زخم اِ ن بچوں کے سونے نہیں دیتے ہیں مجھے…!!!

ٹی وی پروگرام میں گفتگو کا موضوع تھا احترامِ انسانیت۔ اقبال یاد آتے رہے… ع آدمیت احترامِ آدمی گفتگو ہوتی رہی۔ ساتھ ساتھ مچھ میں قتل ہونے والے 13بے گناہ پاکستانیوں کا خیال بار بار جسم وجاں کو جھنجھوڑتا رہا۔اُمتِ رحمت اللعالمین کی مملکت میں جو حشر بپا ہے دل سوچ سوچ کے ڈوبتا رہا اُبھرتا رہا۔ عید منانے کے لیے گھروں کو لوٹنے والے پاکستانیوں کے اہلِ خانہ کا سوچ کر ایسی بے چینی وبے دِلی سی رہی کہ ٹھیک سے افطار بھی نہ کر سکا۔ لائبریری میں آکے کتابوں میں پناہ لینے کی کوشش کی۔پڑھتے پڑھتے آنکھیں اور وجود تھکنے لگا تو سجدوں میں سکون حاصل کرنا چاہا۔ بچوں نے آواز دی ’’بابا سحری کا وقت ہوا چاہتا ہے ‘‘ کچھ کھالیجئے ۔ لِیونگ میں گیا جہاں دسترخوان بچھا تھا۔ ابھی لقمے کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ کسی نے ٹی وی آن کر دیا۔ لیاری میں گیارہ بچوں کی ہلاکت کی خبر دل میں خنجر کی طرح اترتی چلی گئی۔ بے یقینی، حیرانی اور پریشانی سے منظر دیکھتا رہا۔ گردن موڑ کر‘ نظریں چُرا کر ٹشو سے آنکھ میں آیا ہوا کھارا پانی صاف کیا۔ بچے باپ کو کمزور نہیں دیکھ سکتے سو ان کے سامنے رو بھی نہیں سکتا تھا ۔ اب کہاں کچھ حلق سے نیچے اترتا۔ سو بس پانی کا ایک گھونٹ پیا اور ’’وبصومِ غدٍ نویتُ من شھر رمضان‘‘ پڑھتے ہوئے ، عید منانے کی غرض سے گھروں کو آنیوالے قتل ہوئے تیرہ پاکستانیوں اور لیاری میں بے موت مارے جانے والے گیارہ ننھے منھے پھول جیسے ’’خوابوں‘‘کے لیے دعا کرتے ہوئے روزہ رکھ لیا۔ یہاں تک یاد ہے کہ نماز کے بعد بستر پر لیٹے لیٹے روشنی پردوں کو چیر کر آنکھوں میں چبھنا شروع ہو گئی تھی ۔ کیا خبر کب نیند آگئی مگر اس دوران مستقل ومسلسل عید منانے کی غرض سے گھروں کو لوٹنے والے تیرہ پاکستانی اور لیاری میں مارے جانے والے گیارہ بچے اور عراق وافغانستان کی بربادی پہ لکھی اپنی ایک پرانی نظم یاد آتی رہی۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وطنِ عزیز کا حال عراق وافغانستان سے بھی بدتر ہو جائے گا۔ سو اسی نظم کے ساتھ اجازت۔ جہاں جہاں بغداد، بصرہ ، قندھار وقندوز کا ذکر ہے وہاں وہاں بنوں، ڈی آئی خان، مچھ، کراچی، سکھر، لاہور، گوادر، وزیرستان وخیبر لگاتے چلے جائیں … افسوس صد افسوس کہ نظم آپ کو انتہائی اپنی اپنی سی لگنے لگے گی کہ ہمارا تو ہر شہر ہی بصرہ وبغداد ، قندھار وقندوز کا منظر پیش کررہا ہے۔ لوری ماں ! مجھے نیند نہیں آتی ہے ایک مدت سے مجھے نیند نہیں آتی ہے ماں! مجھے لوری سنائو نا سُلا دو نا مجھے ماں! مجھے نیند نہیں آتی ہے رت جگے اب تو مقدر ہیں مری پلکوں کا نیند آئے تو لئے آتی ہے بغداد کی یاد آنکھ لگتے ہی کوئی بیوہ اٹھا دیتی ہے پیٹ کتنا ہی بھروں بھوک نہیں مٹتی ہے جلتے بصرہ کی مجھے پیاس جگا دیتی ہے کوئی قندھار کی وادی سے بلاتا ہے مجھے ذکر قند وز کا آئے تو مجھے لگتا ہے کاٹ کے سر کوئی ہنستا ہے ، جلاتا ہے مجھے بم کی آوازیں مجھے کچھ نہیں کہتی ہیں مگر زخم ان بچوں کے سونے نہیں دیتے ہیں مجھے ماں مری آنکھیں تو پتھر کی ہوئی جاتی ہیں نوجواں لاشے یہ رونے نہیں دیتے ہیں مجھے میرے سینے پہ رکھو ہاتھ رُلا دو نا مجھے …! ماں! مجھے لوری سنائو نا سُلا دو نا مجھے …! ماں ! مجھے نیند نہیں آتی ہے ایک مدت سے مجھے نیند نہیں آتی ہے…!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں