آنکھوں میں حسین مستقبل کے خواب سجائے نوجوان شاہ زیب کے قاتل شاہ رخ جتوئی کے رویے اور رعونت پر نظر ڈالی جائے اور عمر حیات نامی رکشہ ڈرائیور کے جرم کو بغور دیکھا جائے تو غربت اور امارت کی وہ انتہائیں نظر آتی ہیں جو کسی بھی معاشرے کو برباد کر دینے کیلئے کافی ہوا کرتی ہیں۔ ایک طرف سرمایے دولت اور طاقت کا اس قدر اندھا غرور ہے کہ عام آدمی، عام انسان کو چھوڑ کر جو بیچارے بہت کم (Matter)مَیٹر کیا کرتے ہیں، بیشتر طاقت ور ادارے اور افراد دولت، طاقت ، سرمایے ، غرور ورعونت کی علامت شاہ رخ جتوئی کو بچانے میں مصرف عمل رہے اور ہیں دوسری طرف عمر حیات کی شکل میں ذلت واذیت میں زندگی گزارتے کروڑوں عوام جن کی ذلت واذیت کی واحد وجہ غربت ہے اور غربت بھی وہ جو ہمارے حکمرانوں کی بداعمالیوں ہوسِ اقتدار وحُبِ حشمت وجاہ واقرباپروری وموروثی سیاست کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ ایک طرف امارت میں لتھڑے شاہ رخوں کے باپوں جیسے رویے اور تربیت ہے جو اولادوں کو اپنے سوا ساری دنیا کو قدموں میں روند دینے کی ہلا شیری دیتے ہیں کہ جانتے ہیں کہ یہ برباد سسٹم اور کمزور ریاست ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی تبھی تو اسلام کے واضح حکم کہ ’’جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا پوری انسانیت کو قتل کیا‘‘ کے باوجود قتلِ ناحق پر ندامت کے بجائے ڈشکروں کی طرح اپنے حامیو ں کے جلو میں ہلارے اور للکارے مارنے اور وکٹری کا نشان بناتے ہوئے دندیاں نکالنے کیلئے بے پناہ بے حسی اور حوصلہ چاہیے جو صرف اورصرف دولت سے ہی حاصل نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ ایک ایسے نظام میں ہی ممکن ہوا کرتا ہے جہاں ریاست، بااختیار وطاقت ور لوگوں کی باندی ہو اور پھر طاقت و اختیار کے بل بوتے پر باآسانی حاصل کی گئی دولت کے نشے میں دُھت ہو کر کروڑوں لوگوں کو اپنے غلاموں باندیوں اور کنیزوں کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہو۔ جسے چاہا اٹھا یا، یا اُٹھوا لیا، جسے چاہا تنگ کیا جس کی چاہی پگڑی وعزت اُچھالی اور اگر کسی نے پگڑی وغیرت اچھالے جانے پر احتجاج کیا تو اسے عذاب میں مبتلا کر دیا قتل کر ڈالا یا کروا ڈالا اور اگر کسی نے مقتول کے کیس کی پیروی کرنے کی کوشش کی تو اس کیلئے زندگی عذاب بنا دی گئی۔ کہ وہ ریاست جو مظلوم کو اپنے حق وانصاف کے حصول کے سلسلے میں آسانی اور جان کی امان وحفاظت فراہم کرتی ہے وہ تو دولت اختیار وطاقت والوں کو بچانے میں لگی ہوتی ہے۔ اہلکار انصاف دلانے کے بجائے مظلوم کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔نتیجتاًآخر میں، دولت، اختیار اور طاقت، قوت کے بل بوتے پر اسلام جیسے آفاقی مذہب کے درخشاں اصولوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر کے قصاص ودیت جیسے قوانین کو توڑ مروڑ کر اپنے حق میں برت کر جیت جایا کرتے ہیں اور غربت وعسرت ہار جایا کرتی ہے کہ تاریخِ عالم میں، غربت عسرت کے سر پر دست شفقت صرف ریاست رکھا کرتی ہے اور اگر ریاست، دولت وامارت کی باندی ہو جائے تو عام آدمی ایسے ہی انصاف کے لیے ذلیل وخوار ورسوا ہوا کرتا ہے جیسے اس مملکت پاکستان میں ہو رہا ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ مائوں نے لخت جگر کی لاش کا سودا پیسے سے کر لیا مگر حقیقت میں ماں کو بتا دیا جاتا ہے کہ ماںکے بیٹے کا قاتل تو کسی نہ کسی طرح باہر آجائے گا مگر ماں کے دامن میں جو کچھ بچا ہے وہ بھی اس سے چھین لیا جائے گا۔ بیٹا تو گیا عزت اور سَر کا سائیں بھی جاتا رہے گا۔ جب ریاست جیسی ماں ہی اپنی کروڑوں اولادوں کو مٹھی بھر طاقتوروں کے ہاتھ میں یرغمال بنا دے تو شاہ زیب جیسوں کی کمزور مائیں کیا کر سکتی ہیں؟ دوسری طرف عمر حیات کا بیان بھی اس ’’غربت‘‘ کی کرشمہ سازیوں سے پردہ ہٹانے کیلئے کافی ہے بلکہ چھوڑیں عمر حیات کو اس کی بیوی جس نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ درج کروایا اس کا بیان ہے کہ ’’غربت کی وجہ سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے جس پر اکثر گھر میں لڑائی جھگڑا ہوتا تھا۔ بچی کیلئے کئی کئی دن دودھ تک خریدنے کے پیسے نہیں ہوا کرتے تھے‘‘ اور یہ جو رپورٹ ہوا ہے کہ باپ نے غیرت کے مارے قتل کر دیا تو دو سال کی بچی کے معاملے میں کیا غیرت کا معاملہ ہو سکتا ہے۔؟اور اگر غیرت یا صرف بیٹے کی خواہش کا معاملہ ہی تھا تو پہلی بچی کو پالتا رہا پھر دوسری کو بھی دو ڈھائی سال تک کیسے پالتا رہا۔؟ تیسرے یہ کہ کسی وقت اس پر لکھوں گا کہ یہ نام نہاد غیرت کے پیچھے بھی اسی فیصد سے زیادہ معاملات میں غربت ہی ہوا کرتی ہے جو غیرت کے کاندھے پر بندوق رکھ کر جرم یا قتل کروایا کرتی ہے۔ غربت ومفلسی نہ ہو تو جہیز سے لے کر شادی بیاہ کے اخراجات تک کی فکر نہیں ہوا کرتی نتیجتاً بیٹیاں بوجھ نہیں لگتیں۔ جنہیں لگتی ہیں انہیں بھی صرف غربت کے باعث بوجھ لگتی ہیں۔ غیرت کا بوٹابھی اکثر غربت کے بیج سے ہی پھوٹا کرتا ہے کبھی سوچیے یہ نام نہاد غیرت بیچارے غریبوں کیلئے ہی کیوں رہ جاتی ہے…؟ بیٹیاں اور بوجھ کے لفظ پر ہی ذرا غور کر لیں تو سارا معاملہ سمجھ آجائے گا۔یہی وجہ ہے کہ اگر غربت ومفلسی کے باعث بیٹا بھی بوجھ لگنے لگے تو بھی انسان عمر حیات بننے پر مجبور ہو جایا کرتا ہے۔ وہ جو پچھلے دنوں ایک باپ اپنے سگے معصوم وکم سن بیٹے کو قتل کر کے بلڈنگ سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرنے جا رہا تھا وہ۔؟ سو یہ قتل غیرت نے نہیں غربت نے کیا ہے۔؟یہ شاہ رخ جتوئیوں جیسوں کا رویہ وحوصلہ بھی غریب کو پائوں کی جوتی سمجھنے کے باعث جنم لیا کرتا ہے۔ پس شاہ رخ سے شیر خوار بچی کے قتل تک صرف غربت ہی ہے جو غریب کو قتل کر رہی ہے مار رہی ہے عدالتوں کو فریب دے کر بچ نکلنے کی کوشش کر رہی ہے اگر اس ملک میں شاہ زیبوں سے لے کر شیر خواروں تک کو مرنے اور قتل ہونے سے روکنا ہے تو غربت کو مارڈالیں ورنہ مفلسی ایک ایک کر کے سب کو مارتی چلی جائے گی اور جو زندہ بچیں گے وہ بھی اندر سے مر چکے ہوں گے۔ چلتی پھرتی لاشوں والا محاورہ اگر سمجھنا ہے تو پاکستان کے کروڑوں بھوکے ننگے غربت ومفلسی کی چکی میں پِستے عوام کو دیکھیں، سمجھ میں آجائے گا۔ چلتے چلتے شیئر کرتا چلوں کہ 90 دن کی حکومت کی کارکردگی بتاتی ہے کہ ضروریاتِ زندگی کی مختلف اشیاء کی قیمتوں میں تقریباً 15سے 35فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس رپورٹ کا مطلب ہے کہ یہ صرف نرخوں میں اضافہ نہیں ہے بلکہ کروڑوں عوام کی اذیت وغربت میں اضافہ ہے وہی غربت جس کے باعث شاہ رخ جتوئی جیسے دندناتے پھرتے ہیں۔ شاہ زیب جیسے قتل ہوتے ہیں اور عمر حیات جیسے لوگ اپنے بچوں کو دریا میں بہا دیتے ہیں۔ پس جہاں مہنگائی بے شمار وہاں شاہ زیب جیسے کروڑوں ذلیل وخوار!!