سٹیفن ہاکنگ اور جنید سے مسکرانا سیکھیے!

صوفیاء کا طریق بنیادی طور پر تزکیہ نفس رہا ہے۔ یہ نفس کا منہ زور گھوڑا ہی ہے جسے قابو کرنا‘ جس پہ سواری کرنا ہی انسان کی اصل فتح ہوا کرتی ہے مگر تجربہ یہی بتاتا ہے کہ نفس کے گھوڑے پر سواری کرنے کے بجائے ہم اپنی لگامیں نفس کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں۔ نفس بھی خالقِ کائنات نے دلچسپ اورعجیب وغریب شے بنائی ہے، ساری دنیا پر راج کرنے والے‘ بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک ومختار بعض اوقات اپنے نفس‘مزاج وعادات کے معاملے میں بالکل لاچار وبے بس ہوا کرتے ہیں۔ ایک عالم کو شکست فاش دینے والے، ایک دنیا کو فتح کرنے والے، اپنے مزاج سے بری طرح شکست کھا جایا کرتے ہیں۔ ؎ مجبور ہیں سب اپنی افتادِ طبیعت سے ہو شمع سے کیا شکوہ، پروانے کو کیا کہیے نفس ، مزاج اورعادات کے معاملے میں تقریباً یہی حال علماء ،فضلا ء و دانشوروں کا بھی ہوا کرتا ہے۔ سارا جہان جن سے مشورے لیا کرتا ہے‘ جن کے علم وعقل کا قائل ہوا کرتا ہے وہ بھی اپنے مزاج کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اور بے شمار کیسز میں تو اس کو سمجھنے سے ہی قاصر رہتے ہیں۔ تبھی تو پنجابی کے عظیم شاعر بابا بلھے شاہ نے فرمایا تھا۔ پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا ایں کدی اپنے آپ نوں پڑھیا ای نئیں ایویں روز شیطان نال لڑنا ایں کدی نفس اپنے نال لڑیا ای نئیں میں خود بھی اپنے مزاج کی اداسی اور بے چینی سے بہت تنگ ہوں جو کبھی کبھی ساون کے گھنے اور گہرے بادلوں کی طرح دل ودماغ پر چھا جا یا کرتی ہے اور اس کی کوئی خاص وجہ بھی نہیں ہوا کرتی، مزاج کا یہ اداس موسم بظاہر، دنیاوی لحاظ سے عین خوشی کے دنوں میں بھی طاری ہو سکتا ہے، یعنی عین ممکن ہے کہ جس شے کے لئے برسوں دعائیں مانگی ہوں عین اُس کے حصول کے موقع پر اداسی حملہ آور ہو جائے اور باوجود خوشی پانے کے من مستقل اداس رہے، یہ جو مزاج کے سوئچ کا وقت بے وقت، آن آف ہونے کا عمل ہے نفسیات کی زبان میں اس کو mood swingsبھی کہتے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ میرے ان mood swingsکے باعث مجھ سے زیادہ میری اہلیہ پریشان رہتی ہیں، کیونکہ میرے پاس اداسی کی وجہ کے بارے میں کئے گئے سوال کا کوئی جواب نہیں ہوا کرتا اور بیگمات کا مسئلہ تو قارئین جانتے ہی ہیں کہ انہیں ہر بات کا شافی جواب چاہیے ہوتا ہے ورنہ…!! اب شاعر بھلا بے سبب اداسی کی کیا وجہ بتائے کہ یہ وجہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تو شاعر خود جہانِ فانی سے کوچ کر جایا کرتے ہیں۔ مگر اس بے وجہ اداسی کی وجہ نہیں جان پاتے، جون ایلیا یاد آتے ہیں۔ روح پیاسی کہاں سے آتی ہے یہ اداسی کہاں سے آتی ہے مگر سب کچھ ہوتے ہوئے بھی جب اداسی گھیر لیتی ہے تو میں سٹیفن ہاکنگ سے لے کر سکول کی ایک تقریب میں معذوری کے باوجود حیران کن کارکردگی دکھانے والے طالب علم جنید کو یاد کر لیتا ہوں۔میرے دیرینہ دوست علی لودھی کے الائیڈ سکول کی تقریب کا وہ منظر مجھے اداسی اور مایوسی میں ہمیشہ حوصلہ فراہم کرتا ہے کہ ساتویں جماعت کا طالبعلم جنید جب سٹیج پر آیا تھا تو اس کے دونوں بازئوں کی جگہ صرف آستینیں لٹک رہی تھیں اور تالیوں کی گونج میں کس طرح اعتماد سے سٹیج پر بیٹھ کر اس نے اپنے پیروں کی انگلیوں سے قلم پکڑا اور نہ صرف اپنا نام لکھا بلکہ دومنٹ سے بھی کم دورانیے میں اقبال کی شاندار تصویر بھی بنا ڈالی تھی۔ جنید نامی اس بچے نے مجھے حیران کر دیا تھا، صرف پیروں سے قلم پکڑ کر لکھنے یا تصویر بنانے نے نہیں کہ ایسے ہنر مند اور بھی مل جاتے ہیں، بلکہ جنید کے عزم، حوصلے اور ہمت نے کہ جنید اپنی پوری فیملی کے ساتھ ایک آٹھ بائی چھ کے کمرے میں رہتا ہے اور ایک غریب گورکن کا بیٹا ہے۔ جنید کی ماں نے بتایا تھا کہ اسے بچپن ہی سے پڑھنے کا شوق تھا، اور محاورتاً نہیں حقیقتاً وہ دیے کی روشنی اور قبرستان کے صدر دروازے پر لگی کھمبے کی سرکاری ٹیوب لائٹ کے نیچے جا جا کر پڑھا کرتا تھا۔ میری حیرانی کی انتہا نہ رہی تھی جب جنید اور اس کی والدہ نے جنید کے ہاتھوں کی بنی کلر ڈپینٹنگز دکھائی تھیں۔ جنید نے پیروں کی انگلیوں سے ہی کمپیوٹر بھی آپریٹ کر کے دکھایا اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ کمپیوٹر پروگرامر بننا چاہتا ہے۔ جنید کھانا بھی پیروں کی انگلیوں کے ذریعے چمچ تھام کر خود کھاتا ہے،… وہ معذور ہے محتاج نہیں۔ مجھے جنید سے کیا گیا وہ مکالمہ بھی نہیں بھولتا جب میں نے مسکراتے چہرے والے جنید سے پوچھا تھا ’’بیٹا تمہارے دونوں بازو نہیں ہیں تمہیں اس کا دکھ‘ اس کا گلہ نہیں؟ تم پھر بھی مسکراتے رہتے ہو؟‘‘ جنید کا جواب تھا ’’سر! اللہ میاں نے مجھے دیکھنے کیلئے آنکھیں دی ہیں، سونگھنے کیلئے ناک، بولنے کے لئے زبان، سننے کے لئے کان، چلنے کے لئے پائوں اور میرا باقی مکمل وجود، بس یہی سوچ سوچ کر مسکراتا رہتا ہوں کہ اللہ کا شکر کیسے ادا کروں؟ اور اگر مسکرائوں گا نہیں اداس رہوں گا تو کہیں اللہ میاں مجھ سے خفا نہ ہو جائیں، میرے تو صرف دونوں بازو نہیں ہیں بہت سے لوگوں کے پاس تو دنیا میں آنکھیں، کان، بازو، ٹانگیں بھی نہیں ہوتیں، تو جب میں ایسے لاکھوں لوگوں سے بہتر ہوں تو کیوں نہ مسکرائوں۔آپ خود بتائیں سر میرامسکرانا اور اپنے رب کا شکر ادا کرنا بنتا ہے ناں…؟؟ قارئین! میں تو اپنی اداسی کا توڑ سٹیفن ہاکنگ اور جنید جیسے لوگوں کے حوصلے یاد کر کے کرلیتا ہوں اگر آپ بھی کسی وجہ سے اداس رہتے ہیں تو آپ بھی اپنے ارد گرد کسی ’’جنید‘‘ کو تلاش کیجئے۔ سٹیفن ہاکنگ جیسے لوگوں کے بارے میں پڑھیے، جانیے اوران سے ہر وقت مسکرانا سیکھیے۔ یہ آپ کی اداسی دور کر کے آپ میں جینے کا حوصلہ بھر دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں