جیسے عبدالحمید عدم نے رندوں کی عاداتِ جمیلہ کی عکاسی کی تھی کہ... ہر آنکھ سے پی لیتے ہیں تھوڑی سی عدم ؔ/ ہم غریبوں میں تکلف کی کوئی بات نہیں، اسی طرح شاعر نے چائے کے عشق میں بدنام ہم ایسے درویشوں کے جذبات کی خوب ترجمانی کی ہے:
ہم فقیروں کی طبیعت بھی غنی ہوتی ہے
بیٹھ جاتے ہیں وہیں جہاں چائے بنی ہوتی ہے
کبھی کسی نادان میزبان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہم درویش چائے نوش کیے بغیر ہی تشریف لے جائیں۔ اس سعیٔ رائیگاں کے دوران گاہے وہ ترپ کا پتہ بھی استعمال کرتا ہے کہ کیا آپ چائے پئیں گے؟ یہ سوال ہم لوگ اس وقت کرتے ہیں جب مہمان سے جان چھڑانی ہو، ورنہ چائے پلانے کے لیے پوچھنے کی ضرورت کیا ہے بھلا؟ جواب میں جب درویش کہتے ہیں کہ ضرور پئیں گے تو میزبان کی شکل دیکھنے والی ہوتی ہے۔ کبھی کوئی کنجوس میزبان اخلاقی اقدار کی بیخ کنی میں اس حد تک بھی چلا جاتا کہ ''ابھی ڈپو سے آ جاتی ہے چینی/ گوالا گھر سے اپنے چل پڑا ہے/ حضور اب چائے پی کر ہی جائیے گا/ نوکر لکڑیاں لینے گیا ہے‘‘ ... تاہم میزبان کو اس وقت سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب درویش کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں۔ ماضی قریب میں ایسے ہی ایک درویش دوست کا معمول رہا کہ سرشام موٹر سائیکل نکال کر ہمیں لینے پہنچ جاتے۔ آپ نے پہلے سے طے کر رکھا ہوتا تھا کہ آج فلاں صاحب کے گھر سے چائے پینی ہے، چاہے اس کار خیر کی خاطر وہاں کتنا ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے۔ ان کے زرخیز دماغ میں ہر نوع کے میزبان کے ہاں سے چائے پینے کے لا تعداد گُر پائے جاتے ہیں۔ ایک شام ہمیں لے کر ایک دوست کے دولت خانے پر قدم رنجہ فرمایا اور تا دیر چائے کے انتظار میں صوفے پر بے چینی سے پہلو بدلتے رہے۔ پھر اچانک اٹھ کھڑے ہوئے۔ میزبان نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ بولے ''آپ بیٹھیں، ہم قریبی ڈھابے سے چائے پی کر ابھی آئے‘‘۔ چند ہی لمحوں میں شرمندہ میزبان کے کچن سے چائے کی خوشبو آنے لگی اور درویش نے ہماری طرف داد طلب نظروں سے دیکھا؛ تاہم پیشہ ور چائے نوش مہمانوں کی یہ ڈھٹائی بمشکل دو تین سال ہی کامیابی سے ہمکنار رہ سکی۔ پھر ظالم سماج نے اندر سے کہلوانا شروع کر دیا کہ صاحب گھر پر نہیں ہیں۔
جو میزبان چائے کے ساتھ بسکٹ پیش نہ کرے، درویشوں کے دل میں اس کا بھی کوئی مقام نہیں۔ چاہے جتنی بھی کڑک ہو، پینے سے قبل اگر اس میں خستہ بسکٹ ڈبو کر نہ کھایا جائے تو چائے معاشرے میں اپنا جائز مقام کھو بیٹھتی ہے۔ کچھ میزبان تو ایسے ''خستہ‘‘ بسکٹ بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک آدھ دانہ ہاتھ سے گر کر پائوں پر لگ جائے تو ہڈی فریکچر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ کبھی اس قماش کے پیلے رنگ کے بڑے بڑے کیک ملتے تھے۔ اس کیک کا سائز، بناوٹ، حجم اور مضبوطی جوتے کے تلوے سے مشابہ ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ کسی گھر میں اسی کیک سے ہماری تواضع کی گئی۔ ایک تو کیک کا کسرتی بدن اور اوپر سے کم بخت زائدالمیعاد۔ اسے قبل از مسیح کا کہنا تو زیادتی ہو گی، البتہ بلا خوف تردید تقسیم ہند سے پہلے کا تیار شدہ ضرور تھا۔ میزبان کا دل رکھنے کی خاطر درویش نے اللہ کا نام لے کر اسے چائے کے بڑے سے پیالے میں ڈبو دیا۔ کیک بھی چائے کا رسیا نکلا اور شاید جنم جنم کا پیاسا بھی تھا۔ چائے کے پیالے میں وہ طوفان آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری چائے گھمن گھیریاں کھاتی کیک کے وسیع جسم میں جذب ہو گئی۔ اس کے باوجود جب ہم نے اسے منہ میں ڈالا تو فوراً احساس ہوا کہ زیادہ دھینگا مشتی کی صورت میں نئی بتیسی بھی لگوانی پڑ سکتی ہے۔ پس ہم کیک سے کسی اور مہمان کے حق میں دستبردار ہوئے اور بغیر کچھ کھائے پیئے اٹھ کر آ گئے۔
ہمارے اکثر شعرائے کرام بھی چائے کے درویش ہوتے ہیں‘ مگر عادتاً اسے بھی اپنے محبوب کی طرح بدنام کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ جبر کے ضیاء الحقی دور میں جون ایلیا کسی مشاعرے میں چینک میں ''چائے‘‘ ڈال کر ساتھ لے گئے اور سٹیج پر تکیے سے ٹیک لگائے مناسب وقفوں سے پیالی میں ڈال کر پیتے رہے۔ گرمی زوروں پر تھی۔ انہوں نے منتظمین میں سے کسی کو بلا کر کہا کہ تھوڑی برف تو لا دیں۔ اس نے حیرت سے پوچھا کہ چائے میں برف؟ کہنے لگے کیا کروں یار، ٹھنڈی ہی نہیں ہو رہی۔ اگرچہ ہماری شاعری میں چائے کی بابت کچھ شریفانہ سے اشعار بھی ملتے ہیں، جیسے ''قطرہ قطرہ میرے حلق کو تر کرتی ہے/ میری رگ رگ میں چائے سفر کرتی ہے‘‘ یا جیسے ''تیری یاد کی بھول بھلیوں میں کھو کر/ مجھے چائے اکثر ٹھنڈی پینا پڑتی ہے‘‘ تاہم کبھی کبھی تو یہ حضرات چائے اور محبوب کو ایک ساتھ ہی رسوا کر دیتے ہیں کہ ''طلسمِ مصر ہے اس کے حسیں ہاتھوں میں/ جو وہ بنائے تو چائے کو جام کر دے گا‘‘ ہمارے خیال میں یہ چائے کی پیالی میں ''طوفان‘‘ بپا کرنے کی نا آسودہ خواہش کا اظہار ہے۔ چائے کو چائے ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔
ن لیگ کے رہنما رانا مشہود نے میڈیا میں جو تازہ بم پھوڑا ہے، اسے بھی چائے کی پیالی میں طوفان قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ملکی اداروں کے ساتھ ن لیگ کی قیادت کے معاملات طے پا گئے ہیں اور پنجاب میں دو ماہ کے اندر دوبارہ ان کی حکومت ہو گی۔ صحیح ہے یا غلط مگر کچھ تجزیہ نگار اس بیان کا مفہوم یہ لے رہے ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز کی رہائی اسی ڈیل کا نتیجہ ہے اور اس مقصد کے لیے نیب اور اس کے وکلا کو استعمال کیا گیا، جنہوں نے کمزور تفتیش اور پیروی کے ذریعے ان کی مدد کی۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں رہنمائوں نے رہائی کے بعد خلافِ توقع جارحانہ سیاست سے گریز کیا ہے۔ دبے دبے لفظوں میں ''چائے پانی‘‘ کا تذکرہ بھی ہو رہا ہے، گویا یہاں بھی اس شریفانہ مشروب کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ ن لیگ کی قیادت اور آئی ایس پی آر نے رانا صاحب کے دعوے کی سختی سے تردید کی ہے، شاید اسی لیے اسے چائے کی پیالی میں طوفان جتنی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ہمارا ناقص خیال ہے کہ اگر یہ ن لیگ کی طرف سے کوئی سیاسی چال ہے تو چائے کی پیالی کا یہ طوفان رسوا ہو کر خود ہی تھم جائے گا اور اگر پیالی سے باہر کے کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے تو یہ سونامی ملکی افق پر اپنے دور رس نتائج چھوڑ جائے گا۔ ہم اپنے ایک گزشتہ کالم ''ایک کہانی، نئی یا پرانی‘‘ میں اس پر بہت کچھ عرض کر چکے ہیں۔ ہمارے ہاں کیک نما ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں، جو کب سے ہمارے حصے کی چائے بھی اپنے وسیع و عریض معدوں میں ضم کر رہے ہیں۔
چائے جیسے اہم ترین موضوع پر بات کرتے اس خشک معاملے کا ذکر تو ویسے ہی درمیان میں آ گیا۔ موضوع سخن کی طرف پلٹتے ہوئے نا معلوم شاعر کی چائے پر ایک خوبصورت غزل ملاحظہ فرمائیں:
لمس کی آنچ پہ جذبوں نے اُبالی چائے
عشق پیتا ہے کڑک چاہتوں والی چائے
کیتلی ہجر کی تھی، غم کی بنالی چائے
وصل کی پی نہ سکے ایک پیالی چائے
میرے دالان کا منظر کبھی دیکھو آ کر
درد میں ڈوبی ہوئی شام، سوالی چائے
ہم نے مشروب سبھی مضر صحت ترک کیے
ایک چھوڑی نہ گئی ہم سے یہ سالی، چائے
یہ پہیلی کوئی بوجھے تو کہ اس نے کیونکر
اپنے کپ سے مرے کپ میں بھلا ڈالی چائے
میں یہی سوچ رہا تھا کہ اجازت چاہوں
اس نے پھر اپنے ملازم سے منگالی چائے
اس سے ملتا ہے محبت کے ملنگوں کو سکوں
دل کے دربار پہ چلتی ہے دھمالی چائے
رنجشیں بھول کے بیٹھیں کہیں مل کر دونوں
اپنے ہاتھوں سے پلا خیر سگالی چائے
عشق بھی رنگ بدل لیتا ہے جان جاناں
ٹھنڈی ہو جائے تو پڑ جاتی ہے کالی چائے