تین ماہ قبل ہم نے چند ایسے افیون نما مفروضوں کا ذکر کیا تھا، جن کے زعم میں ہم نیکوکار کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے زندگی کی منزلیں سر کر رہے ہیں۔ آج ایسے ہی چند مزید مفروضے ملاحظہ فرمائیے۔
مفروضہ ہم نے گھڑ رکھا ہے کہ ہم مغرب پرستی کے دشمن ہیں اور اپنی قوم کو اس لعنت سے بچانے کے لیے ہمہ وقت سرگرمِ عمل ہیں۔ یہ مضحکہ خیز مفروضہ ہماری مایہ ناز منافقت کا آئینہ دار ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم مغرب یا مغرب پرستی کے نہیں بلکہ خود اپنے دشمن ہیں، کیونکہ ہم بنیادی طور پر علم، سائنس، منطق، دلیل، مکالمے، رواداری، وسیع النظری اور انسان دوستی کے دشمن ہیں۔ ہم مغرب پرستی کی مخالفت کے فقط پھٹے ڈھول اور ٹین کنستر بجاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ڈھول اور ٹین ڈبے کھڑکانے والوں کی جیب میں بھی ہمہ وقت مغرب کی ''لعنت‘‘ یعنی موبائل فون ٹمٹما رہا ہوتا ہے۔ ان ''لعنتوں‘‘ کی بجلی، لائوڈ سپیکر، ٹی وی، اے سی اور کمپیوٹر وغیرہ سے لے کر سرجری کے آلات اور لائف سیونگ ڈرگز تک، نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر جتنی ایک لمبی فہرست ہے کہ جن کے بغیر نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر پھیلی اس برگزیدہ امت کا ایک پل بھی نہیں گزر سکتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر آج امریکہ اور مغربی ممالک ہمارے لیے ویزے کھول دیں اور ہر کسی کو امیگریشن دینے کا اعلان کر دیں تو عبدالستار ایدھی مرحوم کے ادارے کو انسانیت کی فلاح کے لیے کسی دوسرے ملک کا انتخاب کرنا پڑے گا کیونکہ کیا پرہیز گار اور کیا گناہ گار، کوئی ایک بھی پاک سرزمین پر رہنے کے لیے دستیاب نہ ہو گا‘ نہ ہی اس مملکت کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا کوئی ٹھیکے دار یہاں موجود ہو گا۔ یاد رہے کہ جس ساحل پر طارق بن زیاد کی طرف سے کشتیاں جلانے کی ایمان افروز روداد بیان کرتے ہم فرطِ جذبات سے غش کھا جاتے ہیں، آج بھی اہلِ ایمان سپین کے اسی ساحل پر رات کے اندھیرے میں جوق در جوق اترتے ہیں‘ مگر اس فرق کے ساتھ کہ ان کے ہاتھوں میں تلوار کی بجائے سیاسی پناہ کی درخواستیں ہوتی ہیں‘ اور وہ مالِ غنیمت اکٹھا کرنے کی بجائے سوشل سکیورٹی (خیرات) کی بھیک مانگتے ہیں۔ غرض جو مغرب پرستی کی لعنت کی جتنی دہائی دیتا ہے وہ اتنا ہی بڑا مغرب پرست ہے کہ اس کا علاج مغرب کے بغیر مکمل ہوتا ہے، نہ بچوں کی تعلیم اور نہ ان کا روزگار۔
البتہ ہم اس لحاظ سے مغرب پرستی کے ضرور دشمن اور ضدِ مغرب ہیں کہ وہاں حقیقی جمہوریت ہے، سچ، مساوات، انصاف، ایمانداری، قانون کی پاسداری، احترام آدمیت اور شخصی آزادیاں عروج پر ہیں۔ وہاں کوئی جھوٹ نہیں بولتا، کم نہیں تولتا اور ملاوٹ نہیں کرتا۔ سمندر کے اس پار کوئی وزیر اعظم اپنی بیوی کے لیے ڈیڑھ ہزار پائونڈ کی سیکنڈ ہینڈ چھوٹی کار خریدنے خود شو روم پر چلا جاتا ہے، کبھی کوئی وزیر اعظم بیوی کے ہمراہ دو بچوں کی انگلیاں تھامے اور ایک کو اپنے بازوئوں میں اٹھائے سڑک پار کرتا نظر آتا ہے، کبھی کوئی صدر ویت نام کے معمولی سے ریسٹورنٹ میں پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتا ہے، کبھی کوئی وزیر اعظم رعایا کے خیالات اور حالات جاننے کے لیے بھیس بدل کر ٹیکسی چلاتا ہے، کبھی کوئی ملکہ خود سبزی لینے نکل کھڑی ہوتی ہے، کبھی کوئی وزیر اعظم ٹرین میں کھڑا اخبار پڑھ رہا ہوتا ہے اور کبھی کوئی آئرن لیڈی کہلانے والی وزیر اعظم اتوار کو اپنے اور بال بچوں کے کپڑے دھو کر 10 ڈائوننگ سٹریٹ کے مختصر صحن میں سوکھنے کے لیے ڈال رہی ہوتی ہے۔
مغرب کی ایسی ''نازیبا حرکات‘‘ بتاتے ہوئے ہمارے رہنمائوں کے پیٹ میں قولنج پڑ جاتا ہے۔ ہماری مخصوص عینک کے محدب عدسوں سے مغرب کی فحاشی تو خوب نکھر کر نظر آتی ہے، البتہ ان کی ایسی اعلیٰ اقدار دیکھتے ہوئے ہمارے یہ عدسے دھندلا جاتے ہیں اور ان کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اغیار کی انہی اقدار کے ہم حقیقی دشمن ہیں کہ ان کے پرچار سے ہماری دکانیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ اپنی یہ چوری چھپانے کے لیے ہم نے مشہور زمانہ مفروضہ گھڑ رکھا ہے کہ مغربی معاشرے اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں اور کسی بھی وقت دھڑام سے زمین بوس ہو سکتے ہیں۔ گویا خود ہمارا برگزیدہ معاشرہ مضبوط ستونوں پر کھڑا ہے۔ ہم غریبوں نے ایک مفروضہ یہ بھی گھڑ رکھا ہے کہ امیر لوگوں کو طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں ۔ وہ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق انتہائی پرہیزی اور پھیکا سا کھانا کھانے پر مجبور ہیں اور اللہ کی نعمتوں سے مستفید نہیں ہو سکتے ۔ نیز دولت کی پریشانیوں کے سبب انہیں نیند نہیں آتی اور وہ خواب آور گولیاں کھا کر بھی رات بھر بے چینی سے کروٹیں بدلتے ہیں ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں غریب آدمی صحت مند ہوتا ہے، وہ جو چاہے کھا سکتا ہے اور پر سکون نیند سوتا ہے ۔ یہ بالکل بکواس مفروضہ ہے ۔ دولت ہاتھوں کی میل نہیں ، دنیا کی مسلمہ حقیقت ہے اور باقی باتیں کتابی افسانے۔متمول لوگ ہرگز بیماریوں کا گڑھ نہیں ہوتے ۔ وہ صحت مند اور چاک و چوبند ہوتے ہیں ، جنہیں معمولی دانت درد کے لیے بھی اندرون و بیرون ملک جدید ترین علاج کی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ جبکہ ''صحت مند‘‘ غریب آدمی کی رسائی سرکاری ہسپتال تک ہے ، جہاں اسے دو نمبر اسپرین بھی دھکے کھا کر میسر آتی ہے ۔ خود فریبی کا شکار یہ غریب اور سفید پوش جب تنگ دستی کی بنا پر اپنے بچے کا بڑے پرائیویٹ ہسپتال سے علاج نہیں کرا سکتے تو مفروضہ گھڑتے ہیں کہ بڑے ڈاکٹر ڈھیر ساری گرم دوائیں لکھ دیتے ہیں ، جو مریض کا کباڑا کر دیتی ہیں ۔
حقیقت میں امیر لوگ پھیکا کھانا نہیں بلکہ غذائیت اور وٹامنز سے بھرپور اللہ کی نعمتوں سے صحیح معنوں میں مستفید ہوتے ہیں‘ جن کے دستر خوان پر ایک دن کے لیے چنی گئی ان نعمتوں کی مالیت غریب کے کچن کے مہینے بھر کے بجٹ سے زیادہ ہوتی ہے ۔ یہ بھی فریب ہے کہ غریب جو چاہے کھا سکتا ہے ۔ وہ جو چاہے دیکھ تو سکتا ہے مگر کھا صرف روکھی سوکھی ہی سکتا ہے ، وہ بھی ملاوٹ زدہ ۔ جہاں تک پُر سکون نیند کا تعلق ہے تو اس سے بھی فقط متمول لوگ ہی اپنے لگژری بیڈ رومز میں لطف اندوز ہوتے ہیں ، جن کے گھر، دفتر اور گاڑیاں تک ایئر کنڈیشنڈ ہوتی ہیں ۔ اس کے مقابلے میں غریب اور لوئر مڈل کلاسیئے دن کو آگ برساتے سورج تلے مزدوری کرتے ہیں اور رات لوڈ شیڈنگ میں گرمی اور مچھروں سے حالت جنگ میں اپنے بلبلاتے بچوں کو دستی پنکھے جھلاتے گزارتے ہیں ۔ ان سادہ دلوں کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ صحت ، تعلیم ، علاج معالجہ ، موج میلہ ، عیاشی اور پُر سکون نیند کن بلائوں کے نام ہیں ؟ کسی امیر آدمی کے تر و تازہ اور غریب کے پژمردہ چہرے پر ایک نظر ڈالنے ہی سے اس مفروضے کی مٹی پلید ہو جاتی ہے ۔ پس ہم غریبوں کو بھی اس لغو مفروضے کی دُم کے سہارے اکڑنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر امیر بننے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
باقی مفروضے آئندہ کے کسی کالم میں بیان کریں گے۔
دولت ہاتھوں کی میل نہیں ، دنیا کی مسلمہ حقیقت ہے اور باقی باتیں کتابی افسانے۔متمول لوگ ہرگز بیماریوں کا گڑھ نہیں ہوتے ۔ وہ صحت مند اور چاک و چوبند ہوتے ہیں ، جنہیں معمولی دانت درد کے لیے بھی اندرون و بیرون ملک جدید ترین علاج کی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ جبکہ ''صحت مند‘‘ غریب آدمی کی رسائی سرکاری ہسپتال تک ہے ، جہاں اسے دو نمبر اسپرین بھی دھکے کھا کر میسر آتی ہے ۔