دوسبق آموزکہانیاں

سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی ایک پرانی کہانی کچھ یوں ہے کہ گیدڑوں کے ایک ناہنجار گروہ نے جاٹ کے کھیت کو نشانے پر رکھ لیا۔ وہ سرِ شام جنگل سے لانگ مارچ کرتے ہوئے کھیت میں وارد ہوتے اور خربوزوں کی ''ضیافت بالجبر‘‘ اڑانے کے بعد رات گئے واپس جنگل کی راہ لیتے۔ تنگ آ کر جاٹوں نے گیدڑوں کے دانت کھٹے کرنے کا منصوبہ بنایا۔ وہ رات کو ڈنڈوں سے مسلح ہوکر کھیت کے قریب چھپ کر بیٹھ گئے۔گیدڑوں کے گروہ کا سر غنہ ایک ''ماما‘‘ نامی عمر رسیدہ گیدڑ تھا ۔ اس رات بھی وہ حسب معمول مامے کی قیادت میں خراماں خراماں آئے اور کھیت میں داخل ہوکر فصل اجاڑنے میں جُت گئے ۔ اچانک جاٹوں نے نکل کر ان پر حملہ کردیا ۔ اس ناگہانی اُفتاد پر باقی گیدڑ تو خوفزدہ ہوکر بھاگ گئے‘ لیکن ماما اپنی پیرانہ سالی کی بنا پر زیادہ پھرتی نہ دکھا سکا اور جاٹوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ وہ ڈنڈے کھاتا بھگوڑے گیدڑوں کو اپنی مدد کرنے کے لیے پکارتا رہا مگر یہ التجا صدا بہ صحرا نکلی اور اس کی سپاہ بے فیض پلٹ کر نہ آئی ۔ 
ماما بڑا منجھا ہوا شعبدہ باز لیڈر تھا ‘ جس نے اپنی زندگی میں حیرت افزا کرتبوں کے کئی سرکس لگائے تھے ۔جاٹوں کی طرف سے مناسب تواضع کے جاں گسل مرحلے سے گزرنے کے بعد ماما جب جنگل میں پہنچا تو اس نے سب گیدڑوں کو اکٹھا کیااور ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا :بے وقوفو! میں تمہیں بلاتا رہا کیونکہ میں جاٹوں سے مذاکرات کر رہا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ اگر خربوزے کھانے ہیں تو چوری کی بجائے قانونی طریقے سے پرمٹ بنوا کر کھائو۔ گیدڑ ہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہے تھے ۔مامے نے انہیں تسلی دیتے ہوئے سلسلہ کلام جاری رکھا :بہرحال! تمہارے لیے خوشخبری ہے کہ جاٹوں نے تمہیں اپنی آغوشِ کفالت میں لے لیا ہے اور میں پرمٹ بنوا لایا ہو۔ اب تم سب قانونی طریقے سے خربوزے کھانے کے لیے تیار ہو جائو ۔ چونکہ گیدڑ ازل سے فکری طور پر کنگال اوروژن سے عاری ہوتے ہیں ‘نیز حماقتوں پر ان کی اجارہ داری بھی مسلم ہے ‘ لہٰذا یہ طائفہ رات بھر خوشی سے بھجن گاتا ‘تالیاں بجاتا اور مامے کے گرد جھومر ڈالتا رہا ‘مگر کسی نے بھی پرمٹ دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی ۔ اگلی رات کوتاہ بیں گیدڑوں کا کارواں ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ مامے کی قیادت میں جادہ پیما ہوا۔ ادھر پچھلی رات کی ناکام کارروائی کے بعد جاٹوں نے اپنے منصوبے میں تبدیلیاں کیں اور پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں ڈنڈا بردار فورس نے بمعہ جال کھیت کو چہار اطراف سے گھیر لیا۔ گروہِ گیدڑاں ناچتا گاتا جائے واردات پر پہنچا تو ماما کھیت سے ذرا ہٹ کر جنگل جانے والے راستے پر چوکنا ہوکر بیٹھ گیا اور اپنی فورس کو حکم دیا کہ شیربن کر خربوزوں پر ٹوٹ پڑو‘ اگر کوئی جاٹ آ گیا تو میں پرمٹ دکھا کر اس کا منہ بند کر دوں گا۔ جب تمام گیدڑ کھیت میں داخل ہوکر مصروف عمل ہو گئے تو جاٹوں نے کثیر سمتی پیش قدمی کرتے ہوئے اچانک کمانڈو کارروائی کی اور سارا گروہ جال میں پھنس گیا ۔ ماما جو دور کھڑا پابہ رکاب تھا ‘یہ منظر دیکھتے ہی بھاگ کرجنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔جاٹوں نے ڈانگ سوٹے سنبھالنے شروع کیے تو گیدڑوں کے اوسان وغیرہ وغیرہ خطا ہو گئے ۔انہوں نے چیختے ہوئے مامے کو پکارا اور جاٹوں کو پرمٹ دکھانے کے لیے دہائی دی ۔ ماما دور جا چکا تھا۔ وہ گیدڑوں کا شور سن کررکا اور ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر با آواز بلند خطاب کیا:بچو! یہ سارے جاٹ ان پڑھ ہیں ...ان کو پرمٹ دکھانے سے کیا فائدہ؟
سبق:یہ کہانی بہت پرانی اور بوسیدہ ہو چکی ہے ۔ آج سیٹلائٹ اور انٹر نیٹ کے عہد میں ایسی لغو اور بے ہودہ کہانیاں متروک ہو چکی ہیں ‘ توعقلِ کل ہونے کے مرض میں مبتلا خود ساختہ مامے خواہ مخواہ ان کو دہرانے کی سعی لا حاصل کر رہے ہیں ‘ جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ اس کہانی کا سبق یہ ہے کہ کسی بھی شعبدہ باز مامے کے پاس کبھی کوئی پرمٹ ‘ کوئی مینڈیٹ نہیں ہوتا۔ یہ سادہ لوح لوگوںکے سامنے خود کو''پرمٹ ہولڈر‘‘ قرار دے کر انہیںجاٹوں کا کھیت اجاڑنے کی دعوت دیتے ہیں اور اپنے ساتھ انہیں بھی لے ڈوبتے ہیں ۔رہا کھیت تو وہ جاٹوں کی ملکیت ہے‘ شاملات دیہہ نہیں۔ خربوزے کھانے کے لیے جاٹوں سے حقیقی پرمٹ لینا پڑتا ہے ‘ جو وہ ''پرچی‘‘ کی شکل میں اپنے من پسند لوگوں کو دیتے ہیں ‘ لیکن کسی خود ساختہ مامے کو انہوں نے کبھی بھی یہ مینڈیٹ نہیں دیا۔
دوسری کہانی کچھ یوںہے کہ جنگل میں چرتے ایک اونٹ کی رسی کا ایک سرا نکیل سے بندھا تھا جبکہ دوسرا زمین پر رینگ رہا تھا ۔ ایک جنگلی چوہے نے یہ منظر دیکھا تو اسے ساربانی کے شوق نے آ لیا۔ جب اونٹ نے سیرہوکر واپس گھر کی راہ لی تو چوہے نے بھاگ کر زمین کو چھوتی اس کی رسی پکڑی اور اونٹ کے آگے چلنا شروع کردیا۔ اونٹ غصہ کرنے کی بجائے چوہے کی اس حرکت سے محظوظ ہوا اور خاموشی سے گردن جھکا کر اس کے پیچھے چلنا شروع کردیا۔ اونٹ کے اس شریفانہ رویے نے چوہے کے شوقِ ساربانی کو جلابخشی اور وہ دل ہی دل میں حقیقی ساربان بن بیٹھا۔ چلتے چلتے راستے میں دریا آ گیا۔ ''ساربان‘‘ نے رک کربے بسی سے اونٹ کی طرف دیکھا۔ اونٹ مسکرا دیا اور اسے نکیل کی رسی کے ذریعے اپنی کوہان پر چڑھ آنے کے لیے کہا۔ چوہا جھٹ سے اس پر سوار ہوگیا اور اونٹ دریا پار کرنے لگا۔ چوہے نے اس کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے حدی خوانی شروع کردی اور یوں اب وہ''ساربان ‘‘ کے ساتھ ساتھ ''حدی خوان‘‘ بھی بن گیا۔ آخر دریا کا پاٹ ختم ہوگیا ۔اونٹ نے خشکی پر قدم رکھا تو چوہا فوراً نیچے اترا اور لپک کر دوبارہ نکیل کی رسی تھامنا چاہی ۔ اونٹ نے اچانک سر بلند کرلیا اور رسی چوہے کی دسترس سے باہر ہو گئی ۔ تب اونٹ نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ تم جیسے ایک ہزار چوہے بھی ہوں تو میں ان تمام ''ساربانوں‘‘ کو ایک ہی ہلے میں دریا پار کر ا سکتا ہوں ۔ اونٹوں کو رہنمائی صرف انسانوں کو جچتی ہے ‘چوہوں کو نہیں۔ چوہوں کی اس اجتماعی توہین پر چوہا آگ بگولا ہو گیا اور پھٹ پڑا کہ تم نے ایک ساربان اور حدی خوان کو چوہا کہا ؟ کیا تم میری طاقت سے آشنا نہیں ؟ اونٹ نے قہقہہ لگا کر کہا :ا ے میرے سابق ساربان اور سابق حدی خوان ! وہ محض ایک دل لگی تھی کہ تم نے مختصر وقت کے لیے یہ دونوں مزے لوٹے ۔ اب تمہارے اور میرے گھر کے درمیان دریا کا لمبا پاٹ ہے ۔
سبق:چونکہ ہم اکیسویں صدی میں بھی پھٹے پرانے قصے کہانیوں ہی سے سبق حاصل کرنے پر بضد ہیں ‘ لہٰذا اس کہانی سے یہ سبق لیتے ہیں کہ اونٹوں کو اپنے سر بلند رکھنے چاہیں‘ تاکہ کوئی جنگلی چوہا ان کی نکیل تک نہ پہنچ سکے ۔ چوہوں کو مذاق یا مجبوری کی بنا پر بھی ہر گز ساربان یا حدی خوان جیسے عہدے نہیں دینے چاہیں ‘ ورنہ وہ سچ مچ کے رہنما بن بیٹھتے ہیں اور اپنی خصلتوں کے طفیل خود اونٹوں کے لیے رسوائی کا ساماں کرتے ہیں۔ وہ اونٹوں کی کوہانوں پرسوارہوجائیںتو انہیں شتر سواری کا چسکا پڑ جاتاہے اور پھر انہیں اتارنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ایسے مناصب صرف سلجھے ہوئے اور سنجیدہ انسانوں کے متقاضی ہیں ‘جواونٹوں کو درست سمت میں لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
چونکہ ہم اکیسویں صدی میں بھی پھٹے پرانے قصے کہانیوں ہی سے سبق حاصل کرنے پر بضد ہیں ‘ لہٰذا اس کہانی سے یہ سبق لیتے ہیں کہ اونٹوں کو اپنے سر بلند رکھنے چاہیں‘ تاکہ کوئی جنگلی چوہا ان کی نکیل تک نہ پہنچ سکے ۔ چوہوں کو مذاق یا مجبوری کی بنا پر بھی ہر گز ساربان جیسے عہدے نہیں دینے چاہیں ‘ ورنہ وہ سچ مچ کے رہنما بن بیٹھے ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں