تم کو وحشت تو سکھا دی ہے، گزارے لائق

یادش بخیر! جب ہم نے کالم نگاری کے دشتِ خار میں قدم رکھا تو جذبات احمد فرازؔ جیسے تھے کہ:
پہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فرازؔ
دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں
اپنی''رسوائیوں‘‘ کے لیے جلد ہی ہماری کاوشیں رنگ لائیں اور ارشاد احمد حقانی مرحوم نے ہمیں خط لکھا۔ ازرہِ کرم ہمارے کالموں کی تعریف وتوصیف اورحوصلہ افزائی فرمائی اور کامیابی کے لیے رہنما اصول کے طور پر گوہر ہوشیار پوری کا ایک شعر بھی لکھا۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم آج کے نئے لکھنے والوں تک بھی مرحوم کی یہ امانت پہنچا دیں:
ایسی مشکل تو نہیں دشتِ وفا کی تسخیر 
سر میں سودا بھی تو ہو، دل میں ارادہ بھی تو ہو 
ان رسائیوں اور رسوائیوں کے لیے ہماری جدوجہد کا آغاز ایک عشرہ قبل ہوا۔ تب معاصر میں جہاں امجد اسلام امجد اور مستنصر حسین تارڑ کے پرمغز رشحات قلم شائع ہوتے تھے، وہیں کسی کونے کھدرے میں ہمارا بے مغز سا کالم بھی موجود ہوتا۔ گزشتہ ماہ ہمارے ایک خوبصورت اہل قلم دوست عبدالغفار قیصرانی (ڈی پی او جہلم) نے مشاعرے کا اہتمام کیا تو کھانے کی میز پر ہم نے امجد اسلام امجدکو یاد دلایا کہ کیسے ہم انہیں اور تارڑصاحب کو اپنی رہنمائی فرمانے کے لیے تنگ کیا کرتے تھے۔ جناب ارشاد احمد حقانی سے بھی ہم نے خود پنگا لیا تھا۔ گھر کے نمبر پر فون کرکے صحافت کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے اپنا تعارف کرایا اور اپنی تحریروں کی اصلاح کی درخواست کی۔ حقانی صاحب نے بارعب اور قدر ے کرخت لہجے میں حکم دیا ''مجھے اپنا صرف ایک کالم ڈاک کے ذریعے بھجوا دیں، آپ کی تحریر پرکھنے کیلئے کافی ہو گا‘‘ عرض کیا کہ آج کے معاصرمیں ہمارا کالم شائع ہوا ہے۔ انہوں نے اخبار کھول کر ایک نظرکالم پر ڈالی اور فرمایا ''کل صبح گیارہ بجے مجھے دفتر کے نمبر پر فون کریں‘‘۔
دوسرے دن وقت مقررہ پر فو ن کیا تو وہ جیسے منتظر تھے۔ اس دفعہ ان کا لہجہ شفیق استاد کا تھا۔ تحریر کو بہتر بنانے کے لیے طویل لیکچر دیا اور محنت کرنے اور رابطہ رکھنے کا حکم دیا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ ان کا بڑا پن تھا کہ اکثرکالم پڑھ کر خود فون کرتے اور اغلاط کی نشاندہی اور اصلاح فرماتے۔ ایک دفعہ ہمارے کالم کے ایک فقرے پر تپ گئے۔ صبح دفتر بیٹھتے ہی فون کیا اور بولے کہ یہ کیا آپ نے جذباتی فقرہ لکھ دیا۔ ایسا نعرہ تو سڑکوں پر کوئی سیاسی کارکن لگا سکتا ہے۔ کالم نگار استدلال سے لکھتا ہے کہ ججو ں کی بحالی کیوں ضرور ی ہے؟ اگرچہ قلم و قرطاس کی دنیا میں ہمارے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کبھی ان کی فکر انگیز تحریر کے قریب سے بھی نہ گزر سکے؛ تاہم ہمارے لئے باعثِ افتخار ہے کہ ارشاد احمد حقانی نے ہمیں کالم نگاری کے اسلوب بڑی محنت اور محبت سے سکھانے کی کوشش کی۔ ان کا مہرباں خط بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
انہوں نے ہمیں اپنے فکاہیہ کالم جناب عطاء الحق قاسمی کو بھجوانے کی ہدایت کی۔ قاسمی صاحب نے کالم ملتے ہی فون کر کے شاباش دی اور لکھنے کے لیے چند اہم رہنما اصول بتائے۔ یوں ان سے بھی نیاز مندی کا سلسلہ چل نکلا، جو آج بھی جاری ہے۔ انہوں نے متعدد مرتبہ ہماری بے ربط سی تحریروں سے خوش ہو کر ہمیں نقد انعام سے نوازا ہے، جو کسی شاگرد کی حوصلہ افزائی کا سب سے خوبصورت اسلوب ہے (دیگر اساتذہ کرام بھی نوٹ فرما لیں) ہم ایسے کج فہم کو موجودہ مقام تک پہنچانے میں قاسمی صاحب کا کردار کلیدی ہے۔ استاد محترم کے طفیل ہم ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں، جنہوں نے الحمراء لاہورکی ادبی کانفرنسوں میں عین اس مقام پرکھڑے ہوکر اپنے خیالات کا اظہارکیا ہے، جہاں اداکارہ نرگس اپنے اعضاء کی ہوشربا شاعری کرتی رہی ہے۔ یہ بات خود قاسمی صاحب نے الحمراء کی ایسی ہی ایک کانفرنس میں مقررین کو بتائی، جن میںملک کے نامور اہلِ قلم اور
اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف بھی شامل تھے۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔
حمید اختر مرحوم بھی ہمارے پسندیدہ لکھاریوں میں سے تھے۔ رسوائیوں کے شوق میں ایک شام ہم نے ان کے موبائل پر بھی کال ملا دی، جو دختر بلند اختر حمید اختر نے سنی۔ ہم نے مدعا بیان کیا تو انہوں نے بتایاکہ اس وقت بات کرنا ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنا چشمہ اور آلہ سماعت اتارکر لیٹ گئے ہیں۔ اتنے میں حمید اختر صاحب کی گرجدار آواز سنائی دی ''کون ہے؟‘‘ ان کی بیٹی نے باآواز بلند انہیںہمارے بارے میں بتایا۔ جواب میں ہمیں حمید اختر صاحب کی آواز سنائی دی ''میں کالم پڑھ لوں گا، ان سے کہو کل صبح فون کر لیں‘‘ نصف گھنٹے بعد ہمیں حمید اخترکی کال آ گئی۔ انہوں نے نہایت شفقت سے فرمایا ''آپ کا کالم پڑھ لیا ہے، جس کے بعد میں آپ کا مقروض ہو گیا تھا، صبح تک انتظار اس لئے نہ کیا کہ زندگی کا کیا بھروسہ؟ میں یہ بتا کر ادھار چکا رہا ہوں کہ آپ کی تحریر شگفتہ اور خوبصورت ہے‘‘ بعد ازاں مختلف تقریبات کے دوران ملاقاتوں میں ان سے نیازمندی کا رشتہ اور بھی مضبوط ہوا، جو آخری دم تک قائم رہا اور ہمارے سیکھنے کا عمل جاری رہا۔ منو بھائی کا ذکرنہ کرکے ہم گناہ گار نہیں ہونا چاہتے۔ خدا مغفرت کرے، مخلوق خدا کا یہ ہمدرد اور عظمت کا مینار اس انداز سے حوصلہ افزائی کرتا کہ شرمندہ کرکے رکھ دیتا۔
ایک اور جید صحافی سے ہم نے بہت زیادہ سیکھا ہے۔ یہ خیر کی قدروں کا پیکر ہمارا آئیڈیل بھی ہے۔ معاصرمیں ہمارے ایڈیٹر تھے۔ حرام ہے جو زبان سے کبھی کسی غلطی کی نشاندہی کی ہو، مگرکالم کے کمزور حصوں میں الفاظ و تراکیب اور جملوں میں ایسی تبدیلیاں کرتے کہ ہم عش عش کر اٹھتے اور یوں انہوں نے خاموشی کی زباں میں ہماری کافی اصلاح کی۔ انور مقصود صاحب کا تو جواب نہیں۔ علمی خانوادے کا بیدار و فعال مفکر اور روشن دل و دماغ کا ہمدرد استاد، جس نے ہمیں تحریرکی لاتعداد باریکیوں سے روشناس کرایا اور آگے بڑھنے میں بھی بہت مدد دی۔ چھوٹے اخبارات سے بڑے روزناموں تک کے سفر میں انور مقصود اور قاسمی صاحب نے عملاً ہمارا راستہ ہموار کیا۔ایک اور سینئر صحافی ہمیں بڑے اخبارات میں لے کر آئے۔ خدا آبادرکھے، کالم لکھنے کے کارِ دارد میں انہوں نے ہماری بڑی رہنمائی کی ہے۔ اسی طرح محمد اظہار الحق ہمارے ہی نہیں، لاکھوں دلوں میں بستے ہیں۔ ان کے خیالات اور قلم کی روانی، برجستگی اور گہرائی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہمیں ان کے شایان شان الفاظ نہیں سوجھ رہے۔ ہم اکثر انہیں نقل کرنے کی ناکام سعی کرتے ہیں۔ بیورو کریٹس کے اندازمیں نہایت مختصر اور نپے تلے الفاظ میںحوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔ 
ہم اپنی کمزور فہم اور تجربے کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جو دانشور ہے، وہ بخیل نہیں اور جو بخیل ہے، وہ دانشور نہیں۔ ہمارے لیے ان مستند دانشور اساتذہ کی تحریریں اور صحبتیں سرمایۂ افتخار ہیں جنہوں نے ہمیں لکھنے کے اسلوب ہی نہیں زندگی کے ڈھنگ سکھانے میں بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ ان میں سے اکثر کے اصرار کے باوجود ہمیں اپنے گائوں کے کنوئیں سے نکل کر کسی بڑے شہر کی طرف ہجرت کرنے کی ہمت نہیں ہو سکی۔ اس کے باوجود ان اعلیٰ ظرف اساتذہ نے ہمیں پینڈو ہونے کے احساس کمتری سے نکال کر اپنی صفوں میں جگہ دی۔ ہماری لاغر فکر کے دریچے کھولنے کی ہر ممکن کوشش کی اور ہمارا محدود ذہنی اُفق بڑھانے میں اپنا قیمتی وقت صرف کیا۔ ان کی محنت کا ثمر ہے کہ ہم قلم سے تھوڑی بہت وحشت ٹپکانے کے اہل ہو گئے ہیں۔ یہ ان کے میخانے کا فیض ہے کہ ہم ایسے کم فہم اور کو تاہ علم بھی سرخیٔ مے سے مقدور بھر تزین در و با م کرتے ہیں۔ ہم اپنے اساتذہ کے لئے ہمیشہ دعا گو رہیں گے، جو عمیر نجمی کی زبانی کہتے ہیں:
تم کو وحشت تو سکھا دی ہے، گزارے لائق
اور کوئی حکم؟ کوئی کام، ہمارے لائق؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں