اللہ معافی! مالدیت میں صدر عبداللہ یامین اور سپریم کورٹ کی لڑائی نے سیاسی نظام مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ صدر نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے پارلیمنٹ معطل کر دی ہے اور پولیس نے چیف جسٹس عبداللہ سعید اور سپریم کورٹ کے جج علی حمید کو ان کے خلاف پہلے سے جاری تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کر لیا ہے۔ سابق صدر سمیت متعدد سیاسی رہنمائوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ صدر عبداللہ یامین نے الزام لگایا ہے کہ چیف جسٹس سمیت ججوں نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ججوں کے خلاف تحقیقات کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا‘ جبکہ سابق صدر محمد نشید نے حکومت کے اقدام کو بغاوت قرار دیا ہے۔
مالدیپ میں سیاسی بحران 2015ء سے جاری ہے، جب ملک کے پہلے جمہوری صدر محمد نشید کو ملک کے انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت سزا سنائی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی جانب سے ایک جج کی گرفتاری کا حکم انسدادِ دہشت گردی قوانین کو حرکت میں لانے کا سبب بنا تھا۔ گزشتہ جمعہ کے روز سنائے جانے والے سپریم کورٹ کے ایک غیر متوقع فیصلے کو اس بحران کی شدت کا باعث قرار دیا جا رہا ہے۔ عدالت نے اپوزیشن رہنمائوں کی رہائی اور بارہ ارکانِ پارلیمنٹ کی بحالی کا حکم دیا تھا، جنہیں حکومت نے معطل کر ر کھا تھا۔ حکومت نے عدالتی حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ اگر اس فیصلے پر عملدرآمد ہو جاتا تو پچاسی رکنی ایوان میں اپوزیشن کو برتری حاصل ہو جاتی اور وہ ممکنہ طور پر صدر عبداللہ یامین کا مواخذہ کر سکتے تھے۔ فوج اور پولیس‘ دونوں حکومت کا ساتھ دے رہی ہیں۔ قبل ازیں اٹارنی جنرل انیل نے وزارتِ دفاع کے سربراہ جنرل شیام اور پولیس کمشنر عبداللہ کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے سابق صدر محمد نشید کے حق میں فیصلہ دے کر ہمیں متنبہ کیا ہے کہ اب ملک کے موجودہ صدر عبداللہ یامین کے خلاف کوئی بھی کارروائی ہو سکتی ہے اور انہیں گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے، جسے ہم غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی کارروائی کے نتیجے میں قومی سلامتی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے، لہٰذا سکیورٹی فورسز مالدیپ حکومت کے حکم کو مانتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے صدر کی گرفتار یا ان کے مواخذے کی کارروائی کے کسی حکم پر عملدرآمد نہ کریں۔ دوسری جانب مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان حامد عبدالغفور کا کہنا تھا کہ پولیس نے رشوت لینے کے الزام میں دو اعلیٰ ججوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی، جو عدلیہ کے اختیارات غصب کرنے کی سازش ہے۔
قرائن بتاتے ہیں کہ اگر حکومت ایمرجنسی اور ججز کی گرفتاری کا انتہائی اقدام نہ کرتی تو اب تک عدالتی احکامات کی روشنی میں اس کا دھڑن تختہ ہو چکا ہوتا۔ خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وطن عزیز میں کبھی ایسا کوئی بحران نہیں آیا اور ہمیشہ عدل و انصاف کا بول بالا رہا ہے۔ ہماری عدلیہ کے فاضل جج صاحبان آج بھی مکمل آزادی اور بغیر کسی دبائو کے کرپٹ حکمرانوں کو نااہل قرار دے رہے ہیں‘ اور سنگین جرائم پر حکومتی ارکان کو جیل بھی بھجوا رہے ہیں۔ ہم مالدیپ کو اس کی غیر یقینی صورتحال سمیت اس کے حال پر چھوڑتے ہیں‘ اور لفظوں کا جادو بکھیرنے والے برصغیر کے منفرد شاعر اور جاں نثار اختر کے فرزند جاوید اختر کی ایک شاہکار نظم سنتے ہیں:
نیا حکم نامہ
کسی کا حکم ہے
ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے؟
ہوائوں کو بتانا یہ بھی ہو گا
چلیں گی جب تو کیا رفتار ہو گی؟
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں
یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن
یہ سب ہی جانتے ہیں
کسی کا حکم ہے
دریا کی لہریں
ذرا یہ سرکشی کم کر لیں
اپنی حد میں ٹھہریں
اُبھرنا اور بکھرنا
اور بکھر کر پھر اُبھرنا
غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت
بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہو گی
یہ وحشت تو نہیں برداشت ہو گی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو ان کو ہو گا اب چپ چاپ بہنا
کسی کا حکم ہے
اس گلستاں میں
بس اب اِک رنگ کے ہی
پھول ہوں گے
کچھ افسر ہوں گے
جو طے کریں گے
گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا
یقینا پھول یک رنگی تو ہونگے
مگر یہ رنگ ہو گا
کتنا گہرا، کتنا ہلکا
یہ افسر طے کریں گے
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
گلستاں میں کہیں بھی
پھول یک رنگی نہیں ہوتے
کبھی ہو ہی نہیں سکتے
کہ ہر اِک رنگ میں چھپ کر
بہت سے رنگ رہتے ہیں
جنہوں نے باغ
یک رنگی بنانا چاہے تھے
ان کو ذرا دیکھو
کہ جب اِک رنگ میں
سو رنگ ظاہر ہو گئے ہیں تو
وہ اب کتنے پریشاں رہتے ہیں
وہ کتنے تنگ رہتے ہیں
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں
کب کسی کا حکم سنتی ہیں ہوائیں
حاکموں کی مٹھیوں میں
ہتھکڑیوں میں، قید خانوں میں
نہیں رکتیں
یہ لہریں
روکی جاتی ہیں
تو دریا جتنا بھی ہو پُر سکوں
بے تاب ہوتا ہے
اور اس بے تابی کا اگلا قدم
سیلاب ہوتا ہے
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے ؟