دلوں میں بسنے والے شہروں میںایسے جابسے ہیں کہ گائوں کا پتھریلا رستہ تکتے تکتے بوڑھے ماں باپ ،متروںاورسکھیوںکی آنکھیں پتھراجاتی ہیں،تب جاکرکہیں کچی منڈیروں پرکوابولتاہے اورہماری عید ہوتی ہے۔
ہمیں رتی برابرشبہ نہیں کہ آپ اہل شہرنے عید الاضحیٰ کی بھرپورخوشیاں مناکردوبارہ ملکی تعمیروترقی کے مشن پر کمرکس لی ہے۔ہمیں جدائیوں کے گھائولگانے والے ہمارے تارکین ِدیہات جوشہروں سے عید منانے اپنے اپنے گائوں آئے تھے،وہ بھی ہم پسماندوں کی خوشیاں دوبالا کرکے اس مشن میںپھرسے آپ کے ہم رکاب ہوچکے ہیں۔آپ نے ہمارے ان پردیسیوں کواپنے مشن ہذاکے جال میں ایساپھنسایاہے کہ بچپن اورلڑکپن میں ایک پل کی جدائی نہ سہنے والے سال بھرپلٹ کر ہماری خبرتک نہیں لیتے۔کوئی ہجرتِ خوداختیاری کے تحت جانے والوں کو بتائے کہ فرقت کی صدیاں جاتی ہیں تو وصل کی گھڑیاں آتی ہیںاورپھر آکے چلی جاتی ہیں۔ تب ہماری ٹاہلیوں کی چھائوں،کچے رستوں کی دھول اورچاند کی چاندنی پھر سے اداس ہو جاتے ہیں۔بجا کہ اب تو بے نوائوں کوبھی تیزترین رابطہ میسر ہے مگروہ جو پریم پترکے دور میں نوشی گیلانی نے کہاتھا:
مرا شعور بہلتا نہیں ہے لفظوں سے
میں تیرے خط کے نہیں،تیرے انتظارمیں ہوں
چلیںاس دکھڑے کو آئندہ کے کسی کالم پراُٹھارکھتے ہیں۔آج موقع کی مناسبت سے یہ عرض کرناہے کہ ہم بارانی اورپہاڑی لوگوں کی عید شہروں کی طرح چکاچوند اورشاندار تونہیں ہوتی،البتہ ہم بھی اس تہوارسے مقدوربھرخوشیاں کشیدکرہی لیتے ہیں۔آپ اہل شہر توخیربڑے پریکٹیکل واقع ہوئے ہیں،جنہوں نے دن رات کی محنت اورایمانداری سے گھروں اورشہروں کوجنت نظیربنارکھاہے۔البتہ ہم دیہاتی آج بھی درگاہوں اورخانقاہوں پرمنتوں،مرادوں اورچڑھاوں کے سہارے زندگی کی منازل سرکرنے والی مخلوق ہیں۔اسی لئے توآپ اہل شہر کے مقابلے میں اتنے پسماندہ رہ گئے ہیں۔مثال زیرِنظرہے کہ ازل سے ابن آدم کے سب سے بڑے مسئلے یعنی محبوب کورام کرنے کے لئے آپ کے پاس شائستہ طرزگفتاراوردولت کے علاوہ کئی جدیدطلسمی گرہیں۔جبکہ ہم اس کارخیرکی خاطرابھی تک صدیوں پرانے چلن پرقائم ہیں کہ:
چلو اس کا نہیں ، خدا کا احسان لیتے ہیں
وہ مِنت نہیں مانتا تو مَنت مان لیتے ہیں
ہماری ذاتی مثال ہی لے لیجئے ۔آپ کی دعاسے ہم خود بھی فقیرلوگ ہیں اورپیروں، فقیروںکی درگاہوں پر حاضریاں دینے والے بھی ہیں۔اس نیک مقصد کی خاطرعید کا موقع ہمارے لئے موزوں ترین ہوتاہے ،جب ہمارے ملازمت پیشہ اوربیرون ملک مقیم کزن بھی گائوں میں حاضرہوتے ہیں اورہم لوگ اپنے بچوں سمیت کل ملاکر لگ بھگ بیس مردانہ نفربن جاتے ہیں۔ایسے پرمسرت مواقع پر آپ کے ان خادموں نے پہلے ہی سے کسی دورافتادہ پہاڑی مقام یا جنگل کے کسی دربارپر کوئی نہ کوئی منت مان رکھی ہوتی ہے۔یہ منت ہمیشہ بکروں یادیسی مرغوں کی شکل میں دی جاتی ہے۔ہم عید کے دوسرے دن علی الصباح اپناسازوسامان اورلاٹھیاں اٹھائے سوئے منزل روانہ ہوجاتے ہیں،جہاں ہم یہ جانور ذبح کر کے خودپکاتے ہیں اوراقرباپروری کی بہترین مثال قائم کرتے ہوئے خود ہی تناول بھی فرماتے ہیں۔ بخداتناول ماحضرکے بعدبرگدیاپیپل کے گھنے پیڑکی چھائوں میںسستاتے جنگل کی نشاط انگیزاورجادوئی خاموشی میں پرندوں اورجھرنوںکے گیتوں کی منظرکشی کے لئے ہمیں کبھی بھی اس منظرکے شایان شان الفاظ نہیں سوجھے۔
جہاں تک ہماری منتوں کا تعلق ہے تو یہ کثیرالمقاصد ہوتی ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں کی سوچ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے گرد ہی گھومتی ہے مگر خوش قسمتی سے ہماری ترجیحات ایسی محدود نہیں ۔ اپنی نیکیوں کی تشہیر کوئی احسن عمل نہیں لیکن موضوع کی مناسبت سے مجبوراً آپ کو بتانا پڑرہا ہے کہ ہم اکثر وسیع تر قومی مفاد اور بعض اوقات تو بین الاقوامی مسائل کے حل ، نیز امت مسلمہ کے خلاف اغیار کی سازشیں ناکام بنانے اور ان کے دانت کھٹے کرنے کی خاطر بھی خانقاہوں پر جا کر بکروٹے اور چُوچے شُوچے ذبح کرتے رہتے ہیں ۔ جیسے ملک میں جمہوریت یا امن و امان کی بحالی کے لیے پیر عالم شاہ بادشاہ کی درگاہ میں دیسی مرغ پکا کر کھانے کا عزم کرلیا اور کبھی وطن عزیز سے لوڈ شیڈنگ ،کرپشن یا غربت جیسی لعنت کے خاتمے کی خاطر سخی جھاڑیوں والی سرکار کے ہاں بکرا نذر کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اور کچھ نہیں تو اتحاد بین المسلمین کے ارفع مقصد کے حصول کے لیے پانچ چھ مرغے بغلوں میں دبائے ایک مشکل پہاڑی سفرکے بعدگمٹی والی سرکار کی خدمت میں حاضر ہو گئے ۔
دریں حالات آپ سے گزارش ہے کہ اگر کبھی لوڈ شیڈنگ میں کمی آ جائے ، گیس سے آپ کے گھر کا چولہا جلنے لگے ،بند سی این جی کھل جائے ،تیل کی قیمتوں میں کمی کا سرکاری اعلان ہوجائے ،بارشوں سے سیلاب زدہ علاقوں میں زندگی بحال ہوجائے ،دہشت گردی کی کوئی واردات ناکام ہو جائے ، کوئی برادر یا دوست ملک وطن عزیز میں اقتصادی راہداری کے منصوبے پر دستخط کرے یا دیگر سرمایہ کاری کے منصوبوں کا اعلان کرے ، دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑ جائیں یا کوئی بین الاقوامی تنازع حل ہو جائے تو مہربانی فرما کر ان کامیابیوں میں شامل ہماری متذکرہ بالا ادنیٰ سی کاوشوں کو بھی سراہتے ہوئے ہمارے حق میں دعا ئے خیر کر دیجئے گا۔ خدا آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔
آپ ہم سے پوچھیے کہ ہمیں یہ منتیں دینے کا چسکا پڑا کیسے ؟ جواب عرض ہے کہ جب قبلہ ضیاء الحق دام برکاۃ کے اقتدارکاسورج نصف النہارپر تھا تو ہم نے پہلی دفعہ مرزا اورصاحباں کی قدیم پریم کہانی سنی۔ صاحباںنے مرزا کی محبت میں مَنت مانی تھی کہ ''حجرے شاہ مقیم دے ، اک جٹی عرض کرے /میں بکرا دیواں پیر دا، جے سردا سائیں مرے ‘‘ (اگر میرا خاوند مرجائے تو میں شاہ مقیم کی درگاہ میں بکرا قربان کروں گی ) اس وقت اگر چہ ہم میچور نہ ہوئے تھے مگر شاہ مقیم کی کرامات سن کر بے اختیار دل مچل اٹھا کہ ہم بھی ان کے حجرے حاضر ہوکر بکرے کی ایک عدد منت دیں ۔ دراصل ہوا یوں تھا کہ ان دنوں بد قسمتی سے ایک خونخوار بھیڑئیے نے ہماری بھیڑ بکریوں کے باڑے کو نشانے پر رکھ لیا تھا۔ خدا جانتا ہے کہ اس خون آشام جانور نے ہم غریب جاٹوں کا بڑا نقصان کیا اور ہمارے کتنے ہی معصوم اور بھولے بھالے بکروٹوں اور لیلوں سے اپنے پیٹ کے جہنم کی آگ بجھائی ۔ تنگ آ کر ہم نے کلہاڑی والی سرکار کے دربار میں اس کے واصلِ جہنم ہونے کے لیے بکرا دینے کی منت مانی ۔ خدا کا بڑا کرم ہوا ، بھیڑئیے کو کیڑے پڑ گئے اور وہ ایک دن کھیتوں میں مردہ پایا گیا۔ہم نے فوراًویرانے میں اس کامل باوے کی خانقاہ میں جاکربکراذبح کردیا۔ بس اس دن سے ہمارے ہاں منتوں ،مرادوں کا ایسا سلسلہ چل نکلا کہ آج تک جاری و ساری ہے ۔ خاندان کا ہر بچہ اپنے ذرا بڑا ہونے کا بے چینی سے انتظار کرتا ہے تاکہ وہ اس کاررواں کا حصہ بن کر ثواب دارین حاصل کر سکے ۔
آج کل بھی ہم کوئی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے نہیں ہیں ۔ مولا کی مہربانی سے ہم کوئی گھگھو گھوڑے تو نہیں کہ ٹرمپ کی طرف سے ملک پرحملے کی حالیہ دھمکیوںپرخاموشی سے حالات کا تماشا کرتے رہیں اور خدانخواستہ کل کلاں یہاں بھی ڈرون حملے شروع ہوجائیں۔سخت ذہنی تنائوکی اس کیفیت میں ہمیں معلوم ہواکہ باواڈانگ والی سرکارنے بہت دورجنگل کے بیچوں بیچ منگل بنارکھاہے اوربعدازمرگ بھی سرکار کے دربارمیںحاجت روائی کا بازار گرم ہے۔پس ملک وقوم کے ان ادنیٰ خادموں نے درگاہ مذکور پر اس تنازع کے پرامن حل کے لئے منت مانی اوربغیروقت ضائع کیے اس عیدالاضحیٰ کے دوسرے دن ہماراقافلہ قربانی کا گوشت اٹھائے، دشوار گزار پہاڑی رستوں پرگرتے پڑتے ڈانگ والے بادشاہ کی مرقدپر ایڈوانس منت دینے حاضر ہوگیا۔ (جاری ہے)