مقابلے کے امتحان کے پرچے

اچھنبے کی کوئی بات نہیں ۔ سرکاری افسران کا ایک گروہ معاشرے سے کریم کشید کرنے کے عمل میں ملاوٹ کا مرتکب پایا گیا ہے ۔ محکمہ اینٹی کرپشن لاہور ریجن نے اس گروہ کے خلاف ٹھگی کا مقدمہ درج کیا ہے جو دال دلیے کے عوض کئی برس سے امیدواروں کو سی ایس ایس کا امتحان پاس کرواتا آ رہا تھا ۔ یہ کاریگر پوسٹ آفس عملے سے مک مکا کر کے اسلام آباد بھیجے جانے والے پرچوں کی سیل کھول کر حل شدہ پرچوں کی شیٹس اس میں ڈالتے اور دوبارہ سیل کر دیتے ۔ اگر ایسی بھرپور امداد ی کارروائیوں کے باوجود بھی امسال سی ایس ایس کے نتائج کے مطابق تحریری امتحان میں صرف 3.32فیصد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں تو پھر کریم ہذا کا معیار جانچنا چنداں مشکل نہیں ۔ 
آمد م بر سرِ مطلب ! کسی نامعلوم پوسٹ آفس میں ان پیپرز کے ساتھ نئی شیٹس لگاتے وقت کمرئہ امتحان میں حل کردہ جو شیٹس اتاری گئیں ، خوش قسمتی سے ان کا ایک بنڈل ہمارے ہاتھ لگ گیا ہے ۔ مزید خوش بختی دیکھئے کہ بنڈل ہذا جنرل نالج کے حل شدہ پرچوں پر مشتمل ہے ۔ اگرچہ ''نالج ‘‘کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی خاصی '' ہائی کوالٹی‘‘ کی ہے ، تاہم ہم ان کا بساط بھر اردو ترجمہ کر کے وقتاً فوقتاً آپ کے جنرل نالج میں اضافہ کرتے رہیں گے ۔ نمونے کے طور پر آج پہلا پیپر ملاحظہ فرمائیے ۔ ہمارے خیال میں تو اس پرچے پر بھی ایک پرچہ بنتا ہے ۔ 
سوال: تاریخ سے ثابت کریں کہ جذبہ صادق ہو تو انسان کی جسمانی معذوری کسی مقصد اولیٰ کے حصول میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔ 
جواب: تاریخ عالم میں فقط دو کردار ایسے ملتے ہیں ، جن کی ڈکشنریوں میں '' نا ممکن‘‘ کا لفظ نہیں تھا ، ایک نپولین اور دوسرا کیدو۔ کیدو ہیر کا چچا تھا جو ایک ٹانگ سے معذوری کے سبب بیساکھی کے سہارے چلتا تھا مگر اس کے عزم صمیم کو کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں تھی ۔کیدو کی حیات و خدمات کا اجمالی سا جائزہ لیا جائے تو کھلتا ہے کہ بنیادی طور پر کیدو ایک نظریے، ایک تحریک، ایک مشن کا نام ہے ،جس کا ماٹو ہے '' یہ شادی نہیں ہو سکتی‘‘ ۔
کیدو کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے جو نہ صرف معذوروں کے لیے مشعل راہ ہے بلکہ ہاتھ پائوں سلامت رکھنے والے ان ہڈ حراموں کے منہ پر طمانچہ کی حیثیت بھی رکھتی ہے ،جن کے جذبات سرِ عام گھومتے جوڑوں کو دیکھ کر مجروح نہیں ہوتے ۔ جھنگ کے اس لنگڑے سپوت نے محبت کی سرکوبی کو اپنا نصب العین بنایا اور معذوری پر تین حرف بھیجتے ہوئے اپنی زندگی اس عظیم نظریے کی ترویج کے لیے وقف کردی ۔ اگرچہ رانجھے نے بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں مگر کیدو کے عزم صمیم ،انتھک جدوجہد اور مقصدِ اولیٰ سے غیر مشروط وفاداری نے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا ورنہ یہ اکیلے آدمی کا کام نہ تھا ۔ اس مشکل ترین اور گرد گر سفر میں جتنے مصائب ، لعنتیں اور بد دعائیں کیدو نے جھیلیں ، اگر ان سے کسی پہاڑ کو بھی واسطہ پڑتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ مگر آفرین ہے اس لنگڑے پر ، جس کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اور اس نے رانجھے کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ یہ تاریخی حقائق ٹرمپ کے اس دعوے کو بھی جھٹلاتے ہیں کہ اب تک جتنی بے عزتی ان کی ہوئی ہے ، تاریخ میں کسی کی نہیں ہوئی ۔ تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو ٹرمپ کی ہونے والی بے عزتی کیدو کی بے عزتی کے آگے پانی بھرتی نظر آتی ہے ۔ ٹرمپ کی قسمت کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی ، البتہ جھنگ کا مردِ آہن آخر کار ظفر مند ہوا ، کامیابی نے اس کے قدم چومے اور ہیر نے ڈولی چڑھتے چیخیں ماریں تو کیدو نے قہقے ۔ عقل کو بروئے کار لائے بغیر عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہیر رانجھے کا جذبہ سچا تھا۔حالانکہ تاریخ کیدو کے حق میں اپنا فیصلہ صادر کر چکی ہے ۔ سوال یہ پید اہوتا ہے کہ اگر چچا کے مقابلے میں بھتیجی کا جذبہ صادق تھا تو ڈولی کھیڑے کیوں لے کر گئے ؟
یہ کیدو کے جذبے کی سچائی کا کرشمہ ہے کہ آج جب دنیا سائنسدانوں کی محیرالعقول ایجادات اور کامیابیوں سے متاثر ہو رہی ہے ،ہمارے ہاں کیدو کے افکار سے ''متاثرہ‘‘ معاشرے کی غالب اکثریت اس کے مشن کو آگے بڑھانے میں پور ی تندہی سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے ۔ کیدو کی زندگی معذوروں کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ذہنی معذور آج بھی اس آتش بجاں تحریک کے علمبردار ہیں ۔ وہ اپنے مشن سے اتنے کمٹڈ ہیں کہ لڑکیوں اور انکے تعلیمی اداروں کو گولیوں اور بموں سے اڑانے والوں کے خلاف تو زبان نہیں کھولتے لیکن بنتِ حوا کو بے پردہ یا جوڑوں کو دیکھ کر مشتعل ہو جاتے ہیں۔ ہمارا ایک مکتبہ فکر سمجھتا ہے کہ کچھ پر عزم ہستیوں نے کیدو کے نظریے کو وسعت بخشتے ہوئے پریمی جوڑوں کے علاوہ عوام اور ان کے نمائندوں کے درمیان رومانس میں رخنہ ڈالنے کو بھی مشن ہذا کا حصہ بنا لیا ہے ۔ اگر آج کیدو زندہ ہوتا تو اپنی تحریک کو نئی نئی جہات سے روشناس کرانے کی ان ارفع کاوشوں پر عش عش کر اٹھتا۔ 
المختصر! ہیر کی ریشہ دوانیاں خاک میں ملیں ، رانجھے کے بیلے میں بھینسیں چرانے کے علاوہ لوگوں کو چرانے کا زعم غارت ہوا اور وارث شاہ کی محنت اکارت گئی ۔ کیدو ہماری تاریخ کا لازوال کردار ٹھہرا ، جو معذوری کے باوجود اپنی سچی لگن اور محنت سے امر ہو گیا۔ اس کا مشن جاری ہے اور جاری رہے گاکہ کیدو جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا نہیں ہوتے بلکہ صدیوں سے ہر روز پید اہو رہے ہیں ۔ 
سوال: آپ نے 5اکتوبر کو اساتذہ کا عالمی دن کس طرح منایا؟ 
جواب:میں نے یوم تحفظ و توقیر اساتذہ تعمیری جذبے اور جوش و خروش سے منایا۔ میں 5اکتوبر کی صبح تڑکے موٹر مکینک اُستاد بھولا ، کمانی میکر استاد کالا ، معروف پینٹر استاد فیقا اور مشہور ڈینٹر استاد فلکا کی ورکشاپس پہنچا اور ہر چہار اساتذہ کی خدمت میں فرداً فرداً پھولوں کے گلدستے پیش کر کے ان کی دعائیں لیں۔ سلام ٹیچر ڈے کی اس چمکتی دوپہر میں لاری اڈے پر گیا اور تمام کوچز کے استادوں کو دونوں ہاتھ ماتھے پر رکھ کر سلام کیا، جنہوں نے اپنی اپنی گاڑیوں کے پریشر ہارن بجا کر میرا شکریہ ادا کیا۔ با جماعت اتنے پریشر ہارنز کے شور سے لاری اڈے پر موجود کمزور دل خواتین اور بچے گھبرا گئے اور انہوں نے ان استادوں کی شان میں کافی نازیبا الفاظ ادا کیے ، جس سے میری ٹھیک ٹھاک قسم کی دل آزاری ہوئی ۔ وہیں فٹ پاتھ پر طوطا فال نکالنے والے ایک پروفیسر صاحب بھی تشریف فرما تھے ۔میں نے لگے ہاتھوں ان کے ساتھ بھی اظہارِ یکجہتی کر ڈالا ۔ سہ پہر کے وقت دور دراز کا سفر کر کے میں نے استاد امامؔ دین گجراتی کی قبر پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔رات کو میں مقامی سینما میں اساتذہ پر بننے والی فلم ''استادوں کے استاد‘‘ کا آخری شو دیکھنے چلا گیا ۔ واپسی پر میں رات گئے استاد پھینو کے خفیہ اڈے پر گیا مگر استاد کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا سودا طے کرنے کے دوران وہاں پولیس کا چھاپہ پڑ گیا۔ میں تو اڈے کی عقبی دیوار پھلانگ کر فرار ہو گیا ، جبکہ دیگر خواتین و حضرات معہ استاد آج ہی ضمانت پر رہا ہوئے ہیں ۔ پولیس کو کم از کم استادوں کے عالمی دن کے موقع پر ایسی نیچ حرکت نہیں کرنی چاہیے تھی ۔ 
سوال: آئینی حدود میں رہ کر ریاستی اداروں کے درمیان مکمل ہم آ ہنگی ، مضبوط انتظامی مشینری اور قانون کی حکمرانی کی موجودگی میں کوئی ملک کیسے چلتا ہے ؟ 
جواب: بڑی آسانی سے چلتا ہے ۔ وہاں مقدمات چلتے ہیں ، نا اہلیاں چلتی ہیں ، گرفتاریاں چلتی ہیں ، اختیارات سے تجاوز چلتا ہے ، سازشیں چلتی ہیں ،چکر چلتے ہیں ، دھرنے چلتے ہیں ، نان ایشوز چلتے ہیں ، دھاندلی چلتی ہے ، جھوٹ چلتا ہے ، ٹھگی چلتی ہے ، جعلی ڈگریاں چلتی ہیں ، دو نمبری چلتی ہے ، ملاوٹ چلتی ہے ، کمیشن چلتا ہے ، کک بیکس چلتے ہیں ، اقرباء پروری چلتی ہے ، آمریت چلتی ہے ، دہشت گردی چلتی ہے ، بجلی ،گیس اور تیل کے بحران چلتے ہیں ، غرض سب چلتا ہے ...اور ایسے ہی بے شمار پہیوں پر اداروں میں ہم آہنگی ، مضبوط انتظامی مشینری اور قانون کی حکمرانی کا حامل کوئی ملک چلتا ہے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں