گزشتہ کالم کی تان مرزا جنریٹر کے اس بے بنیاد الزام پر ٹوٹی تھی کہ ہم پیسے کے زور پر منتخب ہونے والے فاضل سینیٹرز کو خدانخواستہ جنریٹرز کہتے ہیں۔اس الزام میں کوئی صداقت نہیں۔ ہم توصدقِ دل سے سمجھتے ہیں کہ سینیٹر تو سینیٹر ہوتا ہے‘ چاہے وہ ووٹوں کی طاقت سے بنے یا نوٹوں کی۔
اپنی صفائی پیش کرنے کا مروجہ طریقہ یہ ہے کہ الزام کا جواب الزامات سے دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے صاف اور شفاف انتخاب کے بعد خود مرزا نے ایوانِ بالا کو جنریٹروں کا ایوان کہنا شروع کر دیا ہے۔ اپنے اس کمزور مؤقف کو درست ثابت کرنے کی غرض سے وہ اخبارات میں سیاسی رہنمائوں کے بیانات کو باآوازِ بلند پڑھ کر لوگوں کو سناتے ہیں۔ ابھی کل ہی آپ نواز شریف کا بیان سنا رہے تھے کہ مخالفین چابی کے کھلونے ہیں، جوسب اکٹھے ہو گئے ہیں۔ میر حاصل بزنجو کا بیان پڑھا کہ بالادست طبقے نے پارلیمنٹ کو منڈی بنا دیا اور آج سینیٹ کا منہ کالا ہو گیا۔ محمود خان اچکزئی کا فرمان سنایا کہ آئین سے کھیلتے ہوئے ضمیر بیچنے والا محبِ وطن اور نہ بیچنے والا ملک دشمن بنا دیا گیا۔ اصل میں سینیٹ کا ممبر بننے کی ناآسودہ خواہش نے مرزا کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ انہیں دکھ ہے کہ وہ جنریٹرکی بجائے سینیٹر کیوں نہیں جبکہ بقول ان کے‘ ان کے کئی بھائی سینیٹر ہو گئے ہیں۔ مرزا اس مرتبہ بھی سینیٹر نہیں بن سکے تو اپنا کتھارسس ہم پر طعنہ فرسائی کے ذریعے کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تم لوگ صرف رضا ربانیوں اور فرحت اللہ بابروں ہی کو سینیٹر کہتے ہو جبکہ نجی محفلوں میں ''چمک ودمک‘‘ کے اصول کی بنیاد پر ایوان بالا میں پہنچنے والوں اور لوٹا بننے والوں کو جنریٹرکہتے ہو۔ شاید مرزا سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک ہی لقب ہے اور ہم نے انہیں جنریٹر کے لقب سے نوازا ہے تو سینیٹروںکو بھی یہی کہتے ہوں گے، حالانکہ ہماری ڈکشنری میں اس سے بہتر کئی اور القابات بھی ہیں؛ تاہم ہم انہیں وقت کے ضیاع اور تعزیراتِ پاکستان کی کو ئی دفعہ لگنے کے ڈر سے آشکارکرنے سے قاصر ہیں۔
جوابی الزامات کے اصول کے تحت اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم مرزا پہاڑ خان کی مزید کچھ ہسٹری عرض کرتے ہیں تاکہ آپ کو ان کی ذہنی صحت کا اندازہ ہو سکے۔ یادش بخیر! مرزا جنریٹر ہوا خوری کے اتنے شوقین تھے کہ ہمیشہ بس کی چھت پر بیٹھ کر یا اس کے پائیدان سے لٹک کر کالج تشریف لاتے۔ جس دن ترنگ میں ہوتے تو اپنی خاندانی پطرسی سائیکل پر آتے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ وہی سائیکل ہے جو ان کے دادا حضور مرزا صاحب نے پطرس بخاری کو مرحمت فرمائی تھی۔ فرماتے تھے کہ جب بخاری صاحب نے تنگ آ کر سائیکل دریا برد کر دی تو قبلہ دادا حضور کو اس ناقدری پر دلی صدمہ ہوا اور انہوں نے غوطہ خوروں کی مدد سے یہ نایاب سواری برآمد کر کے دوبارہ جوڑلی۔ ہمارا مرزا کے اس دعوے پر اس لیے ایمان تھا کہ بائیسکل ہٰذا کا حلیہ مبارک ہو بہو وہی تھا جو پطرس بخاری نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے‘ یعنی اس کی ہر چیز بجتی تھی، سوائے گھنٹی کے۔ بعض گھٹیا قسم کے حاسد مرزا کے اس دعوے کو جھٹلاتے ہوئے اسے کسی سرکس سے چرائی گئی سائیکل قرار دیتے اور اس کی چیں، چاں، کھٹ کھڑ اور چر، چرخ جیسی آوازوں کا ترجمہ یوں کرتے تھے کہ ''میں سائیکل ہوں کسی اور کی‘ مجھے چلاتا کوئی اور ہے‘‘۔
مرزا کے پاس بقلم خود تیار کردہ اپنا شجرہ نسب بھی موجود تھا، جو مرزا جٹ سے شروع ہوتا اور مرزا صاحب سائیکل والے سے ہوتا ہوا خود ان کی اپنی ذات گرامی تک آ نکلتا تھا۔ عاشقانہ چال چلن میں آپ اپنے جدِ امجد مرزا جٹ پر گئے تھے۔ پچھلے کالم میں ہم عرض کر چکے ہیں کہ اپنی دل پھینک طبیعت کی بنا پر بے عزت وغیرہ ہونا مرزا کے لیے ''روٹین ورک‘‘ تھا؛ تاہم آپ نے کئی کامیاب عشق بھی فرمائے۔ ان کی ایک پریم کہانی کے تو ہم خود بھی چشم دید گواہ ہیں، جس کی بڑی دھومیں مچیں اور کئی رقیب جل جل کر کوئلہ ہوئے۔ وہ محترمہ شہر کی صفائی پر معمور بلدیہ کی ملازم تھیں اورصفائی ستھرائی، قد و قامت، بھاری بھر کم جسامت اور رنگت میں مرزا کی مکمل ہم پلہ بھی تھیں۔ وہ قتالہ صبح اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی کے لیے جاتے وقت اپنے سرکاری ہتھیار یعنی لمبے سے ڈنڈے سے بندھا جھاڑو گھسٹتی ہوئی کالج کے گرائونڈ سے گزرتی تو مرزا کی بریکیں فیل ہو جاتیں اور جھاڑو سے اڑتی دھول کے ساتھ مرزا کا دل بھی اڈاریاں مارتا جاتا۔ آنکھ مٹکا ہوا تو مرزا نے بلا تاخیر محبت نامہ لکھ ڈالا کہ ''تیری میری جوڑی بڑی ٹِچ روے گی‘‘ زندہ دلی میں وہ حسینہ بھی مرزا سے دو ہاتھ آگے نکلی۔ اس نے جوابی پریم پتر میں لکھا :
کوئی ساوی جرسی اے
اج مینوں پتا لگا، میرا ہونڑ والا چرسی اے
پریمی جوڑے کے درمیان خط و کتابت اور میل ملاقات کا لامتناہی سلسلہ چل نکلا تو ''کُو بکُو پھیل گئی بات شناسائی کی‘‘ مرزا کی جسامت اور آواز کی مناسبت سے ہم انہیں ''جنریٹر‘‘ کے لقب سے پکارتے تھے جبکہ ان کی محبوبہ کی شخصیت سے متاثر ہوکر ہم لوگوں نے ان کا نام ''ہیضہ‘‘ رکھ دیا۔ مرزا چرس کے شوقین تھے تو وہ گوبھی بدن نسوار کی رسیا۔ اب مرزا کو اپنی ''دوائی‘‘ کے ساتھ ساتھ محبوب کی نسوار بھی خریدنا پڑتی اور اوپر سے اس کی نت نئی فرمائشوں کا خرچہ بھی اٹھانا پڑتا۔ مرزا کے اقتصادی حالات ایسے گراں عشق کی اجازت نہیں دیتے تھے، مگر رقیبوں کے دانت کھٹے کرنے کی خاطر آپ ادھار سدھار اور چھوٹی موٹی وارداتوں سے کام چلاتے رہے۔ آخر محبت کا یہ طوفان (جسے ہم طوفانِ بدتمیزی کہا کرتے تھے) اس وقت تھما جب مرزا کنگلے ہو گئے اور ہیضے نے سوچا کہ ''دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے... ان کی جیب میں اب رہا کیا ہے‘‘ پس اس کافر نے دل کا شٹر گرا دیا اور کانٹا بدلتے ہوئے الوداعی خط میں لکھا ''جو گزر گئی واہ واہ دلبر، تُسیں اپنڑے گھر، اَسیں اپنڑے گھر‘‘... مرزا نے بھی مجبوراً محبت پر مٹی ڈالی اور سینے پر بھاری پتھر رکھتے ہوئے گریباں سی لیا۔
مرزا پہاڑخان حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم مگر دشمنوں کے لیے فولاد تھے۔ ایک دفعہ انہیں کتے نے کاٹ لیا تو بدلہ نہ لے سکنے پر کافی عرصے تک رنجیدہ رہے۔ فرماتے تھے کہ افسوس، کتا میرے ہاتھ نہیں لگا ورنہ دانت تو میرے بھی تھے۔ خدا بخشے، غصے کے معاملے میں مرزا کی والدہ محترمہ بھی کچھ کم نہ تھیں۔ جب مرزا کی کسی گھٹیا حرکت پر کوئی شکایت یا آ پ کی کسی واردات پر پولیس ان کے گھر پہنچتی تو ماں جی جذبات سے مغلوب ہو جاتیں۔ خدا انہیں معاف کرے، ایسے نازک مواقع پر وہ اپنے آپ کو کوستے ہوئے مرزا کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی ایسے القابات سے یاد فرماتیں جن کا عام فہم مطلب بھی ایسا نکلتا کہ جسے درج نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ ایسے میں مرزا کے والد بزرگوار بھی پیچھے نہ رہتے اور اپنی اہلیہ کے مؤقف کو ذرا مختلف انداز میں تقویت بخشتے۔
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ خصائص بالا کی بنیاد پر مرزا کی پوزیشن کیا ہے۔ ہمارے خیال میں تو معزز ایوان ِ بالا میں عظمت اور اصولوںکے پہاڑوں کے درمیان مرزا پہاڑ خان بالکل بھی نہیں جچیں گے۔ وہ معاشرے میں بحیثیت جنریٹر ہی اپنی گراں قدر خدمات انجام دیتے رہیں تو بہتر ہے۔ حرفِ آخرکے طور پر گزشتہ کالم پر ایک محترمہ کا تبصرہ زیرِ نظر ہے کہ کرشنا کماری کولہی جیسی غریب خاندان کی عورت سینیٹ میں کیسے پہنچ گئی، ضرور یہ کوئی چال ہے... عرض یہ ہے کہ بالکل یہ چال ہے۔ یہ جمہوریت کی ایک شطرنجی چال ہے۔ اگر یہ نظام مرزا جنریٹر کی کھوچل پطرسی سائیکل کی طرح بھی چلتا رہے تو کرشنا کماریاں ایوانوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ جمہوریت کے تسلسل کی چھلنی سے جنریٹرز گرتے جاتے ہیں اور سینیٹرز رہ جاتے ہیں۔ یہ تسلسل سیاسی شعور پیدا کرتا ہے تو ضمیرکا ووٹ اپنی طاقت اور بالادستی منوا لیتا ہے، جبکہ نوٹ اور دبائو قصۂ پارینہ بن جاتے ہیں۔ پھر ایوانوں میں ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے، نہ ضمیروں کی منڈیاں لگتی ہیں۔