ن…عمران، سلیم جعفر اور پرویز خٹک…

پاکستانیوں کو جہاں آج تک 1992 ء کے ورلڈ کپ کی فتح سرشار کیے رکھتی ہے، وہیں 1987ء کے ورلڈ کپ کی اُداسی اور دل کا ڈوبنااور ٹوٹنا بھی پاکستانی کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ 1992 ء میں تو پاکستان اور پاکستانیوں کو کھلاڑیوں سے زیادہ تقدیر نے ورلڈ کپ جتوایا مگر 1987ء میں جب عمران کو یہ یقین تھا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں پاکستان کے لیے ورلڈ کپ جیتنے سے نہیں روک سکتی ، پاکستان ہار گیا تھا کہ جیت کے لیے خالی یقین نہیں اور بھی بہت کچھ چاہیے ہوتا ہے ۔یقین تو عمران کو الیکشن جیتنے کا بھی تھا، لکھ لکھ کر دیتے بھی رہے مگر ہار گئے… وجہ جو بھی ہو۔ 87 ء کے سیمی فائنل میں پہلے کھیلتی ہوئی آسٹریلیا کی ٹیم تقریباً قابو میں تھی جب عمران نے مِس کیلکولیشن کے باعث بائیں ہاتھ سے بائولنگ کرنے والے سلیم جعفر کو آخری اوور دیا جس میں سٹیووا نے سلیم جعفر کی خوب دھنائی کی اور سلیم جعفر نے آخری اوور میں پورے 18 رنز دیے۔ سلیم جعفر کو پڑنے والا ہر سٹروک پاکستانیوں کے دل پر ضربیں لگا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ آسٹریلیوی بیٹسمین سلیم جعفر کی بال نہیں پاکستانیوں کے دل پر بلے سے وار کر رہے ہوں۔ 87ء کے سیمی فائنل میں جب پاکستان ٹھیک 18 رنز سے شکست کھا گیا تب عمران، پاکستان اور پاکستانیوں کو اندازہ ہوا کہ سلیم جعفر کے آخری اوور کی شکل میں پاکستانیوں کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب پاکستان کی جیت کی امیدیں دم توڑنے لگیں تو سٹیڈیم سمیت پاکستان کے بیشتر گھروں میں مائیں ،بہنیں اور مرد حضرات میچ دیکھنا چھوڑ کر نفل نمازوںکے لیے کھڑے ہو گئے تھے۔ مگر افسوس کہ جب غلط فیصلوں کا زہر اپنا اثر دکھانا شروع کر دے اور تقدیر فیصلہ کر چکے تو دعائیں ،وظیفے اور نمازیں بھی کارگر نہیں ہوا کرتیں بلکہ ویلے دی نماز اور کویلے دیاں ٹکراں کے مصداق تاخیر سے کی ہوئی عبادتوں اور فیصلوں کا نتیجہ ایک ہی ہوا کرتا ہے یعنی صفر یا صرف ٹکریں۔ میں پچھلے کئی دنوں سے ن لیگ کی آنیاں جانیاں اور تحریک انصاف کی لسّی پی ہوئی سُستیاں اور خاموشیاں دیکھ رہا ہوں تو مجھے عمران کا سلیم جعفر کے مجرمانہ 18 رنز کے باعث ہونیو الی شکست کے بعد کا ڈیپریشن زدہ چہرہ بار بار یاد آرہا ہے۔ نتائج کچھ بھی ہوں مگر ن لیگ کی آنیاں جانیاں دیکھیں ۔کاشغر سے گوادر تک تجارتی راہداری، بلٹ ٹرین، لاہور تا کراچی موٹروے جیسے منصوبوں کی نوید۔ نتیجہ تو جب آئے گا سو آئے گا چلیں میڈیا کی حد تک ہی سہی مگر چین کا کامیاب ترین دورہ۔ انرجی کرائسسز کے اوپر ن لیگ کی سوچ بچار کے نتائج تو وقت بتائے گا مگر روزانہ کی بنیاد پر انرجی کرائسسز پر غور کرتی ن لیگ کی قیادت کی خبریں اور تصویریں۔بجلی وگیس چوروں کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز جس کی واقعتاً زبردست عوامی پذیرائی ن لیگ کو حاصل ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی زیادہ آنیوں جانیوں میں کوئی سرکاری حیثیت نہ ہونے کے باوجود سرکاری وفد کے ساتھ جانے والے حسین نواز اور سلمان شہباز کی خبریں بھی دب کر رہ گئیں … ایک طرف خبریں ہی خبریں ہیں دوسری طرف خاموشی ہی خاموشی۔ دکھائے تو اب تک ن لیگ نے بھی صرف خواب ہی ہیں بلکہ الیکشن سے پہلے جن خوابوں کا وعدہ کیا تھا اب تک صرف وعدوں کے اس انبار میںہی اضافہ ہو سکا ہے۔ لوگوں کو ریلیف ان سے بھی نہیں ملا۔ کچھ ملا ہے تو ٹیکس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ یا ٹماٹر عام آدمی کیلئے ہیروں کی طرح مہنگے ہونے کا تحفہ۔ مگر تحریک انصاف تو اب تک نئے خواب بھی نہیں دکھا پائی کُجا کہ پرانے خوابوں کی تعبیر کی طرف قدم بڑھاتی۔ خیبرپختونخوا میں عمران کے سلیم جعفر، اوہ !معاف کیجئے گا پرویز خٹک کی کارکردگی اب تک صرف اتنی ہے کہ موصوف وزیراعلیٰ بننے کے چند دنوں بعد ہی سب سے زیادہ انسانی جانوں کی قربانی دینے والے صوبے کے لوگوں کی بگڑی معاشی حالت کے باوجود ادا کیے ہوئے ٹیکس کی رقم سے خریدے ہیلی کاپٹر پر ذاتی دوست کی خوشی کی تقریب میں جا پہنچے۔ کیا پرویز خٹک ’’کاکے‘‘ تھے جن کویہ بات عمران اور میڈیا کو بتانی پڑی کہ حضور بارود کی بو میں بسے صوبے کے لوگوں کے وسائل کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں۔ خیبرپختونخوا میں اب تک کی کل کارکردگی یا تو یہ واقعہ ہے یا پرویز خٹک کا ایک ایسے کپتان کو دو عہدے چھوڑنے سے ٹکاسا جواب جس کے نام سے کبھی کھلاڑیوں کی ٹانگیں کانپا کرتی تھیں۔ اچھا ہے خان صاحب کو بھی تو کچھ کرکٹ اور سیاست میں فرق کا پتہ چلے کہ اب پرویز خٹک جیسے ’’پادشاہوں‘‘ کے ساتھ کام کرنا ہے وسیم ، انضمام اور مشتاق جیسے فرمانبرداروں اورمعصوموں کے ساتھ نہیں۔ یار لوگ ن لیگ کی آنیوں جانیوں کو ماہر مداری کے کرتب سے تشبیہہ دیتے پائے جاتے ہیں۔ افسوس کہ پی ٹی آئی توخیبرپختونخوا میں تا حال کوئی مداری پنا بھی نہیں دکھا سکی کہ چار لوگ اور یار لوگ دل ’’پشوری‘‘ کرتے ہوئے کچھ دیر کو ہی سہی مداری کے گھٹنے کے نیچے رکھی پٹاری میں بند ’’اِچھا دھاری‘‘ ناگ کے درشن کی آس میں دنیا ومافیہا سے بے خبر ہو سکتے۔ کسی بھی قوم سے مداری پنا کرنے والوں کو موت آئے پر سچ یہی ہے کہ مداری پن لاکھ بُرا سہی مگر ہمارے جیسی قوم جو کچھ نہیں کرتی اگر نام نہادتاجر نما لیڈروں اور مداریوں کے تماشے بھی ان کی زندگیوں سے نکال دیئے جائیں تو ذرا سوچیں کہ زندگی کیسی بے کیف، بے رنگ اور شاید خوفناک اور خطرناک بھی ہو جائے۔ کہ جو ’’ویلے‘‘ ،مداری کا تماشہ دیکھنے میں مصروف نہیں ہوتے وہ قتل و غارت گری ،ڈکیتی وچوری چکاری میں مصروف ہو جایا کرتے ہیں کہ جب کرنے کو کچھ نہ ہو تو مداری یا چوری چکاری… کچھ نہ کچھ تو چاہیے ہوتا ہے لہو گرم رکھنے کو…!!! سو خان صاحب جب کمر کے درد کے باعث حاصل کردہ ہمدردیوں اور برطانوی شاہی خاندان کی تقریبات میں شرکت سے فراغت پا جائیں تو خیبرپختونخوا پہ کچھ توجہ دیں ورنہ پرویز خٹک ان کیلئے سلیم جعفر ثابت ہو ں گے اور خیبرپختونخوا کی حکومت 1987ء کا سیمی فائنل…!!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں