کتے ہم سے آگے، کتے ہم سے برتر

مولانا روم سے لے کرشیکسپیئر ، کیٹس اور ورڈز ورتھ سے لے کر پیبلونرودا، وارث شاہ اور میاں محمد بخش سے لے کر سچل سرمست ، مست توکلی سے لے کر گوئٹے، اقبال اور بلھے شاہ سے لے کر رسول حمزہ توف اور فیض تک اگر دنیا اپنے شاعروں کی مانا اور سنا کرتی تو آج اس حال میں نہ ہوتی جس میں مبتلا ہے۔ صحیح معنوں میں آج تک نہ اپنے آپ کو جان پائی نہ اپنے رب کو، نہ دوستوں کو سمجھ پائی نہ دشمن کو، نہ نفس کی پہچان ہوئی نہ روح کے قفس کے بھید سے آشنا ہو سکی،نہ اعمال کو سمجھ پائی نہ عبادتوں کی روح کو، نہ تکبر کی تلوار سے بچ پائی نہ عجز پہ حاوی غرور سے، نہ لوبھ اور لالچ کی طرف بڑھتے قدم روک پائی نہ شعبدہ بازی اوردکھاوے سے گریز کر پائی۔دریافت کوایجاد وتخلیق سمجھنے کے زعم میں مبتلا، صفر +صفر+ صفر ہونے کے باوجود خود کو ’’کُن‘‘ کے خالق کے منصب پہ سمجھنے والا ایک غلیظ قطرے سے جنم لینے والا انسان، ورنہ ایسا جہان آباد نہ کیے بیٹھا ہوتااگر خود کو اور اپنے رب کو جانا ہوتا ۔پچھلے دنوں بلھے شاہ کی یادیں تازہ کی جاتی رہیں سو کیوں نا آج اس کالم میں بھی اپنے اور اپنے رب کی کھوج میں گم اس عظیم شاعر کی شاعری پہ سر دھنا جائے، کہ اپنی کھوج ہی رب کی کھوج ہے ،انسان اپنے نفس کو پا لے اپنے آپ کو پا لے تو اپنے رب کو پا لیتا ہے اور جو خود کو نہیں پہچان پاتا وہ ساری عمر لوبھ ، لالچ اور طمع کی گلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے، سکون سے عاری سر پٹختا رہتا ہے۔ تبھی تو بلھے شاہ نے کہا: بلھیا! کیہ جاناں میں کون نہ میں مومن وچ مسیتاں نہ میں وچ کفر دی ریتاں نہ میں پاکاں وچ پلیتاں نہ میں موسیٰ نہ فرعون بلھیا! کیہ جاناں میں کون نہ میں اندر بید کتاباں نہ وچ بھنگاں نہ شراباں نہ وچ رنداں مست خراباں نہ وچ جاگن نہ وچ سون بلھیا! کیہ جاناں میں کون نہ میں وچ پلیتی پاکی نہ وچ شادی نہ غم ناکی نہ میں آبی نہ میں خاکی نہ میں آتش نہ میں پون بلھیا! کیہ جاناں میں کون نہ میں بھیت مذہب دا پایا نہ میں آدم حوا جایا نہ کجھ اپنا نام دھرایا نہ وچ بیٹھن نہ وچ بھون بلھیا! کیہ جاناں میں کون اول آخر آپ نوں جاناں نہ کوئی دوجا ہور پچھاناں میتھوں ودھ نہ کوئی سیاناں بلھیا! اوہ کھڑا ہے کون بلھیا! کیہ جاناں میں کون اسی طرح ایک اور جگہ بلھے شاہ لکھتے ہیں… راتیں جاگیں، کریں عبادت راتیں جاگن کُتے، تیتھوں اُتے بھونکنوں بند مول نہ ہوندے جا روڑی تے سُتے، تیتھوں اتے خصم اپنے دا در نہ چھڈدے بھانویں وجن جُتے، تیتھوں اتے بلھے شاہ! کوئی رخت وہاج لے نہیں تے بازی لے گئے کتے تیتھوں اُتے یعنی، کتے تجھ سے برتر ہیں راتوں کو تُوجاگتا ہے اور عبادتیں کرتاہے راتوں کو تو کتے بھی جاگتے ہیں تجھ سے برتر ہیں بھونکنے سے کبھی باز نہیں آتے گندگی کے ڈھیر پر سو جاتے ہیں تجھ سے برتر ہیں چاہے جتنے بھی جوتے پڑیں اپنے مالک کا دروازہ نہیں چھوڑتے تجھ سے بر تر ہیں بلھے شاہ سفر کے لئے کوئی زادِ سفر لے لے ورنہ سمجھ کہ کتے تجھ سے بازی لے گئے تجھ سے برتر ہو کر بلھے شاہ کو پڑھیں اور اپنے ارد گرنظر دوڑائیں ، اخلاص سے عاری اپنے اعمال اور اپنی عبادتوں پہ غور کریں تو یہی لگتا ہے کہ کتے بازی لے گئے۔ کتے ہم سے آگے ، ہم سے اونچے، ہم سے اوپر، ہم سے برتر… تبھی تو اب جی چاہتا ہے کہ بلھے شاہ کے اس شعر پہ عمل کیا جائے ۔ ؎ چل بھلیا! چل اوتھے چلئے جتھے سارے انھے نہ کوئی ساہڈی ذات پچھانے نہ کوئی سانہوں منے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں