 نومبرکی ایمرجنسی کے بعدحلف اٹھانے والے سپریم کورٹ کے 10 اورہائی کورٹس کے 93 ججوں کوفارغ ہونا پڑا تھا۔عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کی زبردست پذیرائی ہوئی خاص طور پر امریکی رائے عامہ کے ترجمان واشنگٹن پوسٹ نے فیصلے کو ایک رپورٹ کا حصہ بنایا اور لکھا کہ ضیا الحق نے آئین پاکستان کوبارہ صفحات کا چیتھڑا قرار دے کر کہاتھاکہ وہ جب چاہیں اسے پھاڑ کر پھینک سکتے ہیں۔ بعدمیں آنے والے جرنیل نے اس آئین کی دھجیاں بکھیردیں اور اس کی رخصتی کے بعد منتخب وزیراعظم نے اس کے خلاف غداری کا مقدمہ پارلیمنٹ کی رضا مندی سے مشروط کر دیا۔ اب میاں نواز شریف کی حکومت میںایف آئی اے متحرک ہوئی ہے۔وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے پریس کانفرنس میںبتایا کہ ماضی میںنیشنل عوامی پارٹی پر بھی آئین کا یہی آرٹیکل متحرک ہواتھااور ولی خان کوساتھیوں سمیت غداری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔یہ مقدمہ خیبرپختونخوا میں پیپلزپارٹی کے اہم ستون اور بھٹو کے قریبی ساتھی حیات محمد خان شیرپائوکی بم دھماکے سے ہلاکت کے بعد قائم کیاگیا۔ کابینہ کی منظوری سے فروری 1976 ء میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی اوراس کی املاک کوضبط کر لیاگیا۔ اس وقت کی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف ریفرنس دائر کیا جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ یہ پارٹی ایسے کام کر رہی ہے جو پاکستان کی حاکمیت اور سالمیت کے لیے خطرناک ہیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان حمود الرحمٰن کی سربراہی میں جسٹس یعقوب علی خان، جسٹس انوار الحق، جسٹس افضل چیمہ اور جسٹس گل پرمشتمل بنچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔ خان عبدالولی خان نے کمیشن کے ایک رکن افضل چیمہ پر اعتراض کیا کہ وہ حکومت پاکستان کی وزارت قانون اور پارلیمانی امور کے سیکرٹری تھے۔ اس اعتراض کو مسترد کر دیا گیا۔سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف حکومت کے ریفرنس کی توثیق کر دی۔ اس کے بعد صدر پاکستان
فضل الٰہی چودھری نے آرڈیننس کے ذریعے خصوصی عدالت قائم کی جس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 121کے تحت نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ابتدا میں خصوصی عدالت میں خان عبدالولی خان، عطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو اور خیر بخش مری سمیت 9 ملزم ''حیدر آباد ٹربیونل‘‘ کے نام سے خصوصی عدالت میں پیش ہوئے۔ ملزموں کی تعداد بڑھتے بڑھتے 92 ہو گئی جبکہ استغاثہ نے 445 گواہوں کی فہرست پیش کی ۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء تک خصوصی عدالت میں صرف 30 گواہ پیش ہوئے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت مقدمے کو کتناعرصہ چلانا چاہتی تھی ۔سیکرٹری داخلہ روئیداد خان حیدر آباد ٹربیونل ختم کرنے کی تجویز لے کر ضیا الحق کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ اس مقدمہ کے ختم ہونے سے حکومت کو کتنا فائدہ ہو سکتا ہے۔ ضیاء الحق خود حیدر آباد جیل گئے جہاں انہوں نے قوم پرست لیڈروں سے ملاقات کی اور یکم جنوری 1978ء کو حیدر آباد ٹربیونل کے ملزموں کو معافی دے دی گئی۔پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ کے حوالے سے معروف قانون دان شریف الدین پیرزادہ کا کہنا ہے کہ اس سے پنڈورا باکس کھلنے کا امکان ہے۔ میاں نواز شریف کی کوشش ہے کہ معاملہ 3 نومبر کی ایمرجنسی تک رہے، ایمرجنسی کے نفاذ میں جن لوگوں کا کردار ہے صرف وہی اس کا سامنا کریں۔ چودھری نثار نے اچانک پریس کانفرنس کرکے جو دھماکہ کیا اس سے اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی پریشان ہے۔
لیکن پرویز مشرف نے جس طرح منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجا وہ بڑا عجیب تماشا تھا۔ایک جرنیل نے کس طرح فضا سے زمین پر بیٹھے وزیراعظم کی حکومت ختم کر دی۔حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد پی سی او جج بنائے اورنام نہاد مثالی جمہوریت قائم کرنے کی آڑ میں اپنے اقتدار کو طول دیا۔ایوب خان اور ضیاء الحق کی طرح بلدیاتی نظام محض اپنے وفاداروں کی فوج بنانے کے لیے بنایا، ریفرنڈم کے نام پر اپنا مقبولیت کاڈھونت رچایا۔ منتخب صدر پاکستان کو زبردستی ایوان صدر سے نکالا اورخود ہی صدر پاکستان بن بیٹھے۔ سچ بات یہ ہے کہ پاکستان کی آمرانہ حکومتوں کوامریکہ کی ہمیشہ حمایت حاصل رہی ہے۔امریکہ نے نائن الیون کے بعد مشرف حکومت پرعائد پابندیاں اٹھالیں۔جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے2002ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی سے ایک درجن کے قریب ایم این اے توڑ کر پیٹریاٹ کے نام سے ایک گروپ بنایا گیا اور ان سے میر ظفر اللہ جمالی کے لیے حمایت حاصل کی گئی۔ یاد رہے کہ بلدیاتی انتخابات جسٹس (ر) عبدالحمید ڈوگر کی سربراہی میں ہوئے۔ صدر بننے کیلئے پرویز مشرف نے وردی پہن کر انتخاب لڑنے کا جو طریقہ اختیار کیا وہ آج ان کے لیے مشکل کا باعث بنا ہوا ہے۔ میاں نواز شریف کے لیے اب ضروری ہے کہ گمبھیر مسائل حل کرنے کے سلسلے میں وہ وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے درمیان اختلافات کودور کریں۔وزارت خزانہ میں تبدیلیوں کا آغاز کریں تاکہ وہ انتخابی منشور کے مطابق عوام کو ریلیف فراہم کرسکیں۔وزیر اعظم کو اپوزیشن کے مطالبات اور رویے کوبھی مثبت انداز سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔