پٹرول کی پٹخنی اور تجارتی راہداری کے خواب…

شاعر نے کہا تھا… زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں پائوں پھیلائوں تو دیوار سے سر لگتا ہے غربت چاہے فرد کی ہو یا قوم کی، اس کی حالت اس کے شب و روز بھی اس شعر کی مانند ہوا کرتے ہیں۔ غریب مملکتوں کی حالت بھی ایسی ہی ہوا کرتی ہے کہ پائوں پھیلائیں تو دیوار سے سر لگتا ہے۔ لوڈشیڈنگ میں کمی کرنے کیلئے اربوں روپے ’’جدھر جدھر‘‘ سے نکال کر دیے گئے ’’اُدھر اُدھر‘‘ کی تو جو حالت ہو گی سو ہو گی مگر اربوں روپے کی ادائیگی کے باوجوداندھیروں میں ٹامک ٹویاں مارتے عوام کو جو پٹرول کی پٹخنی دے ماری گئی اس کا جواب نہیں۔ کہنے کو تو پٹرول تقریباً 5روپے ، ڈیزل کا تیل تقریباً 3روپے اور مٹی کا تیل تقریباً 5روپے بڑھایا گیا ہے مگر اس ساری اذیت کو جمع کر لیں تو تقریباً 13روپے کے قریب بنتے ہیں۔ اور ہر وہ شے جس کی تیاری اور ٹرانسپورٹیشن میں پٹرول ، ڈیزل اور مٹی کا تیل استعمال ہوتا ہے اس کی فائنل قیمت پر ان تینوں اضافوں کا افیکٹ اور امپکٹ آئے گا اور عوام کو لے دے جائے گا۔ سو مہنگائی میں اضافہ 6جمع 6بارہ کی بنیاد پر نہیں ہو گا بلکہ 6ضرب 6 36, کے اصول پر مہنگائی ملٹی پلائی ہو گی، جب کہ بارہ کروڑ سے زیادہ کے قریب عوام کی آمدنی وہی چھ ہزار روپے ماہانہ سے نیچے تھی، ہے اور رہے گی۔ صرف مہنگائی ملٹی پلائی نہیں ہو گی بلکہ عوام کے دُکھ اس سے بھی کہیں زیادہ تیزی سے ملٹی پلائی ہوں گے۔ یہ دُکھوں کی ملٹی پلیکیشن ہی کا نتیجہ ہے کہ باپ اپنے سگے بیٹوں کو قتل کر کے خود کشی کیلئے عمارتوں سے چھلانگ لگانا چاہ رہے ہیں۔ تبھی تو ارشاد ہوا تھا کہ غربت کفر تک لے جاتی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ غربت جرائم کی ماں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ غربت سے بڑا جرم شاید ہی کوئی دنیا میں ہو۔ خصوصاً وہ غربت جو اشرافیہ، سیاسیہ، جاگیرداریہ اور تجار کی لوٹ مارا ور ملی بھگت کے باعث عوام الناس پر مسلّط کی گئی ہو جیسی ہمارے ہاں مسلّط ہے۔ آج کل کاشغر سے گوادر راہداری کے خواب کا بڑا چرچا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ خواب اور خواہشیں انسانی ترقی کے دَر وا کیا کرتی ہیں خصوصاً اگر ان کے پیچھے عمل اور اخلاص کی قوت بھی ہو تو ۔اور جس طرح اس حوالے سے پالیسی فریم ورک تیار کرنے کی خبریں آرہی ہیں، جس طرح اس راہداری کے سلسلے میں سکریٹریٹ کے قیام کی اطلاعات آئی ہیں وہ یقینا ایک خوش آئند عمل ہے۔گوادر تا کاشغر راہداری کا نعرہ حکومت اب اتنا آگے بڑھ کر اور اتنے واشگاف الفاظ میں لگا چکی ہے کہ اسے یقینا اس دعوے اور نعرے کو بلٹ ٹرین والے نعرے کی طرح دبائے رکھنے میں بھی دشواری پیش آئے گی۔ سو خواب یقینا دیکھے بھی جائیں اور دکھائے بھی جائیں مگر خوابوں کے اس سفر میں مہنگائی سے مرنے والوں کے زندہ رہنے کا بھی کچھ اہتمام کیا جائے۔ بقول فراز خواب مرتے نہیں… تو یہ نہ ہو کہ خواب تو سلامت رہیں مگر منزل کی طرف کچھ اس سست رفتاری سے گامزن ہوں کہ جنہیں خواب دکھائے جا رہے ہیں وہ ان خوابوں کی تکمیل تک دنیا سے کوچ کر چکے ہوں ۔ خوابوں کی تکمیل کا کوئی ٹائم فریم ہو کہ نہ ہو مگر خواب دیکھنے والوں اور خواب دیکھنے والی آنکھوں کی عمریں بہت طویل نہیں ہوا کرتیں اور لوڈ شیڈنگ میں ٹامک ٹویاں مارتے عوام کی ان عمروں کو پٹرول کی پٹخنیاں مزید مختصر کر دیا کرتی ہیں تبھی تو بے چارے کہیں گردن میں روٹیاں ڈالے ، مرغا بنے نظر آتے ہیں کہیں سگے بیٹوں کو قتل کر کے چھت پہ چھلانگ لگانے کی غرض سے چڑھ جاتے ہیں۔ اور کہیں زندگی سے پیچھا چھڑانے کے لیے بجلی کے کھمبے سے کودنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو کھمبا زندگی میں روشنی نہ دے پائے، کیا خبر اس سے کود کے ہی موت کی آسودگی نصیب ہو جائے۔ آخر میں ہم سب کے محبوب شاعر فرازؔ کی وہی نظم جس کا تذکرہ اوپر ہوا … خواب مرتے نہیں خواب مرتے نہیں خواب دل ہیں، نہ آنکھیں، نہ سانسیں کہ جو ریزہ ریزہ ہُوئے تو بکھر جائیں گے جسم کی موت سے یہ بھی مرجائیں گے خواب مرتے نہیں خواب تو روشنی ہیں، نوا ہیں، ہَوا ہیں جو کالے پہاڑوں سے رُکتے نہیں ظلم کے دوزخوں سے بھی پھکتے نہیں روشنی اور نوا اور ہَوا کے عَلَم مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں خواب تو حرف ہیں خواب تو نُور ہیں خواب سُقراط ہیں خواب منصور ہیں… مانا کہ خواب واقعی نہیں مرتے لیکن اگر خواب دیکھنے والی آنکھیں دم توڑ جائیں تو خواب مکمل ہو کر بھی ادھورے رہ جاتے ہیں۔خوابوں کی تکمیل میں تاخیر بھی ایک طرح سے خواب دیکھنے والے اور خود خواب کی بھی موت ہوا کرتی ہے۔ اس حوالے سے اپنا ہی ایک شعر یاد آگیا… جس کی تکمیل پہ آنکھیں بھی گئیں دل بھی گیا عُمر گزری تھی اسی خواب کے پیچھے پیچھے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں