آپ اہل شہر کو دیہات کی کھلی اور صاف فضا بڑی پسند ہے۔ اس صاف ماحول میں چند دن سانس لینے کا موقع مل جائے تو لگ پتا جائے گا۔ ان کھلی فضائوں میں واپڈا اس جانفشانی سے اپنی گراں قدر خدمات انجام دیتا ہے کہ آپ کا لیپ ٹاپ چلے گا نہ موبائل چارج ہو گا۔ ہم دیہاتیوں سے تو خیر کچھ بعید نہیں کہ دیر سویر ہنگامی سفر کرنا پڑے تو ترنگ میں آ کر سواری کے لیے اپنا ٹریکٹر ہی نکال لیں۔ آپ کو ہماری ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ایسی آرام دہ گاڑی میں سوئے منزل جانا پڑے تو کمر ایسی دہری ہو گی کہ اپنے وٹس ایپ کے ذریعے دنیا سے رابطہ منقطع ہونے کا غم بھی بھول جائے گا۔ ہمارا ایک کزن موٹر سائیکل پر ہم سے ملنے آیا۔ راستے میں اسے تیز بارش اور اولوں نے آ لیا۔ ہمارے گھر تک پہنچتے پہنچتے اس کا حشر نشر ہو گیا۔ اس نے سواری سے اترتے ہی پہلا جملہ یہ کہا ''جو لوگ ٹریکٹر اور موٹر سائیکل کو گاڑی کہتے ہیں، جی کرتا ہے کہ ایک جھانپڑ دوں ان کے منہ پر‘‘ بہت ممکن ہے کہ یہاں کے اس نوع کے کسی خوشگوار سفر کے بعد آپ کے جذبات بھی کچھ ایسے ہی ہو جائیں۔
مٹی کے کچے گھروندوں کی سوندھی خوشبو بھی آپ کو پسند ہے۔ چوبیس گھنٹے خوشبودار مٹی کے گھروندے میں رہنا پڑے تو ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ فر یج نہ اے سی، پانی نہ باتھ روم، بجلی نہ گیس، صوفہ نہ بیڈ، فقط کھٹملوں سے لبریز ٹوٹی چارپائیاں اور مٹی کی سوندھی خوشبو... رہے نام اللہ کا۔ مٹی کے گھروندوں میں گائیں، بکریاں اور مرغیاں بھی مکینوں کے ساتھ برابری کی سطح پر قیام پذیر ہوتی ہیں۔ ان کی سحر انگیز خوشبو بھی مٹی کی سوندھی خوشبو میں شامل ہو کر اسے دو آتشہ کر دیتی ہے۔ آزمائش شرط ہے۔
شہروں میں با صلاحیت اور ذہین مصور خواتین دیہی زندگی کے خوبصورت پورٹریٹس بنا کر عالیشان گیلریوں میں ان کی نمائش کرتی ہیں۔ لش پش کرتی با ذوق شہری بیبیاں دیہی زندگی کے حسن کو اجاگر کرنے والے ان فن پاروں کو دلچسپی سے دیکھتی ہیں۔ اخبارات میں ان کی تصاویر شائع ہوتی ہیں، جن کے ساتھ لکھا ہوتا ہے ''خواتین آرٹ کے نمونوں کو دلچسپی سے دیکھ رہی ہیں‘‘ حالانکہ یہ نہ لکھا جائے تو بھی دلچسپی ان کے اَنگ اَنگ سے عیاں ہوتی ہے۔ ان شہ پاروں میں دیہاتی عورتیں سر سبز لہلہاتے کھیتوں کے درمیان بل کھاتی پگڈنڈیوں پر پانی کے دو دو گھڑے سروں پر اور ایک ایک بغل میں اٹھا کر جاتے ہو ئے بڑی پر کشش لگتی ہیں۔ ایسے فن پاروں کی فاضل تخلیق کاروں اور ان کو دلچسپی سے دیکھنے والیوں کو اگر ان سر سبز لہلہاتے کھیتوں کے درمیان بل کھاتی پگڈنڈیوں پر پانی سے بھرے تین گھڑے اٹھا کر بیس قدم بھی چلنا پڑے تو ان کے لیے یہ تجربہ ڈرائونا خواب بن کر رہ جائے۔ کئی پورٹریٹس میں دہقان کھیتوں اور کھلیانوں میں سونا اگاتے نظر آتے ہیں۔ اگر ایسے شاندار شاہکاروں کے ہنر مندوں کو یہ سونا اگانا پڑے تو ان کی آنکھیں ابل پڑیں۔
ہاں یاد آیا! مٹی کے کچے گھروندوں کی چھتوں میں سانپ اور بچھو وغیرہ بھی رینگتے رہتے ہیں۔ یہاں بھِڑیں بھی بکثرت پائی جاتی ہیں، جن کے کاٹنے سے بقول خالد مسعود خان ''منہ سُج بھڑولا‘‘ ہوتا ہے۔ اس سلسلے کی ایک آپ بیتی آپ کو سناتے ہیں۔ گزشتہ موسم گرما کے دوران ہمارے گھروندے میں بھِڑوں نے متعدد چھتے قائم کر لیے۔ وہ کئی ماہ تک وقتاً فوقتاً ہم لوگوں کو کاٹتی رہیں۔ ہم نے ہمیشہ صبر اور برداشت سے کام لیا اور ان کے ڈر سے بھِڑوں کے کسی بھی چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے گریز کیا۔ پھر ایک دن جب وہ وہاں کھیلتے ہمارے بچوں پر حملہ آور ہو گئیں تو ان کی چیخ و پکار سے ہمارے دل دہل گئے۔ ہمارے جذبات اس وقت وہی تھے جو نائن الیون کے بعد امریکیوں اور پیرس میں دہشت گردی کی وارداتوںکے بعد اہل مغرب کے تھے۔ پس ہم لوگوں نے ان کے خلاف انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ''ہتھیاروں‘‘ سے مسلح ہو کر انہیں گھیر لیا۔ خدا نے ہمیں ایسی ہمت دی کہ چند ہی منٹوں کے اندر جا بجا بھِڑوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ غلطی ہم سے یہ ہوئی تھی کہ ہم نے شروع میں بھڑوں کے چھتے قائم کرنے کے عمل سے جان بوجھ کر صرف نظر کیا، بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ ہم نے انہیں اپنے ٹھکانے بنانے کی خاطر ممکنہ سہولتیں بھی فراہم کیں، ورنہ یہ نوبت نہ آتی۔
بر سبیل تذکرہ! یہ بھڑوں کا قضیہ بھی عجیب ہے۔ دنیا میں ان کو تخلیق کرنے اور ان میں زہر بھر کر دشمنوں پر چھوڑنے والی بڑی طاقتیں یہ نہیں سوچتیں کہ وہ کبھی خود ان پر بھی حملہ آور ہو سکتی ہیں۔ مانتے ہیں کہ ہمارے کئی ''گھر کے چراغ‘‘ اپنے گھر کو آگ لگانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں اور ''میں اگر سوختہ بخت ہوں تو یہ روز سیاہ/ خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغوں نے مجھے‘‘... لیکن سوچنا چاہیے کہ ان بھِڑوں کو ہمارے گھر کے چراغ بنایا کس نے اور اپنی جنگوں کے ایندھن کے لیے ان میں زہر کس نے بھرا؟ ہم ''کچے گھروندوں‘‘ والے تو اپنی عاقبت نا اندیشی کے طفیل خام مال مہیا کرتے ہیں‘ لیکن ان کے اصل موجد کون ہیں اور فنڈنگ کرکے انہیں زہریلا کون بناتا ہے؟ پوچھنا چاہیے کہ ہم ''دیہاتیوں‘‘ کو جہالت کے خچروں پر بٹھا کر پتھر کے دور کی طرف ہانکنے والوں کا اصل مالک کون ہے؟ بلا شبہ ہم نے خود بھی جنونی بھڑوں کو زہر سے مسلح کرکے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں نام کمایا ہے مگر ''اہل شہر‘‘ سے سوال کرنے میں کیا حرج ہے کہ یہ کارِ خیر کس کی سرپرستی میں شروع ہوا اور کمال کا یہ ہنر ہمیں سکھایا کس نے؟
آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمارے کچے گھروندے پر لفظوں کی سنگ باری کی ہے تو وزیر اعظم نے قابل قدر اور جرأت مندانہ یوٹرن لیا ہے، ورنہ اس سے قبل تو ہم ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم ہی کرتے آئے ہیں۔ امریکی صدر نے حسب معمول طعنہ فرسائی کی کہ پاکستان ہم سے رقم لے کر بھی ہمارے لیے کچھ نہیں کرتا، اب یہ سلسلہ نہیں چلے گا۔ عمران خان نے جواب میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا 123 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، جبکہ امریکہ کی طرف سے ہمیں فقط 20 ارب ڈالر ملے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم وہی کریں گے، جو ہمارے مفاد میں ہو گا۔ آرمی چیف جنرل باجوہ نے یاد دلایا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ کے بعد امن قائم کیا ہے اور اس امن کے لیے فوجی، اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی طور پر بھاری قیمت چکائی ہے۔
ہم نے امریکی مفادات کی خاطر اپنا کچا گھروندا تباہ کر لیا مگر وہ اب بھی راضی نہیں۔ عدل کا تقاضا ہے کہ تیسری دنیا میں بھی انسانیت کے خلاف بھڑوں کے کسی حملے کی اتنی ہی مذمت کی جائے اور ان کے خلاف ویسے ہی اقدامات کیے جائیں، جیسے پہلی دنیا میں ان کی کسی انسانیت سوز حرکت کے بعد کئے جاتے ہیں۔ ''لگژری گھروں‘‘ میں اگر بارود کی بُو ناگوار ہے تو ''مٹی کے گھروندوں‘‘ میں کیوں رَوا ہے صاحب؟ ''شہروں‘‘ میں بھڑوں کے کاٹنے سے جب ''منہ سُج بھڑولے‘‘ ہوتے ہیں تو جذبات شیش ناگ ہو جاتے ہیں جبکہ ''دیہاتیوں‘‘ کو ہمیشہ ''ڈو مور‘‘ کا سبق دیا جاتا ہے، بھڑوں کی تخلیق کے دوران بھی اور ان کے خاتمے کے وقت بھی۔ ضرورت اس امر کی جائے کہ ہمارے سمیت ساری دنیا اپنے اپنے گریبان میں جھانکے کہ ان کی کن پالیسیوں کے طفیل تخریب بدوش بھڑیں پیدا ہوتی‘ اور دنیا کا امن تباہ کرتی ہیں۔ پس ان کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مینوفیکچرنگ انڈسٹریز بھی بند کرنا ہوں گی، ''کچے گھروندوں‘‘ میں اور خصوصاً ''امرا کے دولت کدوں‘‘ میں بھی۔ خدا کرے، ہمارے وزیر اعظم اپنے عزم پر ثابت قدم رہیں کہ اب ہم وہی کریں گے، جو ہمار ے مفاد میں ہو گا۔